بعض اوقات مطالعہ کرتے وقت ایسی تحریریں سامنے آجاتی ہیں کہ دامنِ دل پر افسردگی کا سا یہ دراز کرجاتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے بنی نوع انسان کی پیشرفت پر ایک بے بدل تحریر پڑھنے کو ملی اور پھر میں اداس ہو گیا۔ پہلے جو میرے زیر مطالعہ آیا، اس پر بات ہو جائے۔ 2مختلف واقعات کا ذکر تھا۔
پہلا واقعہ 25جولائی 1909ء کو پیش آیاتھا۔ اس دن ایک فرانسیسی نے شمالی فرانس کے شہر کالے سے جنوبی انگلینڈ کے شہر ڈوور تک اپنے چھوٹے سے ہوائی جہاز میں پرواز کر کے اتنی طویل مسافت طے کرنے کا پہلا انسان ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ اس وقت تک یہ خیال عام تھا کہ اتنی لمبی پرواز ایک ناممکن امر تھا۔ بلیریو نامی اس 37سالہ انجینیئر نے اپنا ہوائی جہاز خود ہی بنایا تھا۔ وہ تیرنا نہیں جانتا تھا لیکن اسے رودبارِ انگلستان پر سے اپنی پرواز لے جانی تھی۔ ایک ٹانگ کبھی شکستہ ہوئی تھی اور وہ ٹھیک طرح سے چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اسکے پاس قطب نما بھی نہیں تھا۔ 25جولائی 1909ء کی صبح 4.30بجے اس نے ایک پہاڑی کی چوٹی پر سے اڑان بھری۔ 250فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے اسکے ہوائی جہاز نے 22میل کا سفر 37منٹ میں طے کیا۔ ابتدائی 10منٹ کی پرواز کے بعد اس کا جہاز کہر میں داخل ہو گیا تا ہم اس نے خطرے کی پروا نہ کرتے ہوئے پرواز جاری رکھی۔ یہ اسکے سفر کا خطرناک ترین حصہ تھا تا ہم 40میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتا اس کا جہاز اگلے 15منٹ میں کہر سے نکل آیا۔
منزل مقصود پر پہنچ کر اس نے بلندی پر سے ایک فرانسیسی صحافی کو دیکھا جو نیچے اپنے وطن کا جھنڈا جوش و خروش سے لہرا رہا تھا۔ 60فٹ کی بلندی پر اتر کر بلیریو نے انجن بند کر دیا اور جہاز زمین پر آن گرا۔ پہلی طویل پرواز ہو چکی تھی۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں کہرام مچ گیا اور لندن اور پیرس میں اس انسانی کامیابی پر بھرپور جشن منایا گیا۔ محیرالعقول کارنامہ پر ہوا باز کو ایک ہزار پاؤنڈ کا انعام دیا گیا۔
اور اب دوسرے واقعے پر تحریر کا باقی حصہ! 16جولائی 1969ء کی صبح 9.30بجے فلوریڈا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے’’ اپالو 11‘‘فضا میں بلند ہوا۔ اس میں 3خلا باز تھے۔ نیل آرمسٹرانگ ، بزآلڈرن او رمائیکل کولنز۔ 21ہزار 600میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرتا یہ عظیم راکٹ 2لاکھ 50ہزار میل کی مسافت طے کر کے چاند تک پہنچ گیا۔ پھر اس نے چاند کے گرد 30چکر لگائے تا کہ اترنے کیلئے تیاری کر لی جائے۔
20جولائی کی رات 8.17بجے اس راکٹ کے ایک حصے سے نکلی قمری گاڑی نے چاند کی سطح کو چھوا۔ اس جگہ کو جہاں یہ گاڑی اتاری گئی بحرسکوت کا نام دیا گیا۔ اس میں نیل آرمسٹرانگ اور بزآلڈرن سوار تھے۔پھر 21جولائی کو صبح کے 3بجے اس قمری گاڑی کا دروازہ کھلا اور نیل آرمسٹرانگ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتا چاند کی سطح پر قدم رکھنے والا پہلا انسان بن گیا۔ کرہ ارض کے 6ارب لوگوں نے ٹیلیوژن پر یہ تاریخی منظر اور آرمسٹرانگ کو چاند پر چلتے دیکھا۔ اس ننھے سے زمین کے طفیلی سیارے پر پہلا قدم رکھتے ہوئے آرمسٹرانگ نے تاریخی الفاظ کہے جو سائنسی تاریخ میں امر ہو چکے ہیں۔ "یہ انسان کیلئے ایک چھوٹا قدم ہے لیکن بنی نوع انسان کیلئے ایک عظیم چھلانگ ہے" آرمسٹرانگ اور آلڈرن نے اڑھائی گھنٹے تک چاند پر چہل قدمی کی۔ انہوں نے وہاں سے مختلف نمونے اکٹھے کئے اور سائنسی آلات نصب کئے، پھر وہاں امریکی پرچم لہرا دیا۔ چاند کی سطح پر 22گھنٹے گزارنے کے بعد گاڑی بلندہوئی اور سیارے کے گرد چکر لگاتے راکٹ سے جا منسلک ہوئی۔ زمین کو واپسی کے سفر کا آغاز ہو گیا۔ پہلی کامیاب پرواز نے 40میل فی گھنٹہ کی رفتار سے 22میل کا فاصلہ 37منٹ میں طے کیا تھا۔ راہ میں ردوبارِ انگلستان تھی عبور کرنے کو۔ 25جولائی 1909ء کی تاریخ تھی، اور دوسری پرواز 16جولائی 1969ء کو تھی۔ صرف 60برسوں میں انسان نے صدیوں کے کوس طے کر لئے تھے۔ چاند تک رسائی حاصل کرنے میں صرف 3دن لگے اور ساکت ، بے وزن خلاؤں کو عبور کیا!
اور اب میں بتاتا ہوں کہ یہ تحریر پڑھ کر افسردگی کا احساس کیوں ہوا؟
بہت عرصہ پہلے ایک محفل میں کسی نے سوال اٹھایا تھا کہ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو رنگون کے قید خانے میں اتنی کسمپرسی میں کیوں مرنا پڑا تھا۔ انسان کی فضاؤں اورخلاؤں پر حکمرانی کے بارے میں یہ تحریر پڑھ کر بہت کچھ یاد آگیا۔ کیسے کیسے بھی ہمارے حاکم رہے۔ شہنشاہ شہاب الدین محمد شاہجہان نے اپنی چہیتی ملکہ ارجمند بانو بیگم المعروف ممتاز محل کیلئے تاج محل تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ 22ہزار کارکن 23برس تک مصروفِ کار رہے اور شاہجہان کے خواب کو تعبیر ملی۔ اس دوران میں کوئی جامعہ تعمیر نہ ہوئی۔ شہنشاہ جہانگیر کا چہیتا ہرن مرا تو اس کی یاد میں ہرن مینار کی تعمیر کرائی گئی۔ شہنشاہ جلال الدین اکبر نیاپنی ملکاؤں کیلئے خصوصی رہائش گاہیں فتح پور سیکری میں بنوائیں اور ان کے گرد ایک عظیم الشان دیوار کھڑی کر کے شاہی خواتین کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا۔ نصیر الدین ہمایوں کی بیوہ نے اپنے شوہر کا عالیشان مقبرہ بنوانے پر 8برس لگا دیئے۔ سلطنت مغلیہ کے آخری ایام تاریخ کا انتہائی المناک باب ہیں۔ طوائف الملوکی ، عیاشی ، بدنظمی اور محلاتی سازشوں نے حکومتی نظام کو تلپٹ کر کے رکھ دیا تھا۔ مغلیہ عہد کے 181برسوں میں کوئی ایک بھی جامعہ تعمیر نہ کی گئی۔ اگر بابر یا اکبر کے دور میں تجسس و تحقیق کے ادارے قائم کر دیئے جاتے تو رنگون کے زندان میں مغلیہ جاہ و جلال بے کسی کی موت نہ مرتا۔
اور پھر اس طرح کی تحریریں پڑھ کر اپنی آج کی بے بسی کا خیال بھی افسردہ کر دیتا ہے۔ عالم اسلام کی ڈیڑھ ارب آبادی کے لئے صر ف 580جامعات ہیں جن میں سے کسی کا شمار کرہ ارض کی بہترین 50جامعات میں نہیں ہوتا۔ بحرالکاہل سے بحراوقیانوس تک کے زرخیز ترین خطے میں واقع اسلامی دنیا کی مجموعی قومی پیداوار سالانہ صرف1100ارب ڈالر ہے جو کہ صرف فرانس کی مجموعی قومی پیداوار سے بھی کم ہے۔جرمنی کی قومی پیداوار کا نصف اور جاپان کی مجموعی قومی پیداوار کی ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ جب تک ہم سائنسی تحقیق کا چلن نہیں اپنائیں گے تب تک ہمارا ماضیٔ قریب اپنی بدنصیبی کا سایہ ہمارے مستقبل کو بے سود بناتا رہے گا۔
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تحقیق و جستجو کا آغاز ہو گا تو کوئی رنگون نہیں بنے گا نہ کوئی غرناطہ غروب ہوگا او رنہ تحریریں افسردگی لائیں گی۔