زبان اُسی وقت ترقی کرتی ہے جب قوم ترقی کر رہی ہو۔ہم نے ترقی کی، اُردو زبان کے دامن کو مزید وسیع کیا
* * * *شہزاد اعظم* * * *
ہم اور نسلِ نو 2متضاد موجودات ہیں۔ اُن میں اور ہم میں زمین و آسمان کا فرق ہے، دنیا جہان کا فرق ہے ، آن اور بان کا فرق ہے ، ناک اور کان کا فرق ہے ، سُر اور تان کا فرق ہے ،صحن اور لان کا فرق ہے ، روٹی اور نان کا فرق ہے ۔ یہ فرق سیاستدانوں کی طرح محض بیان بازی نہیںبلکہ کوئی ’’موطالبہ‘‘ہو تو ہم ایک ایک کر کے مذکورے تمام فرق گنوانے، سمجھانے، دکھانے اور بتانے کیلئے تیار ہیں۔اب دیکھیں، جب ہم نے آنکھ کھولی تو اس وقت کی دنیا ’’نان ڈِجیٹل‘‘ تھی۔ دائی نذیراں نے جب ہمارے تولُد ہونے کی اطلاع دینا چاہی تو ا س نے انگریز کے دور والا کالا سیاہ فون اٹھایا اور ہماری دادی کے گھرکا نمبر ملانے کیلئے اس ’’سانولے فون کا’’ عددی چرخہ‘‘اس میں موجود10 سوراخوں میں سے صرف 5میں انگلی ڈال کر گھمایا۔
ہر گھماؤ کے بعد کڑکڑکڑ یا ٹک ٹک ٹک کی ناپسندیدہ آواز برآمد ہوتی ۔ کئی مرتبہ یہ مشق کرنے کے بعد دادی کی آواز آئی، ہیلوہاں کیا ہوا؟ نذیراں نے فوراً کہا ’’پوتا مبارک ہو‘‘۔ ذرا وقت گزرا تو’’ڈِجیٹل دور‘‘کا آغاز ہو گیا۔ٹیلی فون بھی ڈِجیٹل آگئے۔ان کے نمبر ملا نے کیلئے عددی چرخہ گھمانے کی ضرورت نہیں رہی تھی بلکہ اب نمبر دبانے پڑتے تھے۔ ہر نمبر کو دباتے وقت الگ صدا برآمد ہوتی تھی ،مثلاً ایک دبائیں تو آواز آتی’’ٹیں‘‘، 2دبائیں تو ’’ٹوں‘‘، 3دبائیں تو ’’ٹاں‘‘، پھر 4دبائیں تو ’’ٹائیں‘‘،5دبائیں تو ’’ٹوئیں‘‘، 6دبائیں تو ’’ٹیوں‘‘، 7دبائیں تو ’’ٹوائیں‘‘، 8 دبائیں تو ’’ٹوائوں‘‘9دبائیں تو ’’ٹیائوں‘‘ اور صفر دبائیں تو ’’ٹی‘‘جیسی معنی خیز آوازیں سماعت نواز ہوتی تھیں۔ ڈِجیٹل دور کے بعد انٹرنیٹ کا دور آگیا، اس کے بعدموبائل فون، پھر ٹیبلٹ اوراب اسمارٹ ٹی وی، اسمارٹ فون، اسمارٹ کار اوراسمارٹ کارڈ جیسی اشیاء نسلِ نو کی ذات کا جزوِ لازم بن چکی ہیں۔ہمارا بھانجا بھی انہی میں شامل ہے ۔
ہم اسے نسلِ نو کا رکن شمار کرتے ہیں مگر وہ اپنے آپ کو اسمارٹ نسل کہتا ہے۔ ہم اس سے انکار بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ہوتا یوں ہے کہ ہم جتنی دیر میں فون پر اپنی کسی ہمدم شخصیت کا نام تلاش کرتے ہیں، اتنی دیر میں وہ اسی ہستی سے واٹس ایپ پرحال احوال دریافت کر کے ہمیں بتا دیتا ہے۔ کل بھانجا ہم سے کہنے لگا کہ ماموں! آپ لوگوں نے اپنی ساری توانائیاں کھانے پکانے پر ہی خرچ کر دیں، ترقی کرنے کی نہیں سوچی۔آپ نے نوجوانی میں گھر والوں سے چوری چھپے جو خطوط لکھے ، ان میں سے کچھ توپکڑے گئے اور باقی ماندہ بارش میںاس طرح بھیگے کہ ساری روشنائی پھیل گئی اور وہ پڑھنے کے قابل ہی نہیں رہے ۔ اسکے برخلاف ہمیں دیکھیں!آج ہماری ساری خفیہ باتیں، ملاقاتیں، سیلفیاں، کہہ مکرنیاں، سب کی سب بزرگوں کی دستبرد سے محفوظ ہیں،ان پر ’’پاس ورڈ‘‘ کا قفل لگا ہوا ہے۔ کوئی ہستی ہماری ان ’’نجی سرگرمیوں‘‘ کی قلعی کھولنا چاہے بھی تو نہیں کھول سکتا۔ ہم اپنی معلومات زمین پر نہیں بلکہ ’’بادل‘‘ میں محفوظ رکھتے ہیں۔
یہ دور ’’کلاؤڈ‘‘ کا دور ہے۔ماموں! اسے کہتے ہیں ترقی۔ آپ کی نسل آج زندگی کی اُس دہلیز پر پہنچ چکی ہے جہاں موت ان سے ملنے کیلئے بے قرار ہے۔ آپ کی نسلِ کہنہ کی زندگی کے چراغ ٹمٹما رہے ہیں۔ آپ نے اس تمام عرصے میں کیا ترقی کی؟ بھانجے کی زبان سے ایسے تضحیکی الفاظ سن کر ہم تو سیخ پا ہوگئے۔ ہم نے کہا کہ کیا عددی چرخے والے فون سے اسمارٹ فون تک کا سفر ترقی کہلاتا ہے ؟ کیااپنی نجی معلومات کو بزرگوں کی پہنچ سے دور رکھنے کا نام ترقی ہے ؟کیا واٹس ایپ پر بھیجاجانیوالا ’’نجی پیغام‘‘ ترقی ہے ؟ کیا والدہ کو امی کی بجائے کہنا ’’مام‘‘ ترقی ہے ؟کیامعدوم ہونے والا بزرگوںکا احترام ترقی ہے ؟کیا ایک دوسرے کیلئے ہماری زبانوں پر آنیوالی دشنام ترقی ہے ؟ کیاسیاستدانوں پر جھوٹ کا ثابت ہونے والا الزام ترقی ہے؟یقینا یہ ترقی ہر گز نہیں، ترقی ہم نے اپنی قومی زبان اُردو میں کی ہے ۔
یاد رکھنا کہ زبان اُسی وقت ترقی کرتی ہے جب قوم ترقی کر رہی ہو۔ہم نے ترقی کی، اُردو زبان کے دامن کو مزید وسیع کیا، لغتِ اُردو میں ایک نیا لفظ’’دھبڑدھونس‘‘ شامل کیا۔ یہ من حیث القوم ہماری ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی دوران ہمارے بھانجے کی سٹی گم ہوگئی۔ ہم نے کہا :کیوں میاں ہمارے اس قدر ’’موثر‘‘ دلائل سن کر تم ہکا بکا رہ گئے ناں؟ اس نے کہا نہیں ماموں! میں سوچ رہا ہوں کہ’’دھبڑدھونس‘‘کیا ہے؟ اس کے معنی کیا ہیں؟ ہم نے کہا کہ جیسے ٹاٹ اسکولوں میں ’’شرارتی ‘‘ قسم کے ماسٹر کمرۂ جماعت کی کسی دیوارکے چھید یا کھڑکی کی ریخ سے تاڑتے ہیں کہ کون شرارتیں کر رہا ہے اور پھربھرپور انداز میں غصے سے لال پیلے اور سیخ پاہو کر، کمرے میں جا گھستے ہیں اور آئویا تاؤ دیکھے بغیر ہی اُس شرارتی لڑکے کو دبوچ کر گھسیٹتے ہوئے کلاس کے سامنے لاتے ہیں اور پھر مرغا بنا کراس پر ڈنڈا، جوتا، لات، گھونسہ، ٹھوکر، ٹھڈا،تھپڑ، طمانچہ، جھاپڑ، سب کچھ بے دریغ انداز میں نچھاور کرتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں’’دھبڑدھونس‘‘ ۔
بھانجے نے کہا ’’نہیں ماموں! اس کو تو سِمپلی’’ دھنائی‘‘ کہا جائے گا۔‘‘ہم نے کہا کہ چلو یوں سمجھوکہ کوئی ڈاکو سڑک کے کنارے کھڑی کار کا شیشہ توڑ کر اندر رکھا لیپ ٹاپ نکال کر فرار ہورہا تھا کہ اسے ایک نوجوان نے پکڑ لیا، لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے مل کر اس کی پٹائی کی، اسی کے جوتے اُتار کر اسے اتنا مارا، اتنا مارا کہ اس کے کپڑے بھی پھٹ گئے، وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور قسمیں کھاکر یقین دلانے لگا کہ مجھے چھٹی کا دودھ یادآگیا ہے۔اس کے باوجودعالم یہ تھا کہ سڑک سے گزرنے والی گاڑیاں بھی قریب آ کر رکتیں، اس سے کارسوار برآمد ہوتا ، وہ اسے جی بھر کر تھپڑاتااور چلا جاتا۔
کئی گھنٹے تک اس کی پٹائی کا سلسلہ جاری رہا۔بھانجے میاں! اسے کہتے ہیں’’دھبڑدھونس‘‘۔اس نے کہا :نہیں ماموں یہ توسِمپلی’’اصلاح‘‘ کہلائیگی کیونکہ ’’ڈو بیڈ اینڈ ھیو بیڈ‘‘۔ہم نے کہا کہ سرسوں کی فصل تیار تھی، اچانک ٹڈیوں کا غول آیا، وہ فصل پر سے گزرا اور آن کی آن میں ساری فصل چٹ کرگیا۔ اس کو کہتے ہیں ’’دھبڑدھونس‘‘، بھانجے نے کہا ’’نہیں ماموں، یہ تو سِمپلی ٹڈی دل تھا‘‘۔ہم نے کہا کہ ایک کمی ، غلام جو چوہدری کی نجی جیل میں قید تھا اس نے چوہدری کی حَسین و خوبصورت بیٹی سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، چوہدری آگ بگولہ ہو گیا۔
اس نے اپنے محافظوں سے کہا کہ اس غلام کی ایسی کی تیسی کر دو۔ انہوں نے مار مار کر اس ’’غلام‘‘ کا ستیاناس کر دیا۔ لاتیں شاتیں توڑ کر اسے تہ خانے میں پھینک دیا گیا۔ اسے کہتے ہیں ’’دھبڑدھونس‘‘، بھانجے نے کہا ’’نہیں ماموں، یہ تو سِمپلی ’’اَن میچڈپروپوزل‘‘ کا کیس تھا۔ ہم نے کہا کہ اب غور سے سنو!ہندوستانی کرکٹ کے انتہائی تجربہ کار عالمی شہرت یافتہ 11بلے باز،12مایہ نازفیلڈر،افسانوی شہرت کے قابل 8بولر، پونے400 رنز کا ہدف دے کرحریف کو خون کے آنسو رُلانے والی ٹیم کو 8ویں نمبر پر موجودپاکستانی کم عمر ٹیم کے ناتجربہ کار، بے یار و مددگار، زخمی و بیمارکھلاڑیوں نے 180رنز سے عبرتناک شکست دے کر تمام کرکٹی شعبوں میں ایسا پچھاڑا کہ شاید بلائنڈ ٹیم اچھا کھیل لیتی،یہ ہے ’’دھبڑدھونس‘‘۔بھانجے نے کہا: ہاں ماموں!اب میں سمجھا کہ کل ہمارے ٹیچر کیوں کہہ رہے تھے کہ ملکی سیاسی میدان میں بھی ’’دھبڑدھونس‘‘ہونے والا ہے۔