مسجد کوئی بھی صاحبِ حیثیت تعمیر کر سکتا ہے یا پھر باہمی رضامندی سے جمع چندے سے بنائی جاسکتی ہے
* * *وسعت اللہ خان***
برطانیہ کی مسلم کونسل پچھلے2 برس سے ’’ وزٹ مائی موسک ڈے ’’ ( میری مسجد میں تشریف لائیے ) منا رہی ہے تاکہ کوئی بھی آ کر نمازیوں سے ملے اور ان سے اسلامی عقائد کے بارے میں معلومات حاصل کرے اور اپنے تاثرات سے نمازیوں کو آگاہ کرے۔ برطانیہ میں اس وقت لگ بھگ 1750 مساجد قائم ہیں۔ پچھلے برس ’’ وزٹ مائی موسک ڈے پروگرام ’’ میں90 مساجد نے اپنے دروازے بلاامتیاز کھولے مگرمسلم کونسل کو امید ہے کہ یہ تعداد اور بڑھے گی۔ برلن کے وسطی علاقے پیٹری پلاٹز میں ’’ دی ہاؤس آف ون ’’ ( ایک مشترکہ گھر ) نامی جدید کمپلیکس نیا نیا بنا ہے۔اسکے احاطے میں ایک چھت تلے 3 ہال ہیں۔ایک میں سینوگوگ ، دوسرے میں چرچ اور تیسرے میں مسجدجبکہ مرکزی ہال تینوں الہامی مذاہب کے عبادت گزاروں کی نشست و برخواست ، میل ملاقات کیلئے مختص ہے۔
تینوں مذاہب کی عبادت گاہوں کیلئے مخصوص ہالوں کو ان مذاہب کے بنیادی مذہبی تقاضوں کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے۔ امریکہ کے کئی شہروں میں تمام مذاہب کے لوگ مسلم ثقافتی ادب و آداب کا خیال رکھتے ہوئے مہینے میں ایک مخصوص دن بیشتر مساجد میں جا سکتے ہیں۔عصرِ حاضر میں ترکی شاید واحد مسلمان اکثریتی ملک ہے جہاں تمام مساجد بلا تفریقِ عقیدہ سب کیلئے کھلی ہیں ۔خواتین کسی بھی مسجد میں عبادت کر سکتی ہیں۔ غیر مسلم خواتین و حضرات نمازوں کے درمیانی وقفوں میں مسجد دیکھ سکتے ہیں اگر انہوں نے مناسب لباس پہنا ہو۔ دورِ رسالت میں خواتین کے مساجد میں داخلے پر پابندی کا تصور نہیں تھاالبتہ بعد کے دور میں خواتین پر زور دیا جانے لگا کہ بہتر یہی ہے کہ وہ گھروں میں رہ کر عبادت کریں اور پھر آنے والے زمانوں میں یہ عملتمام فرقوں نے بلا امتیاز مختلف تاویلات و جوازات اختیار کرتے ہوئے پتھر پے لکیر سمجھ لیا کہ خواتین کا مسجد میں جاناکسی طور مناسب نہیں حالانکہ مسجد الحرام اور مسجدِ نبوی شریف میں آج بھی خواتین کا حقِ عبادت تسلیم شدہ ہے۔ آج یہ حالت ہے کہ میں نے کئی شہروں میں خود دیکھا کہ چند مساجد کی دیواروں پر جلی حروف میں لکھا ہے کہ یہ مسجد فلاں فرقے کیلئے مختص ہے۔
دیگر فرقوں کے لوگ داخلے کی زحمت نہ کریں۔ جب خلیفہِ راشدِ ثانی حضرت عمر بن خطاب یروشلم کو بازنطینی قبضے سے چھڑانے کے بعد اونٹنی کی مہار پکڑے شہر میں داخل ہوئے تو آپ کی نگاہ خستہ حال جھاڑ جھنکاڑ سے اٹی متروک یہودی عبادت گاہ پر پڑی۔روایت ہے کہ آنسو بہتے جاتے اور آپؓ عبادت گاہ پر جمع پتھر ہٹاتے جاتے۔اس عبادت گاہ کی صورت گری کے بعد آپؓ نے ایک حکم کے ذریعے 500 برس میں پہلی مرتبہ یروشلم میں یہودیوں کا حقِ عبادت بحال کردیا۔روایت ہے کہ شہر میں داخلے کے بعد ساتھ ساتھ چلنے والے گرینڈ پادری نے خلیفۂ راشد کو پیش کش کی کہ آپ چرچ کے اندر نمازِ عصر پڑھ لیجئے مگر آپ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے چرچ کی سیڑھیوں پر نماز ادا کی۔حکمت یہ تھی کہ بعد کے مسلمان کہیں اسے مثال بنا کر غیر مسلم عبادت گاہوں میں خواہ مخواہ گھسنا اپنا حق نہ سمجھ بیٹھیں۔
اگرچہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جہاں جس مذہب کے حکمران کا بس چلا اس نے دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کیا، مسخ کیا ، بے حرمتی کی یا پھر اپنی عبادت گاہ میں تبدیل کرلیا۔ ایسی تمام حرکات کو اگر تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معاملہ برعکس ہے۔مثلاً اسلامی لشکر کو کسی مہم پر بھیجتے وقت واضح ہدایات تھیں کہ دشمن کے بوڑھوں ، عورتوں ، بچوں ، عبادت گاہوں اور درختوں کو ہرگز ہاتھ مت لگانا۔دورِ نبویؐ میں صرف ایک مسجد ڈھانے کی مثال ملتی ہے۔یعنی اسلام کی پہلی مسجدِ قبا سے کچھ فاصلے پر قائم مسجدِ ضرار کا انہدام اور یہ اقدام بھی تب کیا گیا جب ثابت ہوگیا کہ مسجدِ ضرار کو منافقین مسلمانوں میں باہمی نفرت کے بیج بونے کیلئے بطور مرکز استعمال کر رہے ہیں۔
یہ بھی واضح ہے کہ غصب شدہ زمین پر مسجد کی تعمیر رسول اللہ کے نزدیک شدید ناپسندیدہ عمل ہے۔مسجد کیلئے ضروری ہے کہ یا تو قطعۂ اراضی کسی نے عطیہ کیا ہو یا بارضا خریدا گیا ہو۔مسجد کوئی بھی صاحبِ حیثیت تعمیر کر سکتا ہے یا پھر باہمی رضامندی سے جمع چندے سے بنائی جاسکتی ہے۔زور زبردستی یا مشکوک پیسے سے مسجد کی تعمیر ہرگز نہیں ہوسکتی۔اب آپ اپنے اپنے شہروں ، قصبوں اور دیہات میں دیکھ سکتے ہیں کہ کتنی مساجد اس معیار پر پورا اترتی ہیں یا نہیں۔
آج کے حالات میں یہ تجویز دینا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہوگا کہ ایک اللہ، ایک رسول اور ایک کتاب کو ماننے کے سب دعوے داروں کا ایک ہی مشترکہ عبادتی گھر ہونا چاہئے۔جہاں وہ اپنے طور طریقے کے مطابق خوشنودی ٔرب مانگیں۔گر حال فی الحال یہ محال ہو تو یہ تو ہو ہی سکتا ہے کہ جو جو عبادت گاہیں جامع مسجد کہلاتی ہیں وہ سب فرقوں کیلئے کھلی ہوں تاکہ ہر فقہ کے پیروکار ایک دوسرے سے کم ازکم ہاتھ تو ملا سکیں ، بات تو کرسکیں ، بھنوؤں کا تناؤ تو کچھ کم ہو ، چہروں کی کرختگی تو ذرا نرم پڑے۔یوں لفظ’’ جامع ‘‘کی جامعیت اور جامع مسجد کی اصطلاح میں پوشیدہ روح ِ اجتماعیت کی لاج ہی رہ جائے مگر یہ تو تب ہی ممکن ہے کہ مساجد ایک دوسرے کیلئے کھولنے سے پہلے تمام مکاتبِ فکر کے علماء اپنے اپنے دل کھول لیں۔ کیا یہ کوئی بہت بڑی اور فلسفیانہ فرمائش ہے ؟ کیا مسجدِ الحرام اور مسجدِ نبوی شریف کی عباداتی مثال بس وہیں تک کیلئے ہے ؟