الخبر کی ادبی و ثقافتی تنظیم ’’ہم آواز‘‘ کے زیر انصرام افتخار راہب اور پروفیسر افضل آرش کے وطن لوٹنے پر الوداعیہ
* * * * *سارہ خان۔ الخبر** * * *
ہماری تہذیب و ثقافت میں اتنے رنگ و عکس ہیں کہ جس پر نظر ڈالیں وہی سب سے خوبصورت لگتا ہے ، اتنا خوبصورت کہ لمحہ بھر کے لئے دوسرے رنگ ماند لگنے لگتے ہیں۔ انگنت رنگوں کی اس دنیا میں سب سے ممتاز و منفرد ’’ادب کا رنگ‘‘ ہے اور اس کا سب سے قوی جز شاعری ہے جو اپنے اندر اتنے عکس، اتنی کشش سموئے ہوئے ہے کہ سورج کی سنہری اور چاند کی روپہلی کرنیں ہمہ وقت دھنک کے رنگوں کو جگائے رکھتی ہیں اور جب شاعری کا رنگ گہرا و پختہ ہوجاتا ہے تو للکارتا نہیں ، دھیرے سے مسکراتے ہوئے اپنے آپ میں مگن سفر کا آغازکرتا ہے اور بہت سے ایسے اپنے جن کے ساتھ سفر شروع ہوتا ہے ، کبھی ہم سے آگے اور کبھی ہم سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور اکثر ایسے چہرے شانہ بشانہ نظر آتے ہیں جو حقیقی زندگی کی کہانیوں کا مرکزی کردار ہوتے ہیں۔ ادب کے رنگوں میں کچھ ایسی خوشبو بھی ہے کہ اس سے وابستہ ہر فرد اگر ادبی خوشبو کی تمثیل پیش کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا۔ ادب سے وابستگی عقیدت و کارِاہم کی حیییت رکھتی ہے۔ یہ بات وہی سمجھتے ہیں جن کی روح آلائش و نمود و نمائش سے پاک و بے نیاز ہوتی ہے۔
ایسے افراد کی کمی نہیں البتہ ایسے افراد بآسانی نظر نہیں آتے ۔اِس کے لئے تعصب سے پاک نظر کے ساتھ وسیع النظری و وسعت قلبی و فہم و فراست کا شعور لازمی ہے۔ منطقہ شرقیہ کے شہر الخبر کی متحرک و فعال ادبی و ثقافتی تنظیم ’’ہم آواز‘‘ گزشتہ 11سال سے یہی کارِ اہم انجام دے رہی ہے۔ ذاتی مفاد و تعلقات و تشہیرکے جذبے سے بالاتر، ادب کی لو لگائے اپنے کام کی سمت رواں دواں۔ ہندوستان کے افتخار راہب اورپاکستان کے افضل آرش ’’ہم آواز ‘‘کے بہی خواہ، دو مخلص دوست جو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی میعاد پوری کر کے سعودی عرب سے واپس اپنے اپنے وطن لوٹ رہے ہیں ، نفسا نفسی کے اس سنگدل دور میں جب زخمی گھوڑے کا علاج کرنے کی بجائے اسے گولی مار کر ہلاک کر دینے کی ذہنیت عام چلن بنتی جا رہی ہے ، ایسے میں پرانے رفقاء کو یاد رکھنا یقینا قابلِ ستائش و قابلِ تحسین عمل ہے جو ’’ہم آواز‘‘ نے بحسن و خوبی انجام دیا۔
جون پور کے افتخار راہب ،سعودی عرب کے شہر الحساء میں گزشتہ 24 سال سے مقیم رہنے کے بعد اب مستقل طور پو اپنے وطن لوٹ رہے ہیں جبکہ پروفیسر افضل آرش پاکستان انٹرنیشنل اسکول میں 30برس تدریسی فرائض انجام دینے کے بعد اب اپنے شہر لاہور جا رہے ہیں۔ افتخار راہب اور افضل آرش کے اعزاز میں الوداعی نشست کا انعقاد دلگداز ماحول لئے اپنی مقررہ تاریخ کی طرف رواں تھا کہ ماحول میں تغیر در آیا۔ سبب یہ تھا کہ معروف افسانہ نگار و شاعرہ محترمہ فرحت پروین کی الخبر آمدکی اطلاع کے ساتھ ساتھ محترمہ قدسیہ ندیم لالی کو یہ خبر بھی ملی کہ لاہور کی معروف افسانہ نگار ، کالم نگار و محقق ڈاکٹر عمرانہ مشتاق آج کل اپنی صاحبزادی فاطمہ احمد کے پاس حفر الباطن آئی ہوئی ہیں چنانچہ ترتیب دی ہوئی نشست میں خوشگوار اضافہ ہو گیا۔
الوداعی نشست میںڈاکٹر عمرانہ مشتاق کی موجودگی اور ان کا کلام محفل کو خالص ادبی دنیا کے اس پار لے گئے جہاں صرف ’’حرمتِ قلم اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔‘‘ ’’ہم آواز ادبی و ثقافتی تنظیم‘‘ کی روحِ رواں محترمہ قدسیہ ندیم لالی نے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے مہمانوں کا استقبال کیا اور مہمانان خاص کو اسٹیج پر براجمان ہونے کی دعوت دی جن میںصدرِ محفل سینیئر شاعر اقبال احمد قمر، شاعرہ ، ادیبہ ، محقق عمرانہ مشتاق، مہمانِ خصوصی افتخار راہب، افضل آرش ، یوسف علی یوسف ،مہمانانِ اعزازبحرین کے اقبال طارق اور ریاض شاہدموجود تھے ۔ ریاض شاہد نے نظامت کی ذمہ داریاں بھی احسن طریقے سے نبھائیں۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔آدم ندیم خان کو یہ سعادت حاصل ہوئی ۔بعدازاں ضیاء الرحمٰن صدیقی نے نعتِ طیبہ پیش کی۔محترمہ قدسیہ ندیم لالی نے سپاس نامہ پیش کیا اور تنظیم کے 11سالہ ادبی سفر کو مختصراً بیان کر کے اپنا نیا لائحہ عمل واضح کیا۔انہوں نے انتہائی مسرت سے اعلان کیا کہ الخبر، کراچی اور راولپنڈی کے بعد’’ہم آواز‘‘کی ایک شاخ بہت جلدمملکت بحرین میں بھی قائم کی جا ئے گی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی تہذیب و ثقافت آج بھی ان لوگوں میں شدت کے ساتھ موجود ہے جو محبِ وطن پاکستانی ہیں۔ اسی ثقافت کا ایک رنگ سندھی اجرک ہے جو عزت و محبت کی علامت بھی کہلاتی ہے ۔
تقریب میں قدسیہ ندیم ِلالی اور ندیم خان نے عمرانہ مشتاق ، افضل آرش اورافتخار راہب کو ’’ ہم آواز ‘‘کی جانب سے تعریفی اسناد برائے ادبی خدمات اور سندھی اجرک کا تحفہ دیا جبکہ یوسف علی یوسف کو تعریفی سند سے نوازا گیا ۔ پروگرام دو حصوں پرمشتمل تھا ۔ پہلا حصہ نثری تھا جس میں مہمانِ اعزاز افتخار راہب کے شعری سفر و ادبی منظر نامے پر ولی حیدر نے دلچسپ مضمون پیش کیا۔ افضل آرش کی شخصیت اور ادبی ارتقاء کی اَن سنی داستان ، صدر مجلس اقبال احمد قمر نے حاضرین محفل کو سنا کر انکشافات میں اضافہ کیا۔ڈاکٹر عمرانہ مشتاق کی فنی زندگی پر ، افسانہ نگار و شاعرہ فرحت پروین اور بشیر احمد بھٹی نے ذاتی واقعات کی روشنی میں بہت عمدہ مضامین پیش کئے۔ نشست کے دوسرے حصے میں شعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا۔ منتخب اشعار نذرِ قارئین:
٭٭ریاض شاہد
اک ترا ملنا کرامت لکھ دیا
ہاں تجھے میں نے محبت لکھ دیا
لوگ کہتے ہیں قیامت موت کو
ہجر کو میں نے قیامت لکھ دیا
٭٭ولی حیدر لکھنوی
نجانے خواب کی تعبیر کیا بتائے کوئی
میں اپنے خواب سناتا نہیں اسی ڈر سے
٭٭٭
اس تشنہ لبی پر جو ملے زہر کے پیالے
بر وقت مرے واسطے امداد بہت ہے
٭٭سلیم حسرت
میں گر شادی سے پہلے ہی سدھر جاتا تو اچھا تھا
سدھر جانا نہ تھا ممکن تو مر جاتا تو اچھا تھا
دکھائی ہیکڑی حسرت تو سالوں نے پٹائی کی
سسر کی گالیاں کھا کر میں ڈر جاتا تو اچھا تھا
٭٭صادق کرمانی
نجانے رات بھر کیا سوچتا ہوں
’’میں آنکھیں بند کر کے جاگتا ہ‘‘
مسخر کرنے نکلا ہوں جہاں کو
حقیقت میں اگرچہ بلبلہ ہوں
٭٭ضیاء الرحمٰن وقار:
دنیا فقط سراب ہے سمجھے کچھ اے وقار
کتنا حسیں فریبِ نظر کھا رہے ہو تم
٭٭اقبال اسلم
بے حجاب آسمان ہو جائے
کوئی کیوں درمیان ہو جائے
سر ہتھیلی پہ لے کے آیا ہوں
آئیے امتحان ہو جائے
٭٭فیاض احمد
میرا ہر نقش وہ مٹا دے گا
ہاں وفا کا یہی صلہ دے گا
زندگی درد بھی دوا بھی ہے
جہد کا ایک سلسلہ بھی ہے
٭٭فاطمہ احمد
ہمیشہ ہی تم نے دغا دی ہے مجھ کو
میں پھر بھی تمہارا بھلا چاہتی ہوں
اگر یہ خطا ہے، سزا چاہتی ہوں
٭٭قدسیہ ندیم لالی
ہمیں خوف کیا ہو خزاں سے کچھ ، کہ ہیں عکسِ عہدِ بہارہم
ہیں کلی کلی کا نکھار ہم ، ہیں چمن چمن کا سنگھار ہم
کوئی نفرتوں سے غرض ہمیں ، نہ ہمارے دل میں کدورتیں
یہ وتیرہ اپنا سدا سے ہے ، کہ لُٹائیں پیار ہی پیارہم
٭٭حکیم اسلم قمر
جو بات بات پہ کہتا تھا بھول جانے کو
اسے خبر تھی ہم اس کو بھلا نہیں سکتے
٭٭٭
اس شخص سے حیات کا مفہوم پوچھئے
جس نے تمام عمر ہی صدمے اٹھائے ہیں
٭٭اقبال طارق :
تمام رات ہی آنکھوں میں کٹ گئی طارق
میں اپنی ماں کی دعا کاغذوں پہ لکھتا رہا
٭٭فرحت پروین
الگ ہی لطف ہے اپنا سلگنے اور جلنے کا
میں دل کو آتشِ غم پر مثالِ عُود رکھتی ہوں
کوئی کب ہے سمجھ پایا کسی کے غم کی حرمت کو
سو اپنے آپ کو میں خود تلک محدود رکھتی ہوں
٭٭یوسف علی یوسف
غمِ ہجراں کے بارے بیخبر کو کچھ نہیں معلوم
یہ کیسا چارہ گر ہے، چارہ گر کو کچھ نہیں معلوم
پرندے کر کے ترکِ آشیاں ہونے کو ہیں رخصت
اور اس ہجرت کے بارے میں شجر کو کچھ نہیں معلوم
٭٭افضل آرش
ہر اُگتی فصل میں ہے زہر ہی کیوں
یہ دہقاں کیا زمیں میں بو گئے ہیں
٭٭٭
اپنی اپنی قیمت پر سبھی بک گئے آرش
تو کسی کا حربہ تھا میں کسی کا آلہ تھا
٭٭ افتخار راہب
ہنستا ہے جو آہیں مری بے سود سمجھ کر
اِک روز لرز اٹھّے گا بارود سمجھ کر
کیا خوب مزہ درد کا تھا راہِ وفا میں
دل بیٹھ گیا منزل ِمقصود سمجھ کر
٭٭ڈاکٹرعمرانہ مشتاق:
جیسے جیسے میری ہر سو شہرتیں بڑھتی گئیں
دوست حاسد بن گئے اور سازشیں بڑھتی گئیں
الجھے دھاگے کی طرح تھے زندگی کے روز و شب
جتنا سلجھایا تو اتنی الجھنیں بڑھتی گئیں
صدرمحفل اقبال احمد قمر :
افشا تو اپنی ذات کر کچھ بات کر
کچھ تابش جذبات کر کچھ بات کر
شاید ترے لفظوں سے کوئی جی اٹھے
اپنا سخن خیرات کر کچھ بات کر