عام لوگوں سے معاملہ میں احسان، انسانوں کے مابین دشمنیوں کو دوستیوں میں تبدیل کرنے والا عمل ہے
* * * * ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ* * * * *
لغت میں ’’احسان‘‘ کا معنی حسین بنانا، صناعت میں عمدگی اور اس میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ کی ذا ت ہی ہے جس نے ہر چیز بنائی اور خوب بنائی۔‘‘ اصطلاح میں ’’احسان‘‘ شرعی مطلوب کو حسین ترین طریقہ سے پیش کرنا ہے۔ نبی کریم نے حدیث جبریل میں ارشاد فرمایا: ’’احسان‘‘ یہ ہے کہ تُواللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے گویا تُو اسے دیکھ رہا ہے ، اگرتُواسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
مرادیہ ہے کہ بندئہ مومن یوں عبادت کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کے حضور میں ہے، جس کا لازمی اثر یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بندہ کے اندر خشیت اور خضوع پیدا کرتا ہے اور بندہ کی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ ’’احسان‘‘ کے بارے میں بھی مختصر تعارف کے بعد جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بندوں کو ’’احسان‘‘ کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یقینا اللہ تعالیٰ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ ‘‘ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ() میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وہ حسین ترین قول اختیار کریں۔ ‘‘ نبی کریم نے ارشادفرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (حسنِ صنعت) اور حسن کار کردگی کا لکھ دیا ہے،سو جب جب تم کوئی جانور ذبح کرو تو ذبح کا حسین ترین اسلوب اختیار کرو۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے مؤمن بندوں سے فرماتا ہے:تم ’’ احسان کرو ،یقینا اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘ نیز فرمایا: ’’سو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کا حسین ثواب بھی اور اللہ تعالیٰ محسنین سے محبت کرتاہے ۔ ‘‘ ان فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دین میں شارع کو ہم سے ہر موقع پر اور ہرایک کے ساتھ ’’احسان‘‘ مطلوب ہے۔ قرآن کریم نے احسان کے بیان کے لئے کئی اسالیب اختیار کئے ہیں۔ ایک جگہ فرمایا : ’’کیا احسان کا بدلہ احسان ہی نہیں ہوتا؟‘‘ دوسری جگہ فرمایا: ’’جنہوں نے احسان کیا ان کے لئے ’’حسنیٰ‘‘ حسین ترین بدلہ اور اس پر اضافہ بھی ہوگا۔ ‘‘
حضور نے فرمایا :’’حسنیٰ‘‘ تو جنت ہے اور ’’اضافہ‘‘ جناب باری تعالیٰ کی طرف نظر کرنا ہے۔ باری تعالیٰ کی رؤیت اور زیارت مؤمنین محسنین کے لئے اضافہ کے طور پر انہیں نصیب ہوگی۔ اللہ کی عبادت میں ’’احسان‘‘ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت مشاہدہ سے یا مراقبہ سے کرنا ہے تو ان کی جزاء بھی آخرت میں دنیا میں ان کے عمل کی ہم مثل رکھی گئی ہے۔احسان زندگی کے ہر موقف اور ہر موقع پر اور ہر ایک کے ساتھ شرعاً مطلوب ہے۔یہ باری تعالیٰ کو محبوب بھی ہے، پھر احسان کے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے شب وروز کے کئی مواقع کا قرآن و سنت میں ذکر ہے،مثلاً اللہ کی عبادت میں احسان، والدین کے ساتھ احسان، خاوند کا بیویوں کے ساتھ احسان،بیویوں کا خاوند کے ساتھ احسان، بیٹیوں کے ساتھ احسان، بیواؤں ، مساکین اور یتیموں کے ساتھ احسان، ہمسایہ کے ساتھ احسان، نوکروں سے احسان اور عام انسانوں سے احسان۔ « اللہ کی عبادت میں احسان یہ ہے۔
نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو ، اگر تم نہیں دیکھتے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ احسان کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا، ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے اوراللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس کی عبادت میں ’’احسان‘‘ یہ ہے کہ عبادت کو ظاہری وباطنی حسن کے ساتھ ادا کیا جائے۔ ظاہری طور پر بھی جناب رسول اللہ کی کمالِ متابعت ہو اور باطنی طور پر بھی عبادت ریا کاری، عُجب اور دیگر امراضِ قلبیہ سے مکمل طور پر پاک ہو کہ اس سے خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:تم اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرو۔
نیز ارشاد ربانی ہے: یقینا اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ احسان کرنے والے ہیں۔ « والدین کے ساتھ احسان کیا ہے؟اس کی اہمیت جانیں کہ باری تعالیٰ نے اپنی عبادت کا قرآن میں حکم دیا تو وہیں پر والدین کے ساتھ احسان کا بھی حکم دیا۔ ارشاد ربانی ہے: ’’تم اللہ کی عبادت کرو ،اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو۔‘‘ والدین کے ساتھ احسان ایسا محکم حکم ہے جو پہلی شرائع میں بھی موجود رہا ہے۔ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ ہی کی عبادت کرنا اور والدین کے ساتھ احسان کرنا۔‘‘ والدین کے ساتھ احسان یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسنِ معاشرت، ان کے لئے تواضع اختیار کرنا۔ ان کے لئے رحمت کے بازو ہردم جھکا ئے رکھنا، ان کے سامنے آواز کو پست رکھنا، ان کی سرزنش نہ کرنا، ان سے رحمت وشفقت سے معاملہ کرنا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں ایک شخص نے نبی کریم سے سوال کیا کہ میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟آپ نے فرمایا :تیری ماں، پھر اس نے دوسری بار بوچھا کہ اس کے بعد؟آپ نے فرمایا تیری ماں، پھر اس نے پوچھا کہ پھر کون؟تو آپ نے فرمایا تیری ماں، پھر اس نے پوچھا کہ پھر کون؟ تو آپ نے فرمایا :تیرا باپ۔ حضرت حسن بصریؒ سے کسی نے پوچھا کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کیا ہے؟ آپ ؒ نے فرمایا کہ تُوجس کا مالک ہوا، اسے ان کے لئے قربان کردے۔ وہ تجھے جو حکم دیں، اگر اس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو تو اسے پورا کرے لہٰذا والدین کے ساتھ نیکی اور احسان، اللہ اور رسولکی نافرمانی کے علاوہ میں ان کی مکمل اطاعت ہے۔ ان کی ایذارسانی سے مکمل اجتناب ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ان کو ’’اُف‘‘ تک نہ کہو، انہیں نہ جھڑکو اور ان سے بات بھی نرمی سے کرو۔ « خاوند کا بیوی کے ساتھ احسان بمطابق حکم ِربانی یوں ہے کہ تم ان کے ساتھ معاشرت کرواَیسے اسلوب کے ساتھ جو معروف ہو ، ایسا معاملہ کرو جو انہیں محبوب اور مرغوب ہو۔جسے اللہ بھی پسند کرے ،اللہ کے رسول بھی پسند کریں اور لوگوں کے ہاں بھی وہ پسندیدہ ہو۔ آنحضرت نے حضرت سعد بن وقاص ؓ کو فرمایا کہ تُو جو نان ونفقہ صرف کرے جس سے اللہ کی رضا مطلوب ہو اُس پر تُو اللہ کے ہاں سے اجرپائے گا، حتیٰ کہ وہ لقمہ جو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے، لہٰذا خاوند کا بیوی سے حسن معاشرت، اس کی ایذاء سے اجتناب اور اس کے ساتھ حسن معاملہ ہے۔ « بیوی کا خاوند کے ساتھ احسان یہ ہے کہ وہ امانت دار ہو، صالح ہو، صابرہ ہو، وفا شعار ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پس صالح عورتیں صبر کرنے والی ، ان امور کی حفاظت کرنے والی ہیں جس کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ‘‘
آنحضرت نے فرمایا : عورت اپنے خاوند کے مال اور اولاد کی نگران ہے۔ نیز فرمایا : جو عورت ایسی ہو کہ اسکا خاوند اس پر راضی اور خوش ہے، وہ جنتی ہے۔ « بچیوں کے ساتھ احسان یہ ہے کہ ان کی تربیت میں حسن اسلوب کو اختیار کیا جائے، انہیں اللہ تعالیٰ اور رسول کے فرامین پر عمل کرنے کی عادت ڈالی جائے، انہیں اسلامی آداب کا پابند بنانے کی تربیت دی جائے، آنحضرت نے فرمایا : ’’جس نے 2بچیوں کی حسن تربیت کی حتیٰ کہ وہ بالغ ہو گئیں وہ جنتی ہے۔ ‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک عورت میرے گھر آئی، اس کے ساتھ اسکی2بچیاں تھیں۔اس نے سوال کیا تو میرے پاس سوائے ایک کھجور کے کچھ بھی نہ تھا، وہ میں نے اسے دیدی تو اس نے وہ کھجور 2بچیوں میں تقسیم کردی۔
اس نے خود اس میں سے کچھ نہ کھایا، پھر وہ اٹھی اور چلی گئی ۔ پھر آنحضرت گھر تشریف لائے تو میں نے یہ قصہ آپ کو سنایا تو آپ نے فرمایا:جس شخص کی اللہ نے بچیوں سے آزمائش کی او ر اس نے ان کے ساتھ احسان کیاوہ اس کے لئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی۔ « بیوہ اور مسکین ویتیم کے ساتھ احسان کے بارے میں آنحضرت نے فرمایا: بے خاوند عورتوں اورمسکین کی کفالت کے لئے کو شاں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے یا آپ نے فرمایا: اس نمازی کی طرح ہے جو اسے ترک نہ کرے اور اُس روزہ دار جیسا ہے جو افطار نہ کرے، یعنی ہمیشہ نماز اور روزہ میں رہے۔ پھر آنحضرت نے فرمایا کہ اپنے یتیم یا غیر کے یتیم کی کفالت کرنے والااور میں جنت میں اس طرح ہوںگے، آپنے انگوٹھے کے ساتھ والی اور درمیانی انگلی کو جمع کر کے یہ مذکورہ ارشاد فرمایا۔
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ اپنے یتیم سے مراد، اسکا قریبی یتیم ہے، جیسے یتیم کی ماں اس کی کفالت کرے یا اس کا دادا کفالت کرے یا اس کا بھائی کفالت کرے، یاوہ اس قرابت والوں میں سے کوئی ہو جبکہ غیر وہ ہے کہ کسی کفالت کرنے والے اور یتیم میں کوئی قرابت داری نہ ہو۔ « ہمسایہ کے ساتھ احسان یہ ہے کہ بندئہ مؤمن اپنے ہمسایہ کی معاشی، دینی اور اصلاحی خدمت کرے۔ چاہے وہ مال کے ہدیہ سے ہو یاقول صالح کہ اسے عمل صالح کی دعوت دے یا اس کے ساتھ قول وفعل میںشفقت ورحمت سے معاملہ کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم اللہ کی عبادت کرو، اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ، ماں باپ سے احسان کرو، قرابت دار سے یتیموں اور مسکینوں اور قریبی ہمسایہ سے اور دور کے ہمسایہ سے احسان کرو۔‘‘ آنحضرت نے فرمایا کہ جبریل مجھے ہمسایہ کے بارے وصیت کرتے رہے حتیٰ کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے وارث ٹھہرادیں گے۔ نیز فرمایا کہ جو شخص بھی اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لاتا ہے، اسے اپنے ہمسایہ سے ’’احسان‘‘ کرنا ہوگا۔ « نوکر چاکر کے ساتھ احسان یہ ہے کہ جو لوگ بندئہ مؤمن کے ماتحت ہوں ان سے گفتگو اور معاملہ میں خوش اسلوبی اختیار کرے۔
انہی کے بارے میں حدیث میں آتا ہے:یہ لوگ تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے تصرف میں رکھا ہے تو جس کا بھائی اسکے ماتحت ہو اسے اپنے کھانے میں سے کھانا کھلائے اور اپنے لباس میں سے لباس پہنائے اور اسے ایسے عمل کی تکلیف نہ دے کہ وہ اس پر غالب رہے، اگر اسے ایسی تکلیف دے تو اس کی مدد کرے۔ نوکروں سے معاملہ میں بندہ کو یہ خیال رہنا چاہئے کہ وہ بھی انسان ہیں، ان کی عزت نفس ہے، جو مجروح نہ ہونے پائے، ان کی طاقت کی ایک حد ہے، جس سے بڑھ کر انہیں مکلف بنانے میں تجاوز نہ کیا جائے۔ یہ نہ صرف اُن بندوں کا آپ پر حق ہے بلکہ یہ تمہارے رسول کی تعلیمات ہیں جو تمہارے رب کے حکم سے ہی بولتے ہیں، اپنی خواہش سے نہیں۔ « عام لوگوں سے احسان کا مطلب یہ ہے کہ بندئہ مؤمن، اللہ تعالیٰ کے بندوں کو یہ سمجھے کہ وہ اللہ کا خاندان ہیں، اللہ کے ہاں بہترین بندے وہ ہیںجو اسکے خاندان پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں، عام انسانوں سے حسن سلوک، قول میں نرمی، معاملہ میں خوش اسلوبی اور معاملات میں صرف حسن ہی نہیں بلکہ بطریق احسن ہونا ہے اور یہی شرعاً مطلوب ہے۔
حضور کے فرمان کے بموجب: عام انسانوں پر احسان کرنے والے ہی اللہ تعالیٰ کے خواص ہیں، وہی اس کے محبوب بندے ہیں۔حضرت انسان کی عبادت ربانی ، اسکی اطاعت رحمانی، اسکا اللہ سے ذکر کرکے قرب، اسکی عبادت کرکے تقرب، ان تمام امور کا دیگر انسانوں کو کیا نفع ہوسکتا ہے؟ وہ تو اس کے حسن معاشرت اور حسن معاملہ سے ہی مستفید ہونگے۔قول میں شدت، ہما وقت غیض و غضب اسمیں کوئی بڑھائی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کی صفات کا یوں بیان فرمایا ہے:اور غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست بناتا ہے۔
نیز فرمایا : حسنہ اور سیئہ (نیکی اور برائی) برابر نہیں، ہمیشہ احسن طریقہ سے رد کرو تو وہ شخص جسکے اور آپ کے درمیان عداوت ہوگی، وہ گہرا دوست بن جائے گا۔ عام لوگوں سے معاملہ میں احسان، انسانوں کے مابین دشمنیوں کو دوستیوں میں تبدیل کرنے والا عمل ہے۔ حضور کافرمان ہے: ’’ تم جہاں بھی ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرواور برائی کا بدلہ اچھائی سے دو،اللہ اس عمل سے (برائی) کو مٹا دے گا اور عام لوگوں سے حسن اخلاق سے پیش آؤ۔‘‘ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ میں اپنے کسی بھائی کی حاجت پورا کردوں یہ میرے نزدیک میرے ایک سال کے اعتکاف سے افضل ہے۔ عام لوگوں کے احسان میں یہ بھی شامل ہے کہ کسی حاجت مند کو دیکھو تو اسکی حاجت پوری کر سکتے ہو تو اسے پورا کرو، کوئی پریشان حال ہو تو اسکی پریشانی دور کرنیکی کوشش کرو، بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، کسی کو راستہ معلوم نہ ہو تو اسے راستہ بتادو، کسی کی گمشدہ چیز کو تلاش کروادو، کسی کے کام میں اسکی امداد کردو، اگر کوئی شخص اپنی صناعت میں حسن کار کردگی نہ جانتا ہو تو اسے سکھادو۔ پھر احسان کرنے کے کئی راستے ہیں۔ مثلاًبدنی طور پر امداد کرنا، مالی طور پر امداد کرنا ، کسی کی جائز سفارش کرنا، لوگوں کی حاجات اور ان کے خیر کے منصوبوں میں ان کے جلد پورا کرنے کی سعی کرنا، مظلوم کی امداد کرنا، اگر خود نہ کر سکے تو کسی کے پاس اسکی سفارش کردینا، کوئی جاہل ہے تو اسے سکھا دینا، بے عمل ہے تو اسے نصیحت کردینا، عام لوگوں کو حکمت سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔