آج کل لاہور میں ٹانگے نہیں چلتے ، ٹانگیں چلتی ہیں
ہم ترقی کی اس منزل پر پہنچ چکے جہاں ہمیں گھوڑا، گھوڑی کی جگہ چنقچی نے لے لی
شہزاد اعظم۔جدہ
بچپن کا دور ہوتا تھااورشہر لاہور ہوتا تھا جہاںہم تانگوں میں سفر کیاکرتے تھے۔ انگریزنے تانگے میں ”ت“ کی جگہ ”ٹ“ لگا کر استعمال کیا اور اسے ”ٹانگہ “ قرار دیا۔پھر ہوا یوں کہ انگریز تو برصغیر سے چلا گیا مگر اپنے ”خادم اور خادمائیں “ یہیں چھوڑ گیا۔ وہ جاتے جاتے ہمیں ٹانگوں کے بل ٹانگ گیا۔ اس کے باوجود یہ خادم اور خادمائیںاپنی ”ٹنگ“ سے اپنے گورے آقا¶ں کی ”ٹنگ“ میں گفتگو کرنا باعثِ فخرسمجھتے رہے تھے، سمجھتے رہے ہیں اور شایدسمجھتے رہیںگے۔اسی لئے وہ تانگے کو ”ٹانگہ“ہی کہتے رہے۔ سانپ کو گزرے دہائیاں بیت گئیں مگر ہم وہی لکیر پیٹتے رہے۔ہمارے اندر تبدیلی نہیں آئی البتہ لکیر کو ہی شرم آگئی اور وہ خود ہی مٹ گئی یعنی خادمانِ انگریز نے ”تانگے “ کو ”ٹانگہ“کہنا ترک نہیں کیا بالآخر تانگے خود ہی شہر سے رخصت ہو گئے۔بہر حال آج کل لاہور میں ٹانگے نہیں چلتے ، ٹانگیں چلتی ہیں۔
تانگے میں عموماً گھوڑی یا اس کے نر کو ہی جوتا جاتا تھا۔گاہے وہ چلتے چلتے پہلے سست ہوتا اور پھر زمین پر یوں بیٹھ جاتا تھا گویا گر گیا ہے۔ یہ دیکھ کر مالک اسے اٹھانے کی کوشش کرتا، اس کی دھنائی کرتا مگر وہ نہ اٹھتا۔ یہ گھوڑے کی جانب سے احتجاج ہوتا تھا ۔ اس کا مالک اسے کھانے کے لئے پیٹ بھر گھاس نہیں دے پاتا تھااور کئی کئی گھنٹے اس سے باربرداری کا کام لیتاتھاچنانچہ مالک کی جانب سے اس ظلم کے خلاف وہ آوازتو اٹھا نہیں سکتا تھا لہٰذا خود بیٹھ جاتاتھا۔ کچھ دیر اسی اندازمیں بیٹھے بیٹھے جب اسے مالک پر ترس آتاتو وہ اٹھ کر کھڑاہوجاتا اور چل پڑتا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ تانگے کی عقبی نشست پر کوئی بھاری بھرکم شخصیت براجمان ہوجاتی اور چھکڑے پر اتنا بوجھ پڑتا کہ گھوڑے کے پیر زمین پر ٹک نہ سکتے اور وہ فضا میں بلند ہوجاتا۔ایسے میں اس بھاری بھرکم شخصیت سے گزارش کی جاتی کہ جناب! آپ عقبی نشست سے اٹھ کر آگے کی نشست پر آکر بیٹھ جائیں تاکہ ”توازن“ برقرار رہے کیونکہ جب کبھی عدم توازن پیدا ہوتا ہے، زندگی کی گاڑی اسی طرح ساکت ہوجاتی ہے۔
آج دنیا نے بے انتہاءبلکہ ”منہ زور“ ترقی کر لی ہے۔ہمیں روٹی ، کپڑا اور مکان ہی میسر نہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک اپنی آنے والی نسلوں کے لئے مریخ پر اراضی خرید کر محلات تعمیر کرنے کی پیشکشیں کر رہے ہیں۔ ہمارا پاکستان ، ترقی یافتہ نہیں بلکہ ترقی پذیر ملک ہے۔ اس نے اپنے وسائل و مسائل میں رہتے ہوئے ترقی کی ہے۔ ہم مریخ پر تو نہیں جا رہے تاہم زمین پر بہتر انداز میں رہنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ہم بھی خاصی ترقی کر چکے ہیں۔ اس کا ثبوت زیر نظر تصویر ہے جس میں چنقچی خاموش احتجاج کے انداز میں فضا میں معلق ہے۔ ماضی میں اس انداز میں چھکڑے کی جگہ تانگہ ہوتاتھا اور موٹر سائیکل کی جگہ گھوڑا یا گھوڑی ہوتی تھی۔ آج ہم ترقی کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں گھوڑا، گھوڑی کی ضرورت نہیں رہی بلکہ اس کی جگہ چنقچی نے لے لی ہے۔ ہم ترقی کی جانب رواں دواں ہیں۔ ہمیں کرہ¿ ارض پر آنکھ کھولے صرف 68برس ہی تو ہوئے ہیں، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔