دنیا کتنی ہی ترقی کرلے اورٹیکنالوجی جس بلندی پر بھی پہنچ جائے ،ہمیشہ کے لئے یہ شریعت آچکی ،یہ آفاقی بھی ہے اور ابدی بھی
مفتی تنظیم عالم قاسمی ۔حیدرآباددکن
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے ہر دور میں انبیائے کرام ؑ کومبعوث فرمایا اور انہیں ایسی شریعت عطاکی جس پر عمل کرنے والا جنت کا مستحق سمجھا جاتا تھا ۔ان کے زمانے کے اعتبار سے وہ شریعت کامل اور نجات دہندہ تھی لیکن ان کی شریعتیں مخصوص زمان و مکان کے لئے تھیں ۔ایک امت کو جو نظام زندگی دیا جاتا وہ اس وقت تک قابل عمل ہوتا جب تک کہ دوسرے نبی نہ آجائیں ۔دوسرے نبی اور پیغمبر کے آنے کے بعد ماضی کے بہت سے احکام منسوخ ہوجاتے اور پھر نئی شریعت پر عمل کرنا واجب ہوتا ۔اسی طرح ان کی شریعت خاص قوم اور محدود خطے کے لئے ہوتی تھی ۔بسا اوقات مختلف علاقوں میں تبلیغ وہدایت کے لئے الگ الگ انبیاء بھیجے جاتے اور بیک وقت کئی نبی اس روئے زمین پر تشریف فرما ہوتے جو اپنی اپنی قوم کی رہنمائی و رہبری کا فریضہ انجام دیتے تھے ۔یہ سلسلہ حضرت عیسٰی ؑ تک چلتا رہا لیکن رسول اکرم جب دنیا میں تشریف لائے تو آپ کو آخری نبی کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا ۔آپ کی امت آخری امت اور آپ پر نازل کی جانے والی کتاب آخری کتاب قرار دی گئی ۔اسی طرح آپکی شریعت کو بھی آخری شریعت کی حیثیت سے پیش کیا گیا ۔اس کے بعد قیامت تک اب کوئی شریعت نہیں آئے گی بلکہ رہتی دنیا تک سارے اقوام کے لئے اسی پر عمل کرنا لازم ہوگا،یہی راہ نجات اور اسی میںاللہ تعالیٰ کی رضا مضمر ہے ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس شریعت کے کامل و مکمل اور ابدی ہونے کا ان الفاظ میں صاف اعلان فرمادیا :
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔‘‘ (المائدہ3)۔
یعنی یہ دین ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہوچکا ۔ایک انسان کی ہدایت کے لئے جن احکام کی ضرورت تھی وہ دے دیئے گئے ۔دنیا خواہ کتنی ہی ترقی پذیر ہوجائے اورٹیکنالوجی جس بلندی پر بھی پہنچ جائے ہمیشہ کے لئے یہ شریعت آچکی ۔یہ آفاقی بھی ہے اور ابدی بھی ۔ اب نہ تو اس کا کوئی حکم منسوخ ہوگا اور نہ اس کے رہتے ہوئے کسی دوسرے قانون کی ضرورت ہوگی ۔ہر طرح کی ترمیم و تنسیخ سے بالا تر اسلامی شریعت نازل کردی گئی جو اس امت کا اعزاز اور لائقِ فخر ہے ۔
تفسیر کی معتبر کتابوں میں مذکور ہے کہ ہجرت کے دسویں سال جب رسول اللہ صحابۂ کرام کے جم غفیر کے ساتھ حجۃ الوداع کے لئے تشریف لے گئے اور نویں ذی الحجہ کو میدان عرفہ میں ظہر اور عصر کی نماز ادا کرکے ذکر الٰہی میں مصروف تھے، اسی وقت یہ آیت ِ مذکور نازل ہوئی جس میں اس دین کے اتمام کی بشارت سنائی گئی ،چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد احکام کی کوئی آیت نازل نہیں ہوی اور آپ اس کے بعد صرف 81 دن باحیات رہے ۔شریعت کا کامل و مکمل ہونا بڑی مسرت کی بات تھی اسی لئے بعض یہودیوں نے حضرت عمر فاروق ؓ سے ایک مرتبہ کہا کہ آپ کے قرآن میں ایک آیت ایسی ہے جو اگر یہودیوں پر نازل ہوتی تو وہ اس کے نزول کے دن کو جشن اور عید کا دن منا تے ۔حضرت عمر فاروق ؓکے استفسار پر جب ان لوگوں نے اس آیت کی نشاندہی کی تو آپ ؓ نے فرمایا کہ ہاں ہم جانتے ہیں کہ یہ آیت کہاں اور کب اتری ۔اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ وہ دن ہمارے لئے دہری عید کا دن تھا ۔ایک یوم عرفہ اور دوسرے یوم جمعہ، اس لئے اب الگ سے عید منانے کی ضرورت نہیں۔
اسلامی شریعت ہی اب راہ نجات ہے ،اس کے علاوہ کوئی مذہب اور طریقہ اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل قبول نہیں ہوگا ۔ایک موقع پر رسول اکرم نے بڑے بلیغ انداز میں سمجھانے کے لئے ارشاد فرمایا کہ آج اگراللہ کے پیغمبر حضرت موسٰی ؑ بھی زندہ ہوتے تو میری اتباع کے بغیر ان کے لئے کوئی چارۂ کار نہیں تھا ۔ حضرات علماء نے اسی لئے صراحت کی ہے کہ حضرت عیسٰی ؑ بھی جب دنیا میں تشریف لائیں گے تو وہ شریعت اسلامی ہی کی پیروی کریں گے کیونکہ ان کی شریعت اسلام کے بعد منسوخ ہو چکی ہے ۔
قرآن و حدیث میں متعدد نصوص موجود ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام رہتی دنیا تک کے لئے ہے، اس میں کسی طرح کی کمی یا زیادتی ہرگز ناقابل برداشت ہے ۔عمل میں کوتاہی ہوجائے تو توبہ واستغفار سے معاف ہوسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ کسی دوسرے طریقے کو ضم کردینا اور اس میں خورد برد کرنا ناقابل معافی جرم ہے اسی لئے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ جو پہلے یہودی تھے‘جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے ساتھ یہودیت پر بھی عمل کرنے کا منصوبہ بنایا اور اسلام میں یہودیت کے بعض اجزاء شامل کردینا چاہے ،جیسے اونٹ کا گوشت یہودیت میں حرام تھا تو انہوں نے سوچا کہ اسلام میں اونٹ کا گوشت اگرچہ کھانا جائز ہے مگر واجب تو نہیں اس لئے ہم اونٹ کا گوشت نہیں کھائیں گے تاکہ دونوں پر عمل ہو جائے ۔اسی طرح یہودیت میں ہفتہ کا احترام واجب تھا اور اسلام میں اس کی بے احترامی واجب نہیں اس لئے ہم اس دن کا احترام ملحوظ رکھیں گے ، اس طرح دونوں شریعت کی رعایت ہو جائے گی ۔اس پر آسمان سے فوراً تنبیہ نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا:
’’اے ایمان والو!تم پورے پورے اسلام میں داخل ہوجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ ‘‘ (البقرۃ208 ) ۔
یعنی شریعت اسلامی کے پورے نظام کو اپنی زندگی میں داخل کر و۔ایسا نہ ہو کہ بعض پر عمل ہو اور بعض پر نہیں یا زندگی کے بعض حصوں کو اسلام کے تابع کرو اور بعض کو دوسری شریعت کے تحت گزارو۔کسی استثناء کے بغیر مکمل زندگی اسلام کے دیئے گئے ضابطہ اور اصول کے تحت گزارنے والا ہی درحقیت اسلام کا پیروکار ہے ۔
واضح رہے کہ اسلام میں ولادت سے موت تک ہرطرح کے لوگوں کے لئے مکمل رہنمائی موجود ہے ۔انسان تاجر ہو یا ملازم ،کاشتکار ہو یامعلم ،مالک ہو یا مزدور،مالدار ہو یا غریب ،مرد ہو یا عورت دنیا کا کوئی بھی فرد جب اسلام سے اپنی رہنمائی طلب کرے تو اسے اسلامی تعلیمات میں تشفی بخش رہنمائی ملے گی ۔قرآن و حدیث کا یہ اعزاز ہے کہ 14سو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ان میں مکمل تازگی اور ہدایت موجود ہے۔کسی طرح کی بھی الجھن ہو آپ کو مایوسی نہیں ہوگی ۔حضرات علماء و مفتیان کرام انہی نصوص شرعیہ سے ہردور میں پیش آنے والے مسائل کا حل بیان کرتے رہے ہیں اور قیامت تک کرتے رہیں گے ۔تجار ت و معیشت اور زندگی کے انداز ہر دور میں بدل رہے ہیں ۔نئی نئی ایجادات وجود میں آرہی ہیں لیکن آج تک کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہواکہ جس کا جواب اور اطمینان بخش حل شریعت اسلامی سے نہ ملا ہو ۔یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلامی قوانین وشریعت کو قیامت تک رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اوراسے آخری شریعت کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ قدرت کا ایک چیلنج ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت توڑ نہیں سکتی۔
قرآن کریم شریعت اسلامی کی بنیاد اور اولین حجت ہے اور قرآن کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کو بھی ہمیشہ محفوظ رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے ۔جس طرح اُس نے خانۂ کعبہ کی حفاظت کی ،قرآن وحدیث کے ایک ایک لفظ کو محفوظ رکھا ،رسول اکرم کی سیرت کے ہر ہرگوشے کو امت کے سامنے پیش کیا اور اس کا کوئی حصہ مٹنے سے محفوظ رہا ٹھیک اسی طرح شریعت اسلامی بھی قیامت تک محفوظ رہے گی ۔اس کے لئے اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں مگر ایسے تمام مواقع پر جبکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طوفان برپا کیا جائے اور شریعت کو مٹانے کی سازشیں رچی جائیں ۔ایک مسلمان کے ایمان کا امتحان ہوتا ہے اور اس کے کردار پر قدرت کی نظر ہوتی ہے کہ یہ میرے دین کے لئے کیا قربانی پیش کرتا ہے،تحفظ شریعت کی کتنی تڑپ اس میں موجود ہے اور کتنی جدو جہد اس نے میرے لئے کی ہے؟
یہی وجہ ہے کہ ہردور میں جب بھی اسلام کے خلاف کوئی آواز اٹھی سیکڑوں جاںباز کھڑے ہوگئے اور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سینہ سِپر ہوگئے ۔تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانۂ خلافت میں جب کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا اور اس طرح شریعت کے ایک رکن کی کمی محسوس کی تو نامساعد حالات کے باوجود حضرت صدیق اکبر ؓ جہاد کے لئے کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں زندہ رہوں اور دین ناقص ہوجائے۔سیدنا حسین ؓ نے اسی دین و شریعت کی حفاظت کے لئے اہل بیت کے معزز افراد کے ساتھ میدان کربلا میں جام شہادت نوش فرمایا ۔ حضرت امام احمد ؒ بن حنبل نے خلق قرآن کے مسئلہ پر جو مصائب برداشت کئے ان کے تصور سے آج بھی بدن کانپ اٹھتا ہے ۔حضرات محدثین اور فقہائے کرام نے تحفظِ شریعت کے لئے راتوں کی نیند اور دن کے چین کو تج دیا ۔وہ اپنے جسموں کو گھلا کر اور جوانی کے پُرلطف ساعتوں کو ویران کرکے دین کی خدمت میں مسلسل مصروف رہے۔ انہی کی کوششیں ہیں کہ آج دین کے سارے احکام اور اس کی ساری تفصیلات ہمارے پاس موجود ہیں۔اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم حضرت قاری محمد طیب صاحب ؒ کی بے نفسی اور حددرجہ جدو جہد جو انہوں نے تحفظ شریعت کے لئے کی ،پڑھنے کے قابل ہے ۔ان کے زمانے میں بھی دین و شریعت میں حکومت ہند نے مداخلت کی کوشش کی تھی اور معاملہ طول پکڑ گیا تھا۔اس ضمن میں دارالعلوم دیوبند کے اکابر علماء کا ایک مشاورتی اجلاس ہوا جس میں طے پایا کہ اس کے سدباب کے لئے سارے مسالک کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ضروری ہے چنانچہ ممبئی میں تمام مکاتب فکر کا ایک نمائندہ اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔اس کے لئے سارے مکاتب کے علمائے کرام کو دعوت نامے بھیجے گئے اور سب کی جانب سے منظوری کی اطلاع آئی لیکن بریلوی مکتب فکر کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی برہان الحق رضوی کی منظوری نہیں آئی۔علماء نے مشورہ کیا کہ کیا جائے ؟ ان کی غیر حاضری سے ہمارا مقصد پورا نہیں ہوگا ۔دارالعلوم کے مہتمم حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب ؒ نے فرمایا کہ میں خود ان کی خدمت میں پہنچ کر ان سے گزارش کروں گا ۔دیگر علماء نے مشورہ دیا کہ حضرت آپ سفر کی زحمت نہ فرمائیں ‘صاحبزادگان میں سے کسی کو نمائندہ بنا کر بھیجیں۔حضرت نے فرمایا نہیں میں خود پہنچوں گا چنانچہ حضرت نے شدید علالت اور ضعف پیری کے باوجود مفتی برہان الحق صاحب رضوی سے وقت لیا اور ان کی مجلس میں حاضر ہوگئے۔جب ملاقات ہوئی تو حضرت نے اپنی ٹوپی ان کے قدموں پر ڈالتے ہوے فرمایا کہ حضرت ! تحفظ شریعت کی بھیک مانگنے آیا ہوں آپ بمبئی اجلاس میں ضرور شرکت فرمائیں ۔مفتی برہان الحق صاحب نے فوراً ٹوپی اٹھائی اور اسے چوما اور حضرت قاری صاحب کے سرپر رکھتے ہوے فرمایا :میں ضرور آؤں گا ۔اس طرح نہ صرف مفتی برہان الحق بلکہ ان کے تمام رفقاء اجلاس میں پہنچے اور اجلاس کامیاب ہوا اور بورڈ کا قیام عمل میں آیا ۔اس وقت جب بورڈ کی صدارت کا مسئلہ آیاتو مفتی برہان الحق صاحب نے خود آگے بڑھ کر حضرت قاری طیب صاحب کا نام پیش کیااور پھر تمام لوگوں کی اجتماعی کوششوں سے حکومت کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔
آج پھر ایک مرتبہ مکمل قوت کے ساتھ باطل طاقتیں شریعت کے خلاف صف آراء ہوچکی ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملت کے لئے ہم سوچیں ،ہم اپنے اپنے مسلک پر رہتے ہوے ملی اور مشترکہ مسائل میں ایک آواز بن جائیںاور باطل کے سامنے سینہ سپر ہوجائیں تاکہ دوبارہ اس طرح کی جرأت نہ ہوسکے۔