ہر بندہ دھرتی کیلئے خون کا آخری قطرہ بہانے کو ہمہ وقت آمادہ ہے
* * *وسعت اللہ خان * * *
شاید یہ مشرقی مزاج ہے یا پھر ہماری لسانیاتی تشکیل کا فیض کہ بات میں وزن اور زور پیدا کرنے کیلئے مبالغے کا بگھار لگائے بغیر بات نہیں بنتی۔شاید ہمارا خمیر ہی غلو کے رس میں گندھا ہے۔ ہماری طبیعت دو انتہاؤں کے درمیان بسیرے کی عادی ہوچکی ہے۔ قصیدہ ہے یا پھر ہجو ، فرشتہ ہے یا شیطان ، دوست ہے یا پھر دشمن ، آر ہے یا پار ، سیاہ ہے یا سفید۔ابلاغ میں غلو تشفی ہی نہیں دیتا جب تک غلو میں بھی ہمالیہ برابر مبالغہ نہ ہو۔اپنا روزمرہ ہی دیکھ لیں۔ ہر تیسرا ریستوران دعوے دار ہے ’’ عمدہ اور لذیز کھانوں کا واحد مرکز ’’۔گھسیٹے خان حلیم والے سے تاج محل پکوان تک ہرسفید بالوں والے باورچی کے پاس سلطنت ِمغلیہ کے مطبخ سے نسل در نسل چرائے مجرب خاندانی نسخے پائے جاتے ہیں۔
ہر چوتھے قوال کا شجرہ امیر خسرو سے تو ہر چھٹے گویے کا شجرہ تان سین سے مل رہا ہے۔ ہر چوتھا مطب یقین دلا رہا ہے کہ یہاں جملہ پوشیدہ و نا پوشیدہ امراض جڑ سے اکھاڑ دئیے جاتے ہیں ( ایڈز اور کینسر سمیت)۔ایک دواخانہ تو اس پے اتر آیا کہ ’’ یہاں بواسیر اور دیگر امراضِ چشم کا تسلی بخش علاج ہوتا ہے ‘‘۔ ہماری تو دھمکی بھی بنا غلو کارگر نہیں رہی۔ کسی دیوار پر بس یہ لکھا ہو کہ ’’ یہاں پیشاب کرنا منع ہے ‘‘تو عمل کرنا درکنار کوئی پڑھتا تک نہیںتاوقتیکہ یہ نہ لکھا جائے ’’ یہاں پیشاب کرنے والے کو حوالہ ٔ پولیس کیا جائے گا ، بحکم انتظامیہ ‘‘۔ کسی مجرم کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق سزا دینے کے مطالبے کا چلن ہی نہیں۔اب عدالت میں درخواست دائر نہیں ہوتی بلکہ حکمیہ رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔نشانِ عبرت بنا دیا جائے ، سرِ عام پھانسی پر لٹکایا جائے ، گدی سے زبان کھینچ لی جائے ، کھال اتار لی جائے ، صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے ، نام و نشان نہ رہنے دیا جائے ، گردن اتار دی جائے۔یہ لفظیات عام آدمی کی نہیں بلکہ رہنماؤں اور خطیبوں کے منہ سے جھڑتی ہیں۔ آپ کسی اجتماع یا تقریب کااشتہار دیکھ لیں۔
اگر بس یہ اطلاع ہو کہ آج شب ممتاز عالمِ دین نظامِ مصطفی کانفرنس سے خطاب کریں گے تو نہ میزبان کی تسلی ہوتی ہے اور نہ ہی مدعوئین سنجیدگی سے لیتے ہیں۔جب تک پورا اشتہار موٹے موٹے حروف سے اس قدر لبالب نہ بھرا ہو کہ الفاظ اشتہار کے سائز سے بھی دو ہاتھ آگے نکل رہے ہوں: ’’ آج شب بین الاقوامی شہرت یافتہ پیرِ طریقت ، عالمِ بے بدل ، مفکرِ دوراں ، ولیٔ عصر ، سفیرِ اتحادِ بین المسلمین ، شمس العلما ، محسن ِ اہلِ سنت حضرت مولانا مدظلہ بعد نماز عشا چورنگی والی مسجد میں فیوض و برکات سے بھرپور فکری خطاب سے سرفراز فرمائیں گے۔جملہ عاشقانِ اسلام سے جوق در جوق شرکت کی درخواست ہے ‘‘۔ کسی منصوبے کے افتتاح یا سنگ بنیاد کے موقع پر کسی وی وی آئی پی کا شکریہ یوں بھی تو ادا ہو سکتا ہے کہ ہم شکر گزار ہیں وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے جنہوں نے کاہنہ کاچھا پل کا افتتاح کیا،مگر نہ میزبان میں ہمت ہے کہ سادہ شکریہ ادا کرے اور مہمان کو بھی ایسی سادگی توہین محسوس ہوتی ہے۔جب تک سپاسنامہ کچھ یوں نہ ہو جاوے: ’’ آج اہلیان ِ کانا کاچھا کیلئے یہ ایک تاریخی دن ہے کہ جنابِ وزیرِ اعظم اپنی اہم ترین قومی و بین الاقوامی ذمہ داریوں میں سے کچھ وقت نکال کر تشریف لائے اور پھر ثابت کردیا کہ انہیں کاہنہ کاچھا کے لاکھوں مکینوں کی فلاح و بہبود کا کس قدر خیال ہے۔عزت مآب وزیرِ اعظم یہاں کے عوام تادیر آپ جیسے درد مند ، خاندانی شرافت کے پیکر ، غیر معمولی حساس ، بے مثل محبِ وطن پاکستانی مدبر کی تشریف آوری کے سبب اپنی خوش بختی پر نازاں رہیں گے اور آپ کی ایک ہی پکار پرآپ پر دل و جان نچھاور کردیں گے ‘‘۔ اور سپاسنامے کے آخر میں بے موقع شعر کا لازمی ٹانکہ بھی لگانا ضروری ہے:
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
* وغیرہ وغیرہ…
ذرا روزمرہ انتظامی فیصلوں سے عام آگہی کیلئے پانی کی طرح بہائے جانے والے خالی از مطلب و منطق لفظیاتی خزانے پے غور کیجئے۔مثلاً :یہ کہنا ہرگز کافی نہیں کہ ریلی کیلئے ہر ممکن حفاظتی اقدامات کر لئے گئے ہیں۔جب تک یہ دعویٰ نہ کیا جائے کہ ’’ ریلی کے شرکا کو بے مثال فول پروف سیکیورٹی فراہم کی جائے گی ‘‘ ( خدا معلوم فول پروف سیکیورٹی کس جانورکو کہتے ہیں)۔ ہر جلسہ کامیاب نہیں انتہائی کامیاب ہوتا ہے ، ہر جلسے میں لوگ سادی شرکت نہیں جوق در جوق شرکت کرتے ہیں۔ہر ’’ عظیم‘‘ رہنما کا استقبال نہیں ہوتا فقید المثال استقبال ہوتا ہے۔ہر نعرہ نعرہ نہیں جب تک فلک شگاف نہ ہو۔
کوئی جلوس جلوس نہیں ہوتا جب تک اسے ملین مارچ نہ بتایا جائے۔ہررہنما ہزار ڈیڑھ ہزار عوام کے ٹھاٹیں مارتے سمندر سے ہی خطاب کرتا ہے( بھلے اس نے ٹھاٹھیں مارتا اصلی سمندر ایک بار بھی نہ دیکھا ہو )۔ یہاں ہر بندہ دھرتی کیلئے خون کا آخری قطرہ بہانے کو ہمہ وقت آمادہ ہے مگر پہلا قطرہ بہانے کو ایک بھی تیار نہیں۔یہاں ہر با اختیار فرد برائی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کیلئے بے تاب ہے یہ جانے بغیر کہ پہلی کیل ٹھیک سے لگی بھی کہ نہیں۔ 3 روز پہلے ہی وزیرِ اعظم نے آٹھ سو بارہویں مرتبہ یقین دلایا کہ ’’ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی ‘‘…تو کیوں نہ ذرا ہمت کر کے آخری دہشتگرد سب سے پہلے پکڑ لیا جائے تاکہ ٹنٹا ختم ہو۔ حیرت ہے جو قومیں مبالغہ آراء لفظیات کی عادی نہیں وہ کیسے اپنے مسائل حل کرتی ہیں۔شاید وہ ’’ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنے ‘‘ کے چکر میں پڑے بغیر مکمل توجہ حل کی جانب ہی مرکوز رکھتی ہوں گی۔