ہمارے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں کل بھی پس رہے تھے ، آج بھی پس رہے ہیں
* * * * ثمینہ عاصم۔جدہ* * * *
ہمارے وطن عزیز پاکستان میں ایک بات عام ہے کہ جب حکومت کی بات آتی ہے تو اصول کچھ اور ہوتے ہیں اور جب عوام کی بات آتی ہے تو اصول کچھ اور ہوجاتے ہیں۔ ایک پاکستانی سیاستداں دو یا زائد حلقوں سے الیکشن لڑ سکتا ہے مگر ایک شہری دو حلقوں میں ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ عام آدمی اگر جیل میں ہے تو ووٹ نہیں دے سکتا لیکن ایک پاکستانی سیاستداں جیل میں ہونے کے باوجود الیکشن لڑ سکتا ہے۔ اگر کوئی پاکستانی عام آدمی جیل گیا تو وہ سرکاری ملازمت حاصل نہیں کرسکتا مگر ایک سیاستداں کتنی ہی مرتبہ جیل کیوں نہ جاچکا ہو، وہ ملک کا صدر ، وزیراعظم ، ایم پی اے بن سکتا ہے یعنی کوئی بھی عہدہ حاصل کرسکتا ہے لیکن ایک عام آدمی کو سرکاری ملازمت نہیں دی جا سکتی تاکہ وہ مالی پریشانیوں سے تنگ آکر چوریاں کرنے لگے اور ڈاکے ڈالنا شروع کر دے۔ بینک میں معمولی ملازمت حاصل کرنے کیلئے آپ کا گریجویٹ ہونا ضروری ہے لیکن اگر آپ سیاستداں ہوں تو پھر اعلیٰ تعلیمی ڈگری یاتجربہ ضروری نہیں بس ’’نظر التفات‘‘ درکارہوتی ہے۔
حد یہ ہے کہ اگر انگوٹھاچھاپ ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی کسی وی وی آئی پی کے من پسند ہیں تو آپ کوبینک کا افسر ہی نہیں بلکہ وزیر مال بھی بنایاجا سکتا ہے۔ ایسے لوگ بڑے بڑے گھپلے بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں۔ فوج میں عام آدمی کوسپاہی بھرتی ہونے کیلئے 10 کلومیٹر دوڑ لگانے کے قابل ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی اور دماغی طور پر تندرست اور چست ہونا چاہئے لیکن ہمارا سیاستداں اگر کسی اہم ہستی کا من پسند ہے تو اسے تمام تر نااہلی اور ناتجربہ کاری کے باوجود منظم و مسلح ، تجربہ کار اور مثالی اہلیت کی حامل ہستیوں کا سربراہ یا باس بنایا جا سکتا ہے ۔ وہ عوام جو مفلس اور پسماندہ ہیں وہ ملک میں تعمیر کی جانے والی موٹر ویز، رنگ برنگی ٹرینوں، بندرگاہوں زایئرپورٹس اور پُلوں شُلوں کے لئے لئے جانے وا لے غیر ملکی و ملکی قرض اتارنے میں جُتے رہتے ہیں ۔
یہ قرضہ جات عموماًگورے اور سرد ممالک سے لئے جاتے ہیں اور ہم مفلس لوگ جنہیں نہ صحیح تعلیم ملتی ہے، نہ صاف پانی میسر آتاہے، جنہیں نہ رہنے کو اچھا گھرمیسر ہوتاہے اورنہ دووقت کی روٹی دستیاب ہوتی ہے ، ان کی اکثریت تو نوکری کے لئے بھی ترستی ہے ۔ یہ لوگ دن رات مشقت کر کے ، دو کی بجائے ایک وقت کی روٹی کھا کر قرض اتارتے ہیںمگر جو قرض کی رقم ہوتی ہے وہ کنسٹرکشن کمپنی اور دوسرے اداروں میں بانٹ دی جاتی ہے اور تمام قرضوں کا بوجھ پھر غریبوں کی گردن پراجاتا ہے۔
اگر ہم منظرِ وطن پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو احساس ہو گا کہ یہ ایسی سرزمین ہے جہاں بڑی بڑی موٹرویز، سڑکوں اور پلوں کے دائیں بائیں لاکھوں مفلوک الحال رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو فاسٹ فوڈ کے بڑے ریستورانوں ، فیشن کی دکانوں ،ایئرکنڈیشنڈبسوں کہ جن کا کرایہ بھی وہ ادا نہیں کرسکتے، ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ان کو صاف پانی، سستی غذا، خوشگوار ماحول اور تعلیم درکار ہے جو ہمارے ذمہ داران انہیں دے نہیں سکتے۔ ایسے میں وہ پُلوں اور سڑکوں کا کیا کریں؟وہ ان بڑے بڑے مالز اور ہوٹلوں کو حیرت سے دیکھنے اور اپنے صاحبانِ اختیار سے شکایت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے ۔
جو لوگ ان سے ذرا اوپر ہیں وہ رشوتیں لے کر غلط طریقوں سے پیسہ کماکر اپنے لئے تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیںیوں وہ اپنی دنیا خراب اور آخرت برباد کرتے ہیں۔ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ جہاں ملک کی ترقی، تعلیمی اداروں، صحت ،اسپتالوں اور روزگار کے لئے کوئی قرضہ نہیں دیتا بلکہ ان قدرتی وسائل کو حاصل کرنے کیلئے دوسرے ممالک ایسے ملکوں کو قرضے میں ڈبو کر اپناغلام بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارے عوام کی ایک بڑی تعدادسائن بور ڈ نہیں پڑھ سکتی،اپنا نام ٹھیک سے نہیں لکھ پاتی اور ہم بڑے بڑے سیاستدانوں اور فیکٹریوں کے مالکان کے بچوں کیلئے بڑے بڑے اسکول قائم کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ذرا سوچئے کہ وہ لوگ جن کے پاس اپنا پیٹ بھرنے کے لئے پیسے نہیں وہ ان اسکولوں کی فیسیں کہاں سے دیں گے؟اس لئے صرف پیسے والے سرمایہ کاروں کے بچے ان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور باہر کے ممالک میں جاکر ان کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔
کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ہم جس ملک کا نام استعمال کرتے ہیں اس ملک کے لئے ہم کیا کررہے ہیں۔ہمارے بعض سیاستدانوں نے بڑے بڑے ادارے ، برج اور بڑے بڑے موٹر ویزے بناکر اپنی شہرت کو چار چاند لگا دیئے لیکن غریب عوام اس بھوک کا کیا کریں، نوکریاں کہاں سے لائیں ، یہ نمائشی چیزیں عوام کا پیٹ نہیں بھرسکتیں۔ ہمارے عوام کو روزگار ، تعلیم ، پیٹ بھر کر کھانا، صاف پانی اور بچوں کے لئے رہائش اور بہتر مستقبل چاہئے۔ نمائشی چیزوں کے لئے قرض لئے جاتے ہیں اور اپنی شہرت کے سامان پر پیسہ لٹایا جاتا ہے ، کیا یہی عین انصاف ہے ؟ یہ پیسہ اور قرضہ کہاں سے آتا ہے ؟یہ وہ ممالک دیتے ہیں جن کی نظر یں ہمارے قدرتی وسائل اور معدنیات پر ہیں۔ ہمارے بعض رہنمادونوں ہاتھوں سے دولت لوٹنے میں مصروف ہیں۔ بھاری ٹیکسوں اور مہنگائی نے عوام کا خون چوس لیا ہے ۔ ہمارے اکثر لیڈر بھی بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی بات ماننے پر مجبور ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو بڑی آسانی سے انہیں رستے سے ہٹا دیا جاتا ہے اورکسی بھی شکل میں انہیں سماجی ویب سائٹس پر پیش کردیا جاتا ہے۔یہی نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ ہمارے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں کل بھی پس رہے تھے ، آج بھی پس رہے ہیں اور مہنگائیکی چکی میں پسنے پسانے کا سلسلہ اس لئے جاری ہے کہ ہم ایک مقروض قوم ہیں۔