”مونثیں“
جمعرات 20 جولائی 2017 3:00
-
پردیس میں مقیم ہونے کے متعدد فوائد ہیں ۔ ان میں سے بعض توظاہر ہوتے ہیں اور بعض نہاں
شہزاداعظم
پردیس میں مقیم ہونے کے متعدد فوائد ہیں ۔ ان میں سے بعض توظاہر ہوتے ہیں اور بعض نہاں۔ ایسا ہی ایک نہاں فائدہ یہ ہے کہ ”وی وی وی آئی پی“ یعنی ”ویری ویری ویری امپارٹنٹ پرسنالٹی“اور اردو میں ”انتہائی انتہائی انتہائی اہم شخصیت“کو جب تک دل چاہے، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کا موقع میسر آجاتا ہے۔یہ ایسی شخصیات ہیں کہ وطن میں رہتے ہوئے”وی وی وی آئی پی“ تو دور کی بات اگر ہم جیسے پاکستانی کوکسی ”آئی پی“یعنی صرف ”امپارٹنٹ پرسنالٹی“ کی ایک جھلک بھی دکھائی دے جائے تووہ مہینوں تک ہر بزم میںہم اپنی اس ”خوش قسمتی“ کی ”بریکنگ نیوز“بصد افتخار سناتارہتا ہے اور سننے والے حیرت، استعجاب اور رشک سے اسے دیکھ کر یہ سوچتے ہیں کہ ”کاش!ہماری قسمت بھی اس جیسی ہوتی۔“پردیس میںہمیں ایسی انتہائی اہم شخصیات کے دیدار کی تشنگی کافور کرنے کا ہی موقع نہیں ملتا بلکہ ہم حلفاً کہنے کے لئے تیار ہیں کہ مصافحے کے بہانے اُن کو چھونے اور گاہے ان کے ساتھ ایک آدھ ظہرانہ یا عشائیہ تناول کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ باتیں جب ہم پاکستان جا کر اپنے احباب کو بتاتے ہیں تو وہ اپنے اپنے محلوں میںسینہ تان کر چلتے ہیں،خود کو تمام لوگوں سے خوش قسمت سمجھتے ہیں اور سب کو بتاتے ہیں کہ ”میاں! ہمارے ایک دوست ہیں جو ”وی وی وی آئی پی“ کو نہ صرف قریب سے دیکھ کر آئے ہیں بلکہ انہوں نے مصافحہ کرکے انہیں چھو بھی لیا اور ان کے ساتھ عشائیہ بھی تناول کیا۔یہ سن کر اہل محلہ اس کی اکڑ فوں کو اس کا استحقاق قرار دے دیتے ہیں۔
کل ایسی ہی ایک حیرت انگیزشخصیت سے ہمیں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ہم نے ان کے سامنے ایک ”جذباتی دکھڑا“ پیش کیاکہ گزشتہ دنوں پہلی دنیا میں نانیوں اور دادیوں کے مابین مقابلہ¿ حسن منعقد ہوا جو ایک 68سالہ دادی نے جیت لیا اورانہیں ملکہ¿ حسنِ کہنہ“ قراردے دیا گیا۔اس مقابلے کا ذکر کرتے ہوئے ہماری آواز بھرّا گئی اور آنکھوںمیں نمی کا تناسب بڑھ گیا۔ ہم نے کہا کہ تیسری دنیا کے ممالک میں یہ عالم ہے کہ آدمی کئی کئی سال کی تلاشِ بسیار کے بعد کوئی ”حسینہ“ دریافت کرتا ہے پھر سچی جھوٹی آن بان دکھا کر، بے بنیاد وعدے وعید کر کے ، والدین کو پٹا کران کی بیٹی کو دلہن بنا کر گھر لاتا ہے اور خوش ہوجاتا ہے کہ میری محنت رنگ لائی اور حسین بیوی میسر آگئی۔مگر اُس بے چارے کی یہ خوشی زیادہ دن برقرار نہیں رہتی اور5 یا زیادہ سے زیادہ 6ماہ کے بعد ہی وہ دلہن کئی بچوں کی اماں لگنے لگتی ہے، حسین خدوخال ، خام خیال محسوس ہونے لگتے ہیں۔ایسے میں اگرغلطی سے اسے بیگمات کے مقابلہ¿ حسن میں شرکت کے لئے بھیج دیا جائے تو الٹے قدموں یہ کہہ کرواپس کر دیاجاتا ہے کہ یہ اکھاڑا نہیں، ”مسابقتِ جمال“ بپا کرنے والا ادارہ ہے۔اب ذرا خود ہی سوچئے کہ ہمارے ہاں کی وہ ہستیاں جو ابھی تک دلہن کے لقب سے ہی بلائی اور پکاری جارہی ہوں، وہ بے چاری خوبصورتی کے مقابلے سے باہر ہوجاتی ہیںپھر بھلا وہ شخصیات جواماوں، نانیوں اور دادیوں کی منزل کو پہنچ کربلحاظِ خال و خد ” آپے سے باہر“ ہو چکی ہوں، انہیں اس مقابلے کے لئے اُمیدواری کا فارم بھی کیونکر میسر آسکتا ہے؟اس کے برخلاف پہلی دنیا ہے جہاں کی دلہنیں، امائیں بن جاتی ہیں، نانیاں بن جاتی ہیں پھر بھی تیسری دنیا کاہر ذی شعور شخص انہیں دیکھتے ہی صدقِ دلی اور قلب کی گہرائیوں سے بے ساختہ انہیں”دلہن“کہہ کر مخاطب کر بیٹھتا ہے۔آپ سے میرا سوال یہ ہے کہ پہلی دنیا کی دلہنیں اس قدر پائدار کیوں ہیں اور تیسری دنیا میں دلہنوں کی پائداری محض خواب کس لئے ہے؟اُس نابغہ¿ روزگار شخصیت نے ہمارے اس طویل سوال کا مختصرترین جواب دیتے ہوئے کہاکہ”یہ سلسلہ دلہن تک ہی محدود نہیں بلکہ تیسری دنیا میں عموماً اور ہمارے ہاںخصوصاً اکثر”مونثیں“یعنی ”فی میلز“ پہلی دنیا کے بالکل ہی الٹ ہیں۔اب ذرا گنتی کیجئے، اک وہاں تعلیم ہوتی ہے، اک ہمارے ہاں تعلیم ہے، اک وہاں بدعنوانی ہوتی ہے، اک ہمارے ہاں بدعنوانی ہے،اک وہاں مہنگائی ہوتی ہے، اک ہمارے ہاں مہنگائی ہے، اک وہاں بدامنی ہوتی ہے، اک ہمارے ہاں بدامنی ہے،اک وہاںپولیس ہوتی ہے، اک ہمارے ہاںپولیس ہے اور سب سے بڑھ کر اک وہاں جمہوریت ہوتی ہے، اک ہمارے ہاں جمہوریت ہے۔“
واقعی اس شخصیت نے کیا عاقلانہ انکشاف کیا ، یقین جانئے،اس وقت سے ہم گنتی گن رہے ہیںمگر اس کے ختم ہونے کا امکان اب تک نظر نہیں آیا۔