بئر الخاتم ، انگشتری نبیﷺ کا آخری مقام
حضرت عثمانؓ نے کنویں کاپانی نکلواکر اس کی ریت کو اچھی طرح چھنوایا ، 3دن تک کنویں کے اندر انگوٹھی کو تلاش کروایا،اس کے باوجود وہ نہ ملی
عبد الستارخان
رسول اکرم اپنے دور کے سفارتی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے مختلف مما لک کے سربراہان کے نام اپنے خطوط پر مہر لگانے کا اہتمام فرمایاکرتے تھے ۔ اس کے لئے آپ نے بطور خاص انگوٹھی بنوائی جس پر ’’ محمد رسول اللہ‘‘کے الفاظ کندہ تھے ۔آپ کے ہر گرامی نامے کے ذیل میں یہ مہر لگی ہو تی تھی۔آپ کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت عائشہ صدیقہؓ کے سپردکردی گئی ۔جب حضرت ابوبکر الصدیق ؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو حضرت عائشہؓ نے یہ انگوٹھی ان کے حوالے کردی ۔حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت عمر فاروقؓ کو ملی ۔حضرت عمرؓ نے انتقال سے پیشتر وہ انگوٹھی ام المومنین حضرت حفصہؓ کے پاس رکھوادی اور ہدایت کی کہ جو خلیفہ منتخب ہو اس کے سپرد کردی جائے چنانچہ جب حضرت عثمان بن عفان ؓ خلیفہ بنے تو یہ انگوٹھی ان تک پہنچی اور ان سے ہی ایک کنویں میں گر گئی ۔
جس کنویں میں یہ انگوٹھی گری تھی اس کا نام’’ بئر اریس‘‘ یعنی اریس کا کنواں ہے ۔ اریس یہودی نام ہے جس کا مطلب کسان ہے۔ اس کنویں کو’’ بئر النبی‘‘ یعنی نبی اکرم کا کنواں بھی کہا جاتا ہے تاہم انگوٹھی گرنے کے بعد اس کا نام’’ بئر الخاتم‘‘ انگوٹھی کا کنواں پڑگیا۔ اس کنویںکا تاریخ میں اہم مقام ہے ۔یہ کنواں مسجد قبا ء کے مغرب میں اُس وقت کے صدر دروازے سے 42میٹر کے فاصلے پر واقع تھا ۔ ابن نجار کے مطابق کنویں کی گہرائی 6.3میٹر اور چوڑائی2.2میٹر تھی جبکہ پانی کی سطح 1.3میٹر تھی ۔ بعد کے ادوار میں کھدائی کرکے اس کی گہرائی 8.5میٹر کردی گئی ۔
سنہ1317ء میں کنویں کی تہہ تک اتر نے کیلئے سیڑھیاں تعمیر کی گئیں لیکن یہ زینہ کس نے تعمیر کرایا اس پر مورخین کا اختلاف ہے ۔ عثمانی دور حکومت میں اس کنویں پر گنبد تعمیر کرایا گیا اور ایک دوسرا گنبد اس کے جنوبی سمت میں تعمیر کرایا گیا۔دونوں گنبد شکستہ حالت میں تھے ۔ جب 1964ء میں مسجد قباء کا چوک تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا ، تب مدینہ منورہ میونسپلٹی نے انہیں منہدم کرا دیا ۔ بعد ازاںمسجد قباء چوک بنانے کے لئے زمین کو ہموار کیا گیا اور ایسا کرنے سے وہ کنواں بھی دفن ہوگیا ۔ اب اس کے آثار بھی مفقود ہیں ۔
صحیح مسلم میں ہے کہ ا یک دن رسول اکرم اس کنویں پر اپنی ٹانگیں لٹکائے تشریف فرماتھے کہ حضرت ابوبکر الصدیق ؓ اور حضرت عمر ابن خطابؓ بھی وہاں آگئے اور رسول اکرم کے قریب بیٹھ گئے ۔تھوڑی دیر بعد حضرت عثمان بن عفانؓ بھی وہاں پہنچ گئے اور رسول اکرم کے قریب جگہ نہ پاکر تینوں کے سامنے بیٹھ گئے ۔ اپنے تینوں صحابہ کرام کو بیٹھا دیکھ کر رسول اکرم نے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پانے کی بشارت دی۔ اسی نسبت سے اس کنویں کو بئر النبی بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت عثمان بن عفان ؓ کی خلافت کا زمانہ تھا جب وہ اس کنویںپر اسی طرح بیٹھے تھے جس طرح رسول اکرم اور اپنے دونوں ساتھیوں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے کہ انگوٹھی ان کے ہاتھ سے نکل کر کنویں میں جاگری ۔آپؓ نے اس کنویں کا سارا پانی نکلواکر اس کی ریت کو اچھی طرح چھنوایا مگر وہ نہیں ملی ۔انہوں نے 3دن تک کنویں کے اندر انگوٹھی کو تلاش کروایا مگراس کے باوجود انگوٹھی نہیں ملی ۔ خاتم نبوی کے اس طرح گم ہوجانے پر آپؓ کو سخت ملال ہوا ۔بعد میں بھی اس انگوٹھی کی تلاش کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں مگر وہ کسی کو نہیں ملی ۔بعض مورخین کا کہنا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے بعد ازاں اسی شکل کی انگوٹھی بنوائی تھی ۔