دکھاوے کے لئے خرچ کرنا فائدہ مند نہیں ، ریا کاری درحقیقت اہل ایمان کی خصلت ہے ہی نہیں
* * * * * مولانا محمد عابد ندوی۔ جدہ* * * *
ریا کاری ، نام و نمود اور شہرت کا جذبہ ، نہایت قبیح عادت اور برے اخلاق و کردار میں سے ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں اس بات کو بڑی اہمیت دی گئی کہ بندۂ مومن جو بھی نیک کام کرے وہ اﷲ کے لئے کرے ، اس کا دل اخلاص و للہیت کے جذبہ سے معمور ہو ، اس کا مقصد عمل صالح سے اﷲ کی رضا جوئی اور خوشنودی کا حصول ہو نہ کہ نام و نمود اور لوگوں میں اپنے کو بڑا ظاہر کرنا یا ان کی تعریف اور دنیاوی فائدہ حاصل کرنا ہو ۔ اﷲ تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے ، ا سے وہ نیکی ہرگز قبول نہیں جس کے کرنے میں بندہ مخلص نہ ہو ، اﷲ کی رضا جوئی چھوڑ کر کسی اور کو خوش کرنے یا دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے وہ نیکی انجام دی گئی ہو ۔ ریا کاری ، اخلاص کے منافی اور اس کی ضد ہے۔
اخلاص کا مطلب ہے کوئی کام خالص اﷲ کیلئے کرنا جبکہ ریا کاری کا مطلب ہے اﷲ کو چھوڑ کر دوسروں کو دکھانے کے لئے کوئی کام کیا جائے تاکہ وہ تعریف کریں ، عزت افزائی کریں یا ان سے کوئی اور دنیاوی فائدہ حاصل ہو۔ اس قبیح عادت کے لئے ’’ ریاء ‘‘ ( دکھلاوے ) کی تعبیر قرآن پاک میں جابجا استعمال ہوئی ہے جبکہ احادیث میں اس مفہوم کے لئے ریاء کے علاوہ ’’ سمعہ ‘‘ ( سنانے ) کی تعبیر بھی آئی ہے۔ ریا کا تعلق قوت بصارت ( دیکھنے دکھانے ) سے ہے جبکہ سمعہ کا تعلق قوت سماعت ( سننے سنانے ) سے چنانچہ بعض اہل علم نے ان دونوں میں یہ فرق بھی کیا ہے کہ کوئی عمل لوگوں کو دکھانے کے لئے کیا جائے اور لوگ اس کو دیکھ لیں تو یہ ’’ ریاء ‘‘ ہے جبکہ ’’ سمعہ‘‘ یہ ہے کہ بندہ کوئی عمل اور نیکی اﷲ کے لئے کرے یا چھپ کر کرے لیکن پھر شہرت پانے یا لوگوں کی خوشنودی پانے یا ان سے کوئی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے اپنی نیکی کا چرچا کرے اور لوگوں کو سنائے کہ میں نے فلاں کام کیا اور فلاں نیکی بھی میں نے کی وغیرہ ۔ الغرض ریاء وسمعہ( نیکی اور عمل صالح پر لوگوں کی خوشنودی اور ان سے فائدہ حاصل کرنے کا جذبہ ) نہایت قبیح عبادت اور اﷲ کو سخت ناپسند ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت بیان ہوئی ہے ۔ اخلاص کے بجائے ایسی مذموم اور فاسد نیت سے نہ صرف یہ کہ نیکی ضائع ہوجاتی اور بندہ اجر وثواب سے محروم رہ جاتا ہے بلکہ یہ شدید عذابِ الٰہی کا بھی باعث ہے ( فتح الباری)۔
ریا کاری کی مذمت قرآن میں: قرآن پاک میں جابجا ریا کی مذمت بیان ہوئی۔ اسے باعث عذاب اور نیکی کو ضائع کرنے والا عمل قرار دیا گیا ، یعنی جس نیکی میں بھی ریا شامل ہوجائے وہ نیکی ضائع ہوجاتی ہے،اللہ تعالیٰ کے ہاں شرف قبولیت نہیں پاتی ۔ صدقہ خیرات کے ضمن میں اﷲ تعالیٰ اہل ایمان کو مخاطب کرکے ارشاد فرماتا ہے : ’’اے ایمان والو ! اپنے صدقات کو احسان جتاکر اور تکلیف پہنچاکر ضائع نہ کرو اُس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور اﷲ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔‘‘ (البقرہ264)۔ معلوم ہوا کہ دکھاوے کے لئے خرچ کرنا فائدہ مند نہیں۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ریا کاری درحقیقت اہل ایمان کی خصلت ہے ہی نہیں ۔ یہ ان لوگوں کا شیوہ ہے جو اﷲ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے چنانچہ ایک دوسرے مقام پر ریاکاری کو منافقین کی خصلت قرار دیا گیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’بے شک منافق اﷲ سے چالبازیاں کررہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں،صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں ۔‘‘ (النساء 142 )۔
اسی طرح ایک مقام پر نماز میں سستی و غفلت کرنیوالے ریا کاروں کیلئے ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے ، اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ہلاکت و بربادی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں وہ جو ریا کاری کرتے ہیں ۔‘‘(الماعون6-4 )۔ یعنی نمازوں کا کما حقہ اہتمام نہیں کرتے ، انکی ادائیگی میں غفلت برتتے ہیں ، نمود ونمائش اور لوگوں کو دکھانے کیلئے کبھی لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں تو پڑھ لیتے ہیں ، ورنہ ان کی زندگی میں نماز کا کوئی اہتمام اور حصہ نہیں ہوتا ۔ ’’ ویل ‘‘ حدیث پاک کی رو سے جہنم کی ایک وادی کا نام بھی ہے اور ایک حدیث میں یہ بھی صراحت آئی ہے کہ ’’ ریا کاروں ‘‘ کیلئے جہنم کی ایک خاص وادی مختص ہے ( آگے یہ روایت آرہی ہے ) اس طرح قرآن پاک میں ایک اورجگہ ریا کاری کو کافروں کا شیوہ قرار دیتے ہوئے اہل ایمان کو اس سے روکا گیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی ( دکھاوا ) کرتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلے ۔‘‘(الانفال47)۔ شرک کا درجہ: ریا کاری دراصل کافروں کا شیوہ اور منافقوں کی خصلت ہے تو اس سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ ریا ایک طرح کا شرک ہی ہے۔
قرآن و حدیث میں اسے شرک ہی کہا گیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’پس جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہئے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے ۔‘‘(الکہف110)۔ قبولیت عمل کی 2 اہم شرطیں ہیں: ایک تو یہ کہ وہ عمل شریعت اور سنت کے مطابق ہو ۔یہاں ’’ عمل صالح ‘‘ سے یہی مراد ہے اور حقیقت میں وہی عمل ’’ نیک ‘‘ کہلانے کا مستحق ہے جو مطابقِ سنت ہو ۔اسی طرح قبولیت عمل کی دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل اور نیکی اخلاص کے ساتھ اﷲ کی رضا جوئی کیلئے انجام دی گئی ہو ۔ دوسروں کو دکھانے کیلئے ریا کاری کے جذبہ سے انجام نہ دی گئی ہو۔ آیت بالا میں مفسرین ’’ شرک ‘‘ سے ریا کاری ہی مراد لیتے ہیں اور آیت کے شانِ نزول سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے ۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا :یا رسول اﷲ !میں بعض مواقف میں کھڑا ہوتا ہوںتو ( یعنی کوئی عبادت کرتا ہوں یا شجاعت و بہادری سے جہاد میں حصہ لیتا ہوں ) میں اس سے اﷲ کی رضا وخوشنودی چاہتا ہوں اور یہ بھی چاہتا ہوں کہ میری جگہ دیکھی جائے ( یعنی لوگ میرے عمل اورموقف سے واقف ہوجائیں ) ،رسول اﷲنے کوئی جواب نہیں دیا ، یہاں تک کہ یہ (مذکورہ )آیت نازل ہوئی(جامع العلوم والحکم)۔ اس سے معلوم ہوا کہ ریا کاری اور شہرت و نمود کا جذبہ ’’ شرک ‘‘ ہے اور شرک کی یہ خاصیت ہے کہ اس سے عمل باطل ہوجاتا ہے ۔
حقیقی شرک سے تو سارے اعمال اکارت جاتے ہیں ، مشرک کا کوئی عمل اور بظاہر اچھا عمل بھی اﷲ کے ہاں مقبول نہیں جبکہ ریا کاری سے سارے اعمال ضائع نہیں ہوتے بلکہ ہر وہ عمل جس میں ریا پایا جائے وہ ضائع ہوجاتا ہے اور بندہ اسکے اجر و ثواب سے محروم ہوجاتا ہے۔ کئی احادیث میں ریاکاری کو صراحت کے ساتھ شرک ، ’’ شرک اصغر ‘‘ اور ’’ شرک خفی ‘‘ کہا گیا ہے ۔ محمود بن لبیدؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا : ’’میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ ’’ شرک اصغر ‘‘ سے ڈرتا ہوں ۔صحابہ کرامؓنے دریافت کیا یا رسول اﷲ !شرک اصغر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ریا کاری ۔‘‘(مسند احمد)۔ ایک اور روایت میں رسول اﷲنے اپنی اُمت کے بارے میں شرک کا خوف ظاہر فرمایا ۔ آپسے دریافت کیا گیا کہ کیا آپ کے بعد آپ کی اُمت شرک میں مبتلا ہوجائیگی ؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں ! پھر یہ وضاحت فرمائی کہ وہ لوگ چاند سورج کی پتھر اور بتوں کی پرستش نہیں کرینگے لیکن ریا کاری کریں گے اور لوگوں کو دکھانے کیلئے نیک کام کرینگے ( تفسیر ابن کثیر)۔ حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بیٹھے مسیح دجال کا تذکرہ کررہے تھے ،اس دوران رسول اﷲ تشریف لائے اور فرمایا: کیا تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جو میرے نزدیک تمہارے لئے دجال سے ( یعنی دجال کے فتنہ سے ) بھی زیادہ خطرناک ہے ؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ ضرور بتلائیں ، آپنے ارشاد فرمایا : ’’شرک ِخفی ( یعنی پوشیدہ شرک اس کی ایک صورت ) یہ کہ آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا ہو ، پھر اس بناپر اپنی نمازکو مزین کردے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے ۔‘‘(ابن ماجہ)۔
یعنی یہ احساس ہونے پر کہ کوئی آدمی دیکھ رہا ہے ، نماز کو مزین کرنا ، یا لمبی کردینا اورخشوع و خضوع کا دکھاوا کرنا وغیرہ یہ شرک خفی ہے ۔ اعمال میں پوشیدہ اور دبے پاؤں داخل ہونے والے اس شرک کو رسول اﷲ نے اپنی اُمت کے لئے فتنۂ دجال سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ہے ، ایک حدیث میں رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا : ’’ جس نے دکھاوے کے لئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ، جس نے دکھاوے کے لئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے دکھاوے کے لئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا ۔‘‘(جامع العلوم والحکم)۔ نماز ، روزہ اور صدقہ خیرات کا ذکر بھی بطور مثال کے ہے ۔مقصد یہ ہے کہ ریا کاری شرک ہے ، کوئی شخص نماز، روزہ یا کوئی بھی نیکی دکھاوے کیلئے کرے ، اس نے گویا شرک کیا ۔ اﷲشرک سے بے نیاز: شرک سے اﷲ تعالیٰ بے نیاز ہے ۔ہر وہ عمل جس میں بندہ اﷲ کے علاوہ کسی اور کو شریک کرے ایسے عمل کو اﷲ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے ایک حدیث قدسی یوں مروی ہے ۔ وہ رسول اﷲسے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’میں شرک ( شراکت ) سے سب شرکاء سے زیادہ بے نیاز ہوں ، جو کوئی ایسا عمل کرے ، جس میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کرے تو میں اس کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔‘‘(مسلم)۔
معلوم ہوا کہ کسی عمل میں دوسرے کی ذرہ برابر شرکت بھی اﷲ تعالیٰ کو گوارہ نہیں، وہ ایسے عمل کو قبول ہی نہیں فرماتا۔ایک دوسری روایت میں اور زیادہ صراحت کے ساتھ یہ الفاظ مروی ہیں : ’’پس میں اس عمل سے بری ( بیزار ) ہوں اور وہ اس کے لئے ہے جس کو شریک کیا گیا ۔‘‘(ابن ماجہ)۔ روز قیامت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا اور یہ اعلان کرے گا کہ جس شخص نے بھی کوئی عمل اﷲ کے لئے کیا اور اس میں کسی دوسرے کو بھی شریک کیا ہوتو وہ اﷲ کے علاوہ دوسرے سے اپنا ثواب لے لے ، بے شک اﷲ تعالیٰ شرک سے ( اور شراکت کے معاملہ میں ) تمام شرکاء سے زیادہ بے نیاز ہے (ابن ماجہ)۔ دنیا طلبی، اخلاص کے منافی: کوئی نیکی خالص اﷲ کیلئے کرنے کے بجائے لوگوں کو دکھانے کیلئے کی جائے ، اﷲ کی خوشنودی کے بجائے ، لوگوں کی خوشنودی یا شہرت و نمود کا جذبہ اور لوگوں میں مقام و مرتبہ پانے یا ان کے درمیان نمایاں ہونے کا جذبہ شامل ہوجائے تو یہ ریا کاری ہے جو سخت مذموم اورناپسندیدہ نیز عملِ خیر کو باطل کرنے والا شرک ہے لیکن کوئی شخص ریا کاری یا شہرت و نمود کے جذبہ سے تو خالی ہے البتہ کسی نیکی سے اس کا مقصد مال و دولت کا حصول اور دنیا طلبی ہے تو یہ بھی مذموم خصلت اور اخلاص کے منافی عادت ہے ۔ گرچہ یہ برائی میں ریا کاری سے کمتر ہے ، کسی عمل خیر اور نیکی کا مقصد صرف اور صرف دنیاوی فائدہ ہو تو ایسا شخص اس نیکی کے اجر و ثواب سے بالکل ہی محروم رہے گا اور اگر دنیاوی فائدہ کا حصول ضمناً ہے ۔ عمل خیر سے خالصتاً دنیا طلبی مقصود نہیں تو نیت کے بقدر اس شخص کے اجر و ثواب میں کمی ہوجائیگی ۔ اس شخص کا مقام ومرتبہ اس شخص سے یقینا کمتر ہوگا ، جو نیکی کو خالص اﷲ کیلئے اور آخرت کے فائدہ کیلئے انجام دے ، دنیاوی فائدہ اس کے پیش نظر ہو ہی نہیں ۔قرآن و حدیث میں نیکی اور عمل خیر سے دنیا طلبی پر بھی مذمت بیان ہوئی ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ، ہم ایسوں کو ان کے کُل اعمال ( کا بدلہ ) یہیں بھرپور پہنچادیتے ہیں اور یہاں انھیں کوئی کمی نہیں کی جاتی ، ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انھوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کے اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں ۔ ‘‘(ہود 15،16)۔ (جاری ہے)