پی سی بی نے سینٹرل کنٹریکٹ میں نوجوان کرکٹرز کو بھی شامل کرلیا
اتوار 16 جولائی 2017 3:00
کراچی(سیّد جمیل سراج)پاکستان کرکٹ بورڈکی جانب سے آئندہ مالی سال 2017-18 ءکیلئے قومی کرکٹرز کے سینٹرل کنٹریکٹ کے ا علان میں سینئرز کے ساتھ کئی نوجوان کرکٹرز کو بھی شامل کیا گیا جس پر یہ سب بہت خوش ہیںجس کی ایک بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ کافی دراز ہوگیا ، حکومت کی منعقدہ تقریب پذیرائی اور پی سی بی کے حالیہ اقدام سے جہاں کھلاڑیوں میں مسرت و اطمینان پائی جا رہی ہے وہیں ٹیم انتظامیہ کے افراد کے بھی گویا مزے آگئے۔پی سی بی نے قومی کرکٹرز کے سینٹرل کنٹریکٹ یعنی ان کی ماہانہ تنخواہوں میں اس مرتبہ خاطر خواہ اضافہ کیاجس کا باقاعدہ اعلان بدھ ب12جولائی کو ہوا جسے اسپورٹس بالخصوص کرکٹ ماہرین و ناقدین کے حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہاہے، لیکن اس کے ساتھ ہی بعض ماہرین کے مطابق ایک باصلاحیت نوجوان بیٹسمین عمر اکمل کے ساتھ نا انصافی بھی کی جارہی ہے۔ فٹنس اور نظم و ضبط جیسے مسائل میں الجھا کر پہلے اسے دورہ ویسٹ انڈیز کے قومی اسکواڈ سے بیدخل کیا گیاپھر بعد میںفٹنس کو جواز بنا کر عین موقع پر تاریخی آئی سی سی چیمپینز ٹرافی ٹورنامنٹ سے وطن واپس بلالیا گیا۔ یوں وہ ایک بڑی فتح حاصل کرنے والی قومی ٹیم سے باہر رہا ،جس کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ میں عدم تسلسل سے شرکت کو جواز بنا کر آئندہ سینٹرل کنٹریکٹ کے حق سے بھی محروم کردیا گیا جو ایک قومی ریگولر کرکٹر کے ساتھ یقینا ناانصافی کہی جائے گی۔ ان تمام حالات سے دلبرداشتہ ہوکر عمر اکمل ان دنوں پاکستان میں نہیں۔ وہ فی الوقت برطانیہ میں اپنی فٹنس کی بحالی کے پروگرام پر مصروف ہیں۔پاکستان سے روانگی کے موقع پر اردو نیوز سے اپنی مختصر مگر جامع گفتگو میں عمر اکمل نے اپنے جن خیالات کا اظہار کیا اس کے مطابق وہ اپنے مستقبل سے مایوس تو نہیں لیکن موجودہ ملکی کرکٹ اسٹرکچر سے غیر مطمئن ضرور ہیں۔ انہوں نے پی سی بی حکام کے رویوں پرتنقید تو نہیں کی لیکن اتنا ضرور بولے کہ” بورڈمیں قومی کرکٹرز کے ساتھ یکساں سلوک اور برتاو¿کرنے کی روایت وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی جارہی ہے جس سے ایک کھلاڑی کے اندر احساس محرومی کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ میرے بعد آنے والے نوجوان کرکٹرز کو اس سے اچھا تاثر ہرگز نہیں ملے گا،جہاں تک میرے اپنے مستقبل کا سوال ہے تو میں اس سے ہر گز مایوس نہیں ہوں۔میں اپنی پوری کوشش ، جد و جہد اور لگن سے دوبارہ ٹیم میں واپس آو¿ں گا۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ اپنا احتساب خود کروں۔ اپنے اندر جو خامیاں اور کمزوریاں ہیں انہیں بتدریج دور کروں، سب سے بڑھ کر مجھ پر ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے کی جو چھاپ لگائی جا رہی ہے اسے اپنے رویوں سے ختم کرنے کی ہر ممکن سعی کروں گا“اس بار سینٹرل کنٹریکٹ میں چار کیٹیگری اے، بی سی اور ڈی میں کرکٹرز کو رکھا گیا ہے۔ اے کیٹیگری میں کپتان سرفراز احمد، شعیب ملک، یاسر شاہ، تیز بولر محمد عامر ،اظہر علی اور محمد حفیظ شامل ہیں جنہیں اب ساڑھے 6 لاکھ روپے ملیں گے۔بی میں شامل اسد شفیق، بابر اعظم، عماد وسیم اور نوجوان فاسٹ بولر حسن علی ہر ماہ ساڑھے چار لاکھ روپے حاصل کریں گے۔ سی میں شامل احمد شہزاد، وہاب ریاض، سمیع اسلم، شان مسعود، راحت علی، شاداب خان، جنید خان، سہیل خان، محمد عباس اور فخر پاکستان فخر زمان آئندہ ہر ماہ گھر بیٹھے2 لاکھ 60 ہزار روپے کمائیں گے۔ڈی میں موجود عثمان صلاح الدین، رومان ریئس، آصف ذاکر، فہیم اشرف، محمد نواز، عامر یامین، عثمان شینواری، عمر امین، امام الحق ، میر حمزہ،محمد اصغراور محمد حسن ایک لاکھ 69 ہزار روپے پی سی بی سے حاصل کریں گے۔ اس کیٹیگری میں شامل دو کھلاڑیوں عمر امین اور عثمان صلاح الدین کو سبکدوش ہونے والے سینئر کرکٹرز یونس خان اور مصباح الحق کا خلا پر کرنے کی غرض سے بطور خاص رکھا گیا ہے، ان میں سے عثمان صلاح الدین تو کوئی پانچ سال بعد سینٹرل کنٹریکٹ کا حصہ بننے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ماہرین اس موقع پر اپنے تبصروں میں یہی کہہ رہے کہ پی سی بی نے کافی عرصہ بعد قومی کرکٹرز کے معاوضے میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے لیکن اب بھی دیگر ملکوں بالخصوص پڑوسی ملک ہند کے مقابلے میں بہت کم ہیں، ان کے ہاں قومی کپتان کی ماہانہ تنخواہ سولہ سے 17 لاکھ روپے جبکہ ایک باقاعدہ کھلاڑی کو ہر ماہ دس سے12 لاکھ روپے ملتے ہیں جس سے اس کے اخراجات یقینا باآسانی پورے ہوتے ہوں گے جبکہ پاکستان میں قومی کھلاڑیوں کیلئے اب جاکر کچھ اضافہ کیا گیا ہے۔ایک ناقد ڈاکٹر شعیب سلطان محمد نے نمائندہ اردو نیوز سے ایک گفتگو میں کہا کہ ہمارے ملک میں جہاں انٹرنیشنل کرکٹ ٹیموں کی آمد میں تعطل پڑا ہوا ہے ، ملک میں امن و امان کی مخدوش صورتحال میں غیر ملکی کرکٹ ٹیمیںیہاں آکر کھیلنے سے گریزاں ہیں، بعض کی حکومتیں اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان روانہ کرنے سے انکاری ہیں۔ایسے حالات میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو بتدریج عالمی رینکنگ میں بہتری کی جانب آنا غیر معمولی کارنامہ کہا جائے گا، ان کے کھلاڑیوں خصوصا کرکٹرز کی ہمت، حوصلے اور جد و جہد کو داد دینے کو دل چاہتا ہے جنہوں نے نا مساعد حالات اور ناکافی سہولیات میں رہتے ہوئے عالمی سطح پر اپنے سے کہیں مضبوط ٹیموں کا جوانمردی سے مقابلے کئے، انہیں کھیل کے ہر شعبے میں چاروں شانے چت کرکے عالمی اعزازات جیتے اور اپنے سبز ہلالی پرچم کو سربلند کیا، ان کھلاڑیوں کی خدمات کا صلہ ان کے شایان شان کہیں اوپر ہے، انہیں مزید نوازا جائے۔دوسری طرف دیگر ناقدین کے تبصروں میں بر عکس باتیں بھی سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق قومی کرکٹرز کو دیگر قومی کھلاڑیوں اور ایتھلیٹس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ پیسے اور مراعات ملتے ہیں، اگر وہ ملک کیلئے عالمی اعزازات جیت رہے ہیں تویہ ان کا ملک و قوم پر کوئی احسان نہیں ہے ، ان کا یہ کام ہے انہیں کرنا چاہئے، قومی ٹیم اور ملک کی نمائندگی کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے ، اس کیلئے انہیں بھاری معاوضہ دیا جاتا ہے، جہاں تک انعامات و اکرام کا سوال ہے تو ایسا ہر ملک اور خطے میں ہوتا ہے، ملک و قوم کیلئے گراں قدر یا غیر معمولی کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کو ہر سطح پر نوازا جاتا ہے ۔ادھر کرکٹ اور کئی سنجیدہ سماجی شخصیات نے اس پر یہی کہا کہ جہاں تک قومی کرکٹ ٹیم کو ہند کے خلاف پہلی بار چیمپینز ٹرافی جیتنے کی خوشی میں وزیر اعظم کی جانب سے غیر معمولی انعامی رقم دینے کی بات ہے یہ ان کے صوابدید میں تھا۔انہوں نے قومی خزانے سے ہی سہی کسی اور کو تو نہیں دیا اپنے قوم کے کھلاڑیوں کو دیا۔ اس انعامی رقم سے کئی متوسط گھرانے میں خوشحالی آئے گی، اس لئے قومی کھلاڑیوں کیلئے تقریب پذیرائی کا انعقاد کوئی ناجائز نہیں تھاجن کو اس پر اعتراض ہے انہیں پہلے اپنے احتساب کے بارے میں سوچنا چاہئے۔جب بات اعتراض کی نکلی تو وزیر اعظم کی تقریب پذیرائی پر کوئی اور نہیں سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کررکھی ہے ،جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں منعقد ہ تقریب پذیرائی اختیارات سے تجاوز ہے۔وزیر اعظم کو اس کا حساب دینا چاہئے، اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ایک وزیر اعظم ہیں وہ کس کس کو کن کن سوالوں کا جواب دیں۔