مودی سرکار نے گزشتہ دنوں 431پاکستانی شہریوں کو طویل مدتی ویزا جاری کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں پین کارڈ اور آدھار کارڈ جاری کرنے کا بھی حکم دیاگیا ہے۔ اتنا ہی نہیںانہیں ہندوستان میں جائیداد خریدنے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں آپ سے کوئی مذاق کررہا ہوں یا پھر آپ کو چنڈو خانے کی کوئی خبر سناکر آپ کا قیمتی وقت ضائع کرنے بیٹھاہوں لیکن یہ خبر سوفیصد درست ہے کہ مودی سرکار پاکستان سے نقل مکانے کرنے والے ہندوؤں پر اپنی نوازشوں کی بارش کررہی ہے اور انہیں سرآنکھوں پر بٹھایاجارہا ہے۔ مودی سرکار صرف پاکستان کے ہندوباشندوں پر ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش اور افغانستان میں ’’مظالم‘‘ کا شکار ہونے والے ہندوخاندانوں کو خصوصی مراعات دے رہی ہے اور یہ سب کچھ ’’انسانی بنیادوں‘‘ پر کیاجارہا ہے۔ یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پڑوسی ممالک میںچونکہ اقلیتوں کے ساتھ سوتیلا سلوک ہوتا ہے، لہٰذا انہیں ہندوستان میں پناہ دینا اور تمام شہری سہولتیں مہیا کرانا حکومت ہند کی اخلاقی ذمہ داری ہے اور یہ ہمسائیگی کا بنیادی حق بھی ہے لیکن یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کی نوازشیں صرف پڑوسی ممالک کے ہندو باشندوں پر ہی کیوں کی جارہی ہیں۔ایسا رویہ پڑوسی ملک میانمار میں بدترین مظالم کا شکار ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں کیوں اختیار نہیں کیاگیا اور انہیں ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے کر ملک بدر کرنے کی کوششیںکیوں کی گئیں؟
وزارت داخلہ کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں جن پاکستانی باشندوں کو بنیادی شہری سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں، وہ سب کے سب اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مرکز کی نئی پالیسی کے تحت پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتی طبقے کے ایسے لوگ جو طویل مدتی ویزا پر ہندوستان میں مقیم ہیں، انہیں ایک خاندان کی ضرورت کو پورا کرنے اور اپنا روزگار شروع کرنے کے لئے رہائشی اور کاروباری یونٹ خریدنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ان اقلیتی طبقوں میں ہندو، سکھ ، بودھ، جین،پارسی اور عیسائی فرقوں کے لوگ شامل ہیں۔ صرف اتنی احتیاط برتی جارہی ہے کہ ان لوگوں کو کینٹ علاقوں سمیت ممنوعہ یا سیکورٹی زون کے آس پاس جائیدادیں خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ایسے لوگ پین کارڈ ، آدھارنمبر، ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ بھی حاصل کرنے کے مجاز ہوں گے۔ انہیں اپنا کاروبار کرنے کی بھی آزادی ہوگی۔ اس کے علاوہ جہاں وہ رہ رہے ہیں، وہاں آزادی کے ساتھ گھوم پھر سکتے ہیں اور اپنی ویزا دستاویزات ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں منتقل کرواسکتے ہیں۔ بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے انہیں ریزرو بینک کی اجازت بھی درکار نہیں ہوگی۔
اس بات سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ اگر کسی پڑوسی ملک میں مذہب، رنگ ونسل یا ذات پات کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ تفریق برتی جاتی ہے یا انہیں مظالم کا شکار بنایاجاتا ہے تو یہ پڑوسی ملک کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو پناہ دے اور ان کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھے۔ اس اعتبار سے بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان کے ’’مظلوم‘‘ باشندوں کے ساتھ یہ سلوک قابل تعریف ہے لیکن اس میں اعتراض کا پہلو یہ ہے کہ ایسا سلوک ان مسلمان باشندوں کے ساتھ کیوں نہیں کیاجارہا جو پڑوسی ملکوں میں بدترین مظالم کا شکار ہیں۔ آپ کو یادہوگا کہ پچھلے دنوں جب میانمار میں مقیم روہنگیا مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے اور پوری دنیا روہنگیا مسلمانوں کے غم میں برابر کی شریک تھی تو مودی سرکار ہندوستان میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی منصوبہ بندی کررہی تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گزشتہ عرصے میں میانمار کی فوج اور دہشت گردوں کی بربریت سے تنگ آکر ہندوستان میں پناہ حاصل کی ہے اور انہیں باقاعدہ اقوام متحدہ کی طرف سے شناختی کارڈ جاری کئے گئے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت ان پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاکر انہیں ملک بدر کرنا چاہتی تھی۔ کیا یہ فیصلہ صرف اس لئے لیاگیا تھا کہ روہنگیا اقلیت کے لوگ مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے لئے اس حکومت کے دستور میں کوئی جگہ نہیں۔ حکومت دراصل وہی ہوتی ہے جو انسانوں کے ساتھ رنگ ونسل، مذہب اور برادری سے اوپر اٹھ کر مساویانہ سلوک کرتی ہے۔ ایسا کرنے کی پابندی اس لئے بھی ہے کہ حکومت حلف برداری کے وقت اس بات کی قسم کھاتی ہے کہ وہ کسی کے ساتھ بھید بھاؤ کی پالیسی اختیار نہیں کرے گی۔ ظاہر ہے دستور سے وفاداری کا حلف لینے کے باوجود بھی اگر کوئی حکومت مذہب اور ذات پات کے نام پر انسانوں کے ساتھ تفریق کرتی ہے تو پھر اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کے خلاف جب سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی تو حکومت نے انہیں دہشت گرد قرار دے کر ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا۔ یہاں تک کہ روہنگیا مسلمانوں کے تار عالمی سطح پر سرگرم خطرناک دہشت گرد تنظیموں سے جوڑ دیئے گئے۔ اس حقیقت کو قطعی نظرانداز کردیاگیا کہ ہندوستان میں مقیم روہنگیا مسلمان انتہائی کسمپرسی کے عالم میں جی رہے ہیں اور ان کے کیمپوں کا بہت براحال ہے۔ ظاہر ہے جن کے پاس زندگی کی بنیادی ضرورتوں کو حل کرنے کے لئے 4 پیسے نہیں اور جن میں اکثریت عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کی ہے، وہ کیونکر دہشت گردی میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ حیرت انگیز طورپر حکومت ایک طرف تو روہنگیا پناہ گزینوں پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتی رہی لیکن وہ ایک بھی روہنگیا مسلمان کو دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار نہیں کرسکی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ محض روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا ایک بہانہ تھا۔ اگرسپریم کورٹ نے حکومت پر اس معاملے میں انسانی نقطہ نگاہ سے غور کرنے کا دباؤ نہیں ڈالا ہوتا تو اب تک مودی سرکار مظلوم روہنگیا مسلمانوںکو میانمار کی خونخوار فوج اور دہشت گردوں کے منہ میں دھکیل چکی ہوتی۔