ان پر جوگھات میں رہے اور شکار کرتے رہے اور ان پر جو گھات میں ہیں اور شکار کرنے کا سوچے بیٹھے تھے۔ لرزہ طاری ہے۔ احتساب بیورو پر اب بیداری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی تشکیل پر آنکھوں نے نئے خواب دیکھنے کا آغاز کیا تھا۔ نادار اور بے صدا زندگیوں نے پھر سے زندہ ہونے کا عہد کیا تھا لیکن تاریخ نے اپنے صفحات کسی اور طرح سے پلٹ ڈالے۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ مایوسیوں کا رزق بن گیا۔ پھر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ اکتوبر 2008ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے کو نئے انداز سے متعارف کرادیا۔ ہر بے سہارا اور بے نوا خاتون کو ماہوار ایک ہزار روپے دیئے جانے تھے تا کہ وہ اپنی مفلسی کا کسی حد تک مداوا کر سکے۔ پیپلز پارٹی کی ایک فعال کارکن فرزانہ راجہ کو اس انکم اسپورٹ پروگرام کی نگرانی کا کام سونپا گیا۔ مستفید ہونے والے خاندانوں کی فہرستیں مرتب کرنے کا کام پارٹی کے اسمبلی ارکان کو سونپا گیا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان سے کہا گیاکہ ان میں سے ہر ایک 8ہزار حاجتمند خاندان نامزد کر سکتا تھا جبکہ صوبائی اسمبلی کے ہر رکن کو ایک ہزار ضرورتمندوں کے نام فراہم کرنے کا اختیار دیا گیا۔ یوں موصول شدہ 42لاکھ ناموں کی فہرست میں سے 22لاکھ خاندانوں کو امداد کے قابل سمجھا گیا او ران کے لئے امداد جاری کر دی گئی۔ پہلے مالی سال میں 26.6ارب روپے تقسیم کئے گئے۔ اس دوران میں سید یوسف رضا گیلانی وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہوئے تو راجہ پرویز اشرف ان کی جگہ آئے تا ہم فرزانہ راجہ ہی ا س انکم اسپورٹ پروگرام کی نگران رہیں۔
آصف زرداری اور محترمہ بینظیر بھٹو کی معتمد خاص تھیں اس لئے بلاکسی پرسش اور روک ٹوک کے اس پروگرام کو چلاتی رہیں۔ غرباء میں تقسیم کی جانے والی رقم کا 85فیصد حکومت ادا کرتی تھی جبکہ باقی 15فیصد مختلف اداروں سے خیراتی یا قرض کی مد میں حاصل کیا جاتا تھا۔ فرزانہ راجہ اپریل 2008ء سے 2013ء تک قومی اسمبلی کی رکن رہیں۔ ان کا انتخاب خواتین کی مخصوص نشستوں پر کیا گیا جبکہ کم و بیش اسی عرصے کے دوران وہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن بھی تھیں۔ پاکستان کے 64ویں یوم آزادی پر ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں ہلال امتیاز بھی دیا گیا لیکن پھر جیسا کہ لارڈ بائرن کہہ گیا ہے مکمل طاقت مکمل بدعنوانی کو جنم دیتی ہے۔ انگلیاں اٹھنا شروع ہوئیں۔ پروگرام میں بہت کچھ غیر شفاف تھا۔ اربوں تقسیم کئے جا رہے تھے۔ اشتہاری مہم بڑے زوروں سے چلائی گئی او راسی بہانے ذرائع ابلاغ کا منہ بند کیا گیا۔ یہ بھی سامنے آیا کہ فرزانہ راجہ کے حکم پر کئی سو غیر مستحق افراد کو بھرتی کیا گیا۔ اشتہاری کمپنیوں کو اعلانات کے لئے جو اربوں روپے دیئے گئے ان کا کوئی ریکارڈ نہ رکھا گیا۔ ظاہر تھا کہ ان رقوم کا ایک بڑا حصہ کمیشن کے طور پر چیئرپرسن اور ان کے من پسند افراد کی جیبوں میں بھی چلا گیا تھا۔یہ بھی کھلا کہ پروگرام کے طریقہ ہائے کار سے روگردانی برتی گئی اور چیئرپرسن فرزانہ راجہ کے زبانی احکام ہی پروگرام کے شب و روز طے کرتے تھے۔ پھر زبان خلق نقارہ خدا بنی اور معزز خاتون کو ہٹا کر ان کی جگہ انور بیگ کو لایا گیا۔ تحقیقات کا آغاز ہوا تو ایک صبح اخبارات کی شہ سرخی تھی"فرزانہ راجہ ملک سے فرار" کھربوں کی رقوم میں سے اربوں جیبوں میں ، بیرون ملک بینکوں کے حسابات میں چلے گئے۔ کوئی ریکارڈ نہیں، احتساب بیورو کی آنکھ کھلی ہے تو انٹرپول بھی قطب شمالی سے قطب جنوبی تک مار کرتی ہے۔ گھات میں بیٹھے شکار تو کر گئے لیکن کوئی خون خاک نشیناں کو کب تک خاموش رکھ سکے گا؟ پھر وطن عزیز کے کابینہ ڈویژن میں توشہ خانہ نام کا ایک شعبہ ہے۔ وہی جو عمر ابن الخطاب کے عہد میں بیت المال کہلاتا تھا۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب بھی ہمارا کوئی حکومتی سربراہ یاانتہائی اہم عہدیدار کسی دوسرے ملک کے دورے پر جاتا ہے تو اسے اس کے میزبان مختلف قیمتی تحائف سے نوازتے ہیں۔ قانون کے مطابق اسے واپسی پر وہ سارے تحائف توشہ خانے میں جمع کرانے پڑتے ہیں۔ پھر اس کے بعد فرض ناشناسی اور بے شرمی کاآغاز ہوتا ہے۔ وہ توشہ خانے کے ذمہ داران کو حکم دیتا ہے کہ ان تحائف کی اندراج کے بعد کم سے کم قیمت لگا کر انہیں دوبارہ اسے فروخت کردیاجائے۔ یوں وہ تحفے جو اسے بحیثیت صدر یا وزیراعظم میزبان ملک کے راہنما سے رسمی طور پر ملے تھے وہ اٹھا کر اپنے گھر لے جاتا ہے۔ حکومت کے خزانے کو کروڑوں کے خسارے کی ضرب لگا دیتا ہے۔ ہماری تاریخ ان بے حیائیو ں سے بھری پڑی ہے لیکن پاکستانی توشہ خانے کو سب سے زیادہ نقصان شوکت عزیز نے پہنچایا۔ 28اگست 2004ء سے 15نومبر 2007تک وزیراعظم رہنے والے اس بینکار نے کم از کم 4دفعہ قوانین میں تبدیلی کرا کر توشہ خانے کی اشیاء کی قیمتیں کم کرائیں اور جب 11جنوری 2008ء کووطن عزیز سے لندن کے لئے آخری پرواز لی تو جہاز میں اپنے ہمراہ توشہ خانے سے لوٹے 1126تحفے ہمراہ لے گیا۔ ان کی قیمت کے طور پر اس نے صرف 29لاکھ روپے ادا کئے تھے جبکہ صحیح قیمت کم از کم 2کروڑ 60لاکھ تھی۔ان اشیاء میں گلے کے ہار ، جواہرات کے ڈبے ، سونا ، ہیرے ، گھڑیاں اور قالین شامل تھے۔ نیپال کے گورنر سے تحفتاً ملے 2رومالوں کی قیمت شوکت عزیز نے توشہ خانے کے اہلکاروں سے کہہ کر صرف 50روپے لگوائی تھی جبکہ ٹونی بلیئر کی اہلیہ سے ملے ایک دستی بیگ کواڑانے کے لئے صرف300روپے ادا کئے گئے تھے۔ شہزادہ چارلس سے ملے ایک تحفے کے لئے شوکت عزیز نے صرف 200روپے توشہ خانے کو دیئے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں صدر محمد ایوب خان ہی واحد حکمران تھے جنہیں اپنے 11سالہ دور اقتدار میں 30تحائف ملے تھے اور انہو ںنے وہ سب کے سب توشہ خانے کو بھجوا دیئے تھے۔ عمر ابن الخطاب ؓ نے بھی تو اپنی اہلیہ کو ملکۂ روم کی طرف سے تحفتاً آئی عطر کی شیشیاں گھر رکھنے کی بجائے بیت المال جمع کرا دی تھیں۔
نعوذ باللہ ! کیا دیوانوں کی سی سوچ ہے۔ کہاں عمر ابن الخطاب ؓ اور کہاں فرزانہ راجہ اور شوکت عزیز!
احتساب بیورو بیدار تو ہوا ہے۔ عدالتیں بھی زندہ ہوئی ہیں اور انٹرپول قطب شمالی سے قطب جنوبی تک مار کرتا ہے۔ گٹھڑی کو لاگے چوروں کے پنجرے منتظر ہیں۔