Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اب سماج کو تخلیق کار نہیں درکار

 
نذیر فیض50   برس سے بے فیض دھرتی پر شاعری کررہا ہے
 
 
 
 وسعت اللہ خان
 
 
کسی سماج کا ظرف ناپنا ہو تو اس کے اہل تخلیق و فن کار کا احوال اور ان سے ہونے والا انفرادی و اجتماعی سلوک و
خیالات دیکھ لو۔ جھٹ پتہ چل جائے گا کہ سماج کی رگوں میں کتنی زندگی باقی ہے۔
  اگر پاکستانی سماج کا جغرافیائی پوسٹ مارٹم کیا جائے تو جنوبی پنجاب میں ایسے کئی جاگیردار خانوادے ہیں جن کی آمدنی کا درست اندازہ صرف ان کے منشیوں کو ہے۔ان میں سے کچھ نہ صرف اپنی نسل در نسل روحانی ، علمی و تہذیبی میراث پر فخر کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بیش بہا کتب خانوں کے بھی مالک ہیں۔ نثر اور شعر کی ان کی سمجھ حیرت انگیز ہے لیکن اسی جنوبی پنجاب میں جب راجن پور کے زوالیہ دبدبے دار سرداری سماج میں نذیر فیض مگی جیسے شاعر کو دیکھتا ہوں تو اس کی ٹوٹی کمانی والی عینک اور گھسی ہوئی چپل اس کے کلام پر واہ واہ برسانے والے کلف دار طاقت پرستوں کے کھوکھلے پن کو کچھ اور نمایاں کردیتی ہے۔ بقول نذیر فیض ” خیال کرن نہ کرن ، عزت بہوں کریندن ” ( خیال کریں نہ کریں ، عزت بہت کرتے ہیں )۔ نذیر فیض50 برس سے بے فیض دھرتی پر شاعری کررہا ہے۔ آج تک پہلا مجموعہ تک شائع نہ کر پایا۔
اور اسی جنوبی پنجاب میں دریا پار جدید سرائیکی شاعری کے ایک ہراول نام شاکر شجاع آبادی کا بھی وجود ہے۔12برس سے فالج کا شکار ہے۔9برس سے پرائڈ آف پرفارمنس کے سرٹیفکیٹ کا بوجھ سینے پر دھرے ہوئے ہے۔ اس کے سینکڑوں اشعار زبان زدِ عام ہیں۔ 2برس قبل شریف برادران نے شاکر شجاع آبادی کے لئے ماہانہ وظیفے اور گھر کا اعلان کیا۔ ایک مرتبہ 25 ہزار روپے کا وظیفہ آیا ضرور۔
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے....
کون ہے جو پاکستان تا ہندسلیم کوثر کے اس مصرعے سے واقف نہیں۔وہی سلیم کوثر آج کل کراچی کے ایک کونے میں علیل پڑا ہے۔مگر بقول جون ایلیا:
کس کو فرصت کہ مجھ سے بحث کرے
اور ثابت کرے کہ میرا وجود
زندگی کےلئے ضروری ہے۔
ہاں اس کراچی میں سب سے آسان کام ہے بھتہ لینا اور دینا ، لوٹنا اور لٹنا۔چھیننے والے سلامت ، چھننے والے بہت۔کسی کو کسی پر اعتراض نہیںمگراس پوری منڈلی میں ایک بھی تو سلطانہ ڈاکو نہیں۔ تو پھر کیوں نہ یہاں کا جمالِ احسانی قرض کے اسپتالی بستر پے پڑا پڑا نعت کا یہ شعر کنگناتا مرجائے:
ویسے تو ہر زمانے کو حاجت ہے آپ کی
پر ان دنوں زیادہ ضرورت ہے آپ کی
عبید اللہ علیم اپنے ہم عصروں اور نئے تخلیق کاروں کو تسلی دیتا دیتا خود بھی مرگیا کہ ” پیارے صاحب کسی شریف عورت کو کسی طوائف کے تمول سے پریشان نہیں ہونا چاہئے ”۔مگر ایک سفید پوش علیم کو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ؟ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ایک دلال سماج میں اہلِ ہنر کے پاس خود کو تسلی دینے والا تکیہ لازمی ہے کہ جس پر سر ٹیک کے رویا جاسکے۔
رہی بات پڑھے لکھے وسطی و لاہوری پنجاب کی تو وہاں آج بھی میراث سر آنکھوں پر اور میراثی اپنے ہی قدموں پر۔ اہلِ قلم وہی بامراد کہ جس کی قلم کسی طاقتور پیڑ میں لگی ہو۔ اور خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کا کیا کہوں کہ جو عرصہ ہوا اہلِ تخلیق و فن کے لئے صرف ذہنی نہیں ، وجودی کربلا بن چکے ہیں۔
مگر بہادر ہیں دراصل وہ لوگ جنہوں نے نوسر بازی کی بیعت ، جہل کی منشی گیری ، رعونت کی پاپوش برداری ، اختیار کی مالش اور بے علمی کی خوشامد اختیار کرنے پر آمادگی کے بجائے تخلیق کاری کے کرب کے وقتی خسارے کو ہی منافع جانا اور اپنے ہی آگے ہاتھ پھیلا کے زندگی گزار ڈالی۔ ایک آڑھتی سماج میں یوں سہولت سے گزر جانا بھلا کوئی معمولی کام ہے ؟ 
ہاں یہاں آپ جونک بن کے ہی آسودگی کاٹ سکتے ہیں مگر جونک بننا بھی تو ہر ایک کے بس میں نہیں۔ایک خاص طرح کی بے حسی درکار ہے ، گلاس میں گلاس اور آبخورے میں آبخورہ جیسا ڈھل جانے کی مائع جاتی صفت چاہئے اور ہر طرح کا فاسد و غیر فاسد خون چوسنے اور اسے حلال سمجھنے کا  بوتا ہو تب ہی آپ ایک کامیاب کاروباری سماجی جونک بن سکتے ہیں۔ اور جب ایک بار آپ آدمیت کے زینے سے اتر کے جونکوں کی دنیا میں داخل ہوگئے تو پھر کسی بھی طرح کے خون کی کیا کمی ؟ جس طرح تخلیق کار جزوقتی نہیں ہوسکتا اسی طرح جونک بننے کا عمل بھی کل وقتی ہے۔یا تو آپ جونک ہیں یا پھر نہیں ہیں۔
تخلیق کاروں اور اصحابِ ہنر کے تذکرے سے فوراً یہ بات ذہن عمومی میں آتی ہے گویا ہم شاعری ، نثر ، فنونِ لطیفہ وغیرہ کے وابستگان کی بات کررہے ہیں۔مگر یہ دائرہ اتنا چھوٹا نہیں ۔ہر وہ کھلاڑی جو اپنے انداز سے کھیل کے میدان میں اپنا اظہار کرنا چاہتا ہے ، ہر وہ سائنسداں جس کے پاس ایک کا یا کلپ آئیڈیا ہے ، ہر وہ میڈیا پرسن جو بھیڑ چال سے نکل کے کچھ نیا کرنا چاہتا ہے ، ہر وہ بیورو کریٹ جو اپنے کام میں انسانیت اور بنیادی اخلاقیات کی آمیزش کرکے اسے انسان دوست بنانا چاہتا ہے ، ہر وہ جنرل جو روایتی وار گیم کے مضمحل دماغ میں تازہ خون دوڑانے کے لئے بےتاب ہے ، ہر وہ عالم جو عقیدے کو پرپیچ در پیچ دستار سے آزاد کر کے سر کو ہوا لگوانے کا خطرہ مول لے رہا ہے ، ہر وہ زن و مرد و طفل جو ننگ کو ستر کہنے سے انکاری ہے۔یہ سب کے سب اہلِ تخلیق و ہنر ہیں اور ان سب کو ایک جونک پرور آڑھتیانہ سماج میں خسارے کی سرمایہ کاری درپیش ہے کہ جس میں اپنا وجود برقرار رکھنے کی صعوبتیں ہی ان کا انعام اور علتِ کج کلاہی ہی ان کا سکون ہے۔آج یہ آڑھتی سماج اپنی ہی کھوکھلاہٹ کی دلدل میں خود کو آہستہ آہستہ دھنستے دیکھ تو رہا ہے مگر خود کو بچانے کے لئے کچھ زیادہ نہیں کر پارہا۔بچانے کے لئے ہاتھ ضروری ہیں مگر بقول ایک خساروی شاعر احمد نوید ،
بے بسی دیکھ میرے ہاتھ بھی اب ٹوٹ گئے 
پاو¿ں پہلے ہی میسر نہ تھے چلنے کے لئے
 

شیئر: