Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غصہ پی جانا، مومنین کی صفات

قرآن کریم میں جذباتیت کے بدلے حقیقت پسندی، غصہ اور اشتعال کے بجائے صبر و تحمل اور بردباری اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے
 
مفتی تنظےم عالم قاسمی۔حیدرآباد دکن
 
زندگی میں بیشتر ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن میں انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے اور غیظ و غضب سے رگیں پھڑکنے لگتی ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ فوری طورپر انتقامی کارروائی کی جائے، جیسا بھی ہوسکے سامنے والے کو اپنی برتری اور طاقت کا ایسا کرشمہ دکھایا جائے کہ دشمن طاقتیں ہمیشہ کےلئے زیر ہوجائیں لےکن شرےعت نے اےسے تمام مواقع پراپنے آپ کو قابو میں رکھنے ، عقل وہوش سے کام کرنے اورصبر کی تلقےن کی ہے ۔اس لئے کہ غصہ اور اشتعال شیطانی اثر ہے۔شیطان انسان کو مختلف تدابیرکے ذریعہ ابھارنا چاہتا ہے تاکہ وہ جذبات میں آکر کوئی ایسا کام کربیٹھے جو اس کےلئے عظےم نقصان اور مشکلات کا باعث بنے، اسی لئے قرآن نے مسلمانوں کو حاسدین اور دشمنوں کے تکلیف دہ کاموں پر غصہ اور اشتعال کے بجائے تحمل، بردباری ،عفو ودرگزر اور برداشت سے کام لےنے کی تعلےم دی ہے ، ارشادِ باری تعالیٰ ہے
اور اے نبی() ! نےکی اور بدی ےکساں نہےں ،تم بدی کو اُس نےکی سے دفع کرو جو بہترےن ہو،تم دےکھوگے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گےا ہے،ےہ صفت نصےب نہےں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہےں اور ےہ مقام حاصل نہےں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصےبے والے ہےں اور اگر تم شےطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو ،وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ ( حم سجدہ 36-34)۔
 
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایمان والوں کو غیظ و غضب میں صبر کا اور نادانی وجہالت کے وقت حلم و بردباری کا اور برائی کے مقابلہ میں عفو و درگزر کا حکم دیا ہے۔ جب وہ ایسا کریںگے تو اللہ تعالیٰ ان کو شیطان کے اثر سے محفوظ رکھے گا (تفسیر کبیر)۔
 
اس مفہوم پر مشتمل متعدد آیات قرآن کریم میں نازل کی گئی ہیں جن میں مختلف پیرا یہ سے جذباتیت کے بدلے حقیقت پسندی، غصہ اور اشتعال کے بجائے صبر و تحمل اور انتقامی کارروائی چھوڑ کر بردباری اور قوت برداشت کی صفت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ صبر کا راستہ جنت کا راستہ ہے اور کسی ناخوشگوار واقعہ پر کسی بھائی کےخلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھنا شیطانی راستہ ہے اور شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، اس لئے اس سے جہاں تک ہوسکے پرہیز کرنا چاہیے۔حضرت معاذبن انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا
جو شخص اپنا غصہ اتارنے اور بدلہ لینے پر قادر ہو اور اس کے باوجود وہ اپنے غصہ کو دبائے اور قابو میں رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن مخلوق کے سامنے بلائیںگے اور اختیار دینگے کہ وہ جنت کی آہو چشم حوروں میں سے جس کو چاہے لے لے۔(ترمذی)۔
 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے عرض کیا :
یا رسول اللہ ! آپ مجھے کوئی وصیت فرمائےے جس پر میں عمر بھر کاربند رہوں۔
 آپنے فرمایا 
غصہ کبھی مت کرنا۔( بخاری)۔
راوی کہتے ہیں اس شخص نے اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے باربار یہی سوال لوٹایا، مجھے وصیت کیجیے، آپ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا:غصہ کبھی مت کرنا۔
 
غصہ ایمان و عمل کےلئے انتہائی مہلک ہے۔خلافِ مزاج کسی واقعہ پر جب انسان بے قابو ہوجاتا ہے تو تمام شرعی رکاوٹیں اس کےلئے بے اعتبار ہوجاتی ہیں اور وہ غصہ کی حالت میں جو چاہتا ہے کرڈالتا ہے اس لئے آپنے حدیث ِ مذکور میں غیظ و غضب سے دور رہنے کی تاکید کی ہے ۔
 
جذبات کو قابومیں رکھنے اور صبر و تحمل کی فضیلت اور ثواب کی کثرت اس بنیاد پر بھی ہے کہ اس میں ایک شخص کو امتحان کی مختلف راہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ کہیں ملتے ہوئے فائدوں سے محرومی کو گوارا کرنا پڑتا ہے، کبھی خارجی مجبوری کے بغیر خود سے اپنے آپ کو کسی چیز کا پابند کرلینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی بے عزتی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کہیں زیادہ کو چھوڑ کر کم پر قانع ہونا پڑتا ہے، کہیں قدرت رکھتے ہوئے اپنے ہاتھ پاو¿ں کو روک لینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی مقبولیت کو دفن کرنے پر راضی ہونا پڑتا ہے، کہیں شہرت اور استقبال کے راستے کو چھوڑ کر گمنامی کے طریقے کو اختیار کرنا پڑتا ہے، کہیں الفاظ کا ذخیرہ ہوتے ہوئے اپنی زبان کو بند کرلینا پڑتا ہے ، کہیں جانتے بوجھتے دوسرے کا بوجھ اپنے سر پر لے لینا پڑتا ہے، کہیں اپنے آپ کو ایسے کام میں شریک کرنا پڑتا ہے جس میں کسی قسم کا کوئی کریڈٹ ملنے والا نہیں۔ ان تمام مواقع پر نفس کو کچل کر خلافِ نفس کام کرنے پر اپنے آپ کو مجبور کرنا پڑتا ہے ۔یہی وہ راز ہے جس سے انسان کا سفر ہمیشہ بلندی کی طرف جاری رہتا ہے، وہ کبھی ٹھوکر نہیں کھاتا اور نہ کبھی سخت مایوسی کا شکار ہونا پڑتا ہے لیکن جذبات اور غیظ وغضب سے ہمیشہ انسان کو نقصان پہنچتا ہے ۔اس میں فائدے کا کوئی پہلو نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم نے ساری قوتوں کے باوجود کبھی انتقامی جذبات سے کام نہیں لیا۔
(مکمل مضمون روشنی میں ملاحظہ کریں)
 

شیئر: