ہر شخص بے صبری سے انتظار کر رہا ہے کہ اب کیا ہوتا ہے ، دل یہی گواہی دے رہا ہے کہ پاکستانی سیاست نیا رخ اختیار کرنیوالی ہے
* * * *صلاح الدین حیدر* * * *
ہونی کو انہونی کرنا عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ 2 ہی صورتوں میں یہ ممکن ہے، یا تو رب کائنات کی مرضی ہو یا پھر انسان کی کوئی نیکی اُس کی خوش قسمتی میں تبدیل ہوجائے۔ نواز شریف کو ملک کے اعلیٰ ترین عہدے سے مستعفی ہونے کا مشورہ بہت پہلے دیا گیا تھا۔ اُنہوں نے کان نہیں دھرا اور بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اُنہیں مشورہ دیا گیا تھا کہ پانامہ لیکس کا الزام لگتے ہی مستعفی ہوجائیںمگر جہاں ہر بات کا تمسخر اُڑایا جائے، وہاں نتیجہ خراب ہی ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی مقرر کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے 60 روز میں اپنی رپورٹ مکمل کرکے عدالت عظمیٰ کے حوالے کردی۔ 256 صفحات کی اس رپورٹ (جو 10جلدوں پر محیط ہے) میں حقائق اور اعداد و شمار سے یہ ثابت کردیا گیا، کہ ملک کے وزیراعظم مع اہل خانہ آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں پیش کرتے ہی عام کردی گئی اور جب سے میڈیا اور نجی محفلوں میں زیر بحث بنی ہوئی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کو تو چھوڑیں، اُن کا کام تو حکومتِ وقت پر تنقید کرنا ہی ہوتا ہے، لیکن آپ یقین مانیں کہ رائے عامہ بھی نواز شریف کیخلاف ہوچکی ہے۔ کسی بھی ٹیلی وژن چینل، اخبار پر نظر ڈالیں تو خود ہی پتا چل جائیگا کہ ہر شخص آج یہی کہہ رہا ہے کہ نواز شریف، اُن کے چھوٹے بھائی شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کو فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے۔ مثل مشہور ہے کہ’’ آواز ِخلق کو نقارۂ خدا سمجھو‘‘، لیکن جب آدمی کسی بات پر ڈٹ جائے تو اُسے سوائے اقتدار کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔
یہی کچھ نواز شریف کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ آج تو ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار تک کے اداریے میں لکھ دیا گیاہے کہ وزیراعظم صاحب آپ مستعفی ہوجائیں، آپ نے اقتدار پر رہنے کا اخلاقی اور قانونی جواز کھو دیا ہے، لیکن دوسری طرف سے ایک ہی رَٹ لگائی جارہی ہے کہ نواز شریف، یا اُن کا کوئی بھی ساتھی استعفیٰ نہیں دے گا بلکہ سیاسی اور قانونی جنگ بھرپور طور پر لڑے گا۔ نواز شریف نے اپنی کابینہ، پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں اور قریبی دوستوں کو غیر رسمی مشورہ لینے کیلئے بلایا۔
اعلان یہی ہوا کہ نہ قومی اسمبلی تحلیل کی جائے گی، نہ ہی وزیراعظم، پنجاب کے وزیراعلیٰ، وفاقی وزیر خزانہ مستعفی ہوں گے۔ ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان (جنہوں نے تن تنہا ایک سال سے بدعنوانیوں کیخلاف مہم چلائی، جو اَب قومی نعرہ بن چکا ہے) نے اپنی مہم اور تیز کردینی ہے جس کا انجام مزید خرابی پیدا کرسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے، اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ وزیراعظم اگر آج بھی مستعفی ہوجائیں اور پھر عدالتی چارہ جوئی کے بعد اگر کامیاب ہوگئے تو اُن کا قد آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے گا مگر اسکا کیا کیا جائے کہ نواز شریف بنیادی طور پر اَنا پسند انسان ہیں، وہ اپنے پہلے 2 ادوار میں اسلامی جمہوری اتحاد کے جھنڈے تلے بننے والی حکومت کے سربراہ رہے اور پھر دوبارہ دو تہائی اکثریت لے کر تو اقتدار حاصل کیا، بجائے ظرف کا مظاہرہ کرتے، دھونس اور دھاندلی پر انحصار کیا۔
پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے جھگڑا مول لیا، اُنہیں عہدے سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا اور سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو بھی صرف ایک تقریر کرنے پر مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ نتیجہ ظاہر ہے اُلٹا ہی ہونا تھا۔ بات بالآخر اُن کی حکومت کا تختہ اُلٹنے پر ختم ہوئی۔ شروع شروع میں تو لگتا یہی تھا کہ نواز شریف نے پُرانی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہوگا اور کسی حد تک یہ بات صحیح بھی نظر آئی۔ نواز شریف احتیاط کا دامن پکڑے اپنے اقتدار کو اب تک بچانے میں کامیاب رہے، لیکن اب کی بار صورتحال کچھ اور ہی دِکھائی دیتی ہے۔ یہاں معاملہ سپریم کورٹ کا ہے، آئین اور قانون کو تحفظ دینے کا ہے۔ یہاں صرف قانونی طور پر ہی معاملات طے ہوسکتے ہیں۔
نواز شریف اگر، جیسا اُن کی پارٹی کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ 17 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپیل داخل کریں گے، اسحاق ڈار نے بھی یہی بات دہرائی، اُس میں مزید اضافہ یہ کیا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بہت سی خامیاں ہیں، جنہیں چیلنج کیا جانا ضروری ہے۔ کچھ آئینی اور قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ خود اُنہیں سزا نہیں دے سکتی بلکہ اُن کا ٹرائل کرسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ 17 جولائی کو اپنی نشست میں وہ نواز شریف اور اہل خانہ کو بلا کر صفائی کا موقع دے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نواز شریف کی طرف سے دائر کی جانے والی اپیل پر 17 ارکان پر مشتمل فل بنچ بیٹھے اور دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد کوئی فیصلہ کرے لیکن اکثر ماہرین اس بات پر مُصر ہیں کہ چونکہ جے آئی ٹی نے خاصی جدوجہد کے بعد شواہد اور ثبوت کے بعد اپنی رپورٹ میں اُنہیں مجرم گردانا ہے تو سوائے جے آئی ٹی رپورٹ کی خامیوں یا قانونی نکات کے مزید بحث کی اجازت نہ ملے اور آخری فیصلہ سنادیا جائے۔
عام خیال یہی ہے کہ اُنہیں نااہل قرار دیدیا جائیگابلکہ ہوسکتا ہے کہ شہباز شریف اور اسحاق ڈار بھی گرفت میں آجائیں۔ تو پھر کیا ہوگا۔ کیا (ن) لیگ کوئی دوسرا قائد چُنے گی جو نواز کی جگہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھال سکے، یا پھر ملک کسی نئے انتخابات کی طرف چل پڑے گا۔ ہر قسم کی افواہیں اس وقت گردش میں ہیں۔ حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ طرح طرح کی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ مثلاً کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے، ایک عبوری حکومت 2سال کیلئے قائم کردی جائے جو بنگلہ دیش کی طرح سیاست کو گندگی سے پاک کرکے نئے انتخابات کروائے لیکن افواہوں پر تبصرے سے گریز کرنا ہی بہتر ہے۔ یہ تو عام طور پر کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کا سیاسی کردار اختتام پذیر ہوگیا۔
وﷲ اعلم بالصواب۔ مجھے بھی یہی کچھ ہوتا نظر آتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزراء اور پارلیمنٹرینز نے انتہائی بداحتیاطی سے کام لیا ہے۔ ایک اعلان کے مطابق چیف جسٹس نے وزرا ء کے بیانات کی ریکارڈنگ منگوالی ہے۔ کیا سپریم کورٹ اُن کیخلاف توہینِ عدالت کے الزام کے تحت کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ یہ تو آئندہ ایک،2 ہفتے میں ظاہر ہوجائے گا۔ کیا ہوتا ہے، اس کا ہر شخص بے صبری سے منتظر ہے، لیکن دل تو یہی گواہی دے رہا ہے کہ ملکی سیاست کوئی نیا رُخ اختیار کرنے والی ہے۔