سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار
مسلم لیگ کے پارلیمانی اجلاس سے تقریباً 78ارکان اسمبلی غیر حاضر رہے، یہ غیر حاضری کس کی مرہون منت ہے؟
پاک سر زمین پا رٹی کے سربراہ مصطفی کما ل کے اس انکشاف کے بعد کہ ان کا اور فاروق ستار کا ملا پ رینجر ز کے ہیڈکو ارٹر میں کر ایا گیا تھا ، یا ر لو گو ں نے اس پر بغلیں بجا نا شروع کر دی ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بار ے میں جو کہا کر تے تھے وہ ازخود عیا ں ہو گیا ۔ اسٹیبلشمنٹ کے کر دار کا تو اس وقت ہی انکشاف ہو چکا تھاجب قائد اعظمؒنے پا کستان کے سابق صدر ایو ب خان کو مشرقی پاکستان کا بریگیڈیر ہیڈکوارٹر بنا کر مشرقی پاکستان بھیجاتھا۔ ان کے تقرر نا مہ پر درج کیا گیا تھا کہ اس پر نظر رکھی جا ئے کیو نکہ یہ افسر سیا ست میں گہر ی دلچسپی رکھتا ہے ۔ گویا اسٹیبلشمنٹ شروع دن سے سیا سی رحجا ن رکھتی چلی آرہی ہے ۔ بعد ازاں اسکے خد خال راولپنڈی ساز ش کیس سے عیاں ہو چلے تھے۔جس طور طریقوں سے ایوب خان کے ما رشل لا سے پہلے سول حکومتیں ٹوٹتی بنتی رہی ہیں وہ سب عیا ں ہے۔ اگر پاکستان کی تاریخ کا جا ئزہ لیا جا ئے تو اِن 70 سالوں میں طویل حکمر انی کا دور اسٹیبلشمنٹ کے آمر و ں کا ہے جن کی پشت پناہی عدلیہ کے ذریعے ہوئی۔ جسٹس منیر کا جو کر دار رہا کہ انھو ں نے جمہو ری حکومت برطرف کرنے اور قومی اسمبلی تو ڑ نے کے حق میں نظریۂ ضرورت ایجا د کر کے فیصلہ دے کر پاکستان کے استحکا م کو لر زا دیا جس کے جھٹکے ابھی تک ہچکولے کھا رہے ہیں۔ اگر وہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدر ی جیسا کر دار ادا کر جا تے تو یہ دن پاکستان کے عوام کو آج نہ بھگتنا پڑ تے۔ افتخار چوہدر ی کے بارے میں آج جو اچھا برا سوچا جا رہا ہے، وہ بحث طلب بھی ہے اور الگ سے کہا نی بھی ہے مگر ایک بات قرطا سِ ابیض پر ہے کہ سابق چیف جسٹس نے ایک فوجی آمر کے آگے سر نہیں جھکا یا ، حالانکہ اسی عدالت نے آئین کو تو ڑنے مو ڑنے کا پر وانہ ازخود پر ویز مشرف کا تھمایا تھا ۔ اب یہ کہا جا تا ہے کہ جب بجلی عدلیہ پر گری تو تما م آئینی و قانو نی راستے یا د آگئے ۔ کوئی بات نہیں اگر صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو وہ بھولا نہیں کہلا تا ۔ وکلا ء نے افتخار چوہدری کی برطر فی پر مثالی کر دار ادا کیا ،وہ بھی تاریخ کا سنہر ی با ب بن گیا ہے اور افتخار چوہدری کا ڈت جانا بھی آئندہ نسلوں کیلئے مثال قائم کر گیا ہے ۔
اب پنجا ب کے وزیرقانو ن رانا ثنا ء اللہ فر ما تے ہیںکہ مصطفی کما ل اور فارق ستا ر نے اسٹیبلشمنٹ کی حقیقت بیان کر دی ہے ۔ کیا ایوب خان کی کہانی اسٹیبلشمنٹ کی کہا نی نہیں تھی؟ کیا پہلے سکند ر مر زا ااور پھر ایوب خان کی وزارت میں بھٹو کی شمولیت اسٹیبلشمنٹ کی کہا نی نہ تھی ؟ جنرل پیرزادہ ، جنرل عمر ، جنرل حسن گل اور جنرل یحییٰ کے ساتھ دھما ل بھٹو نے مل کر کیے تھے وہ کس کا قصہ تھا؟ جنرل یحییٰ خان نے جس انداز سے ایو ب خان سے اقتدار ہتھیایا وہ کس کا افسانہ تھا؟ اب جو مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلا س سے تقریبا ً 78 ارکا ن اسمبلی غیر حاضر رہے، بعد میں16 ارکان اجلا س میں شریک ہوئے، وہ غیر حاضری کس کی مر ہون منت ہے رانا صاحب ہی بتا سکتے ہیں البتہ لا ل حویلی کے شیخو کی پیش گوئیاں سچ ہو تی نظر آرہی ہیں۔ وہ بھی تو پنجا ب کے پیر ہی ہیں، آخر پیر پگارا مرحو م کے چیلے رہ چکے ہیں، انکی سچائیا ں کیو ں نہ صادق ہو ں۔ اتنی بڑی ارکا ن پارلیمنٹ مسلم ن کی غیر حا ضر ی لال حویلی کے لا لو کی سچائیوں کی صداقت کی طر ف جا رہی ہیں کہ مسلم لیگ ن کیلئے خطرہ کی گھنٹی بجا دی گئی ہے۔ اب مسلم لیگ ن کا سینیٹ میں بھاری اکثریت حاصل کرنا خواب بن جا ئیگا کیونکہ جو کچھ بھی ہونا ہے وہ سینیٹ کے انتخابات سے پہلے ہو کر رہے گا ۔لال حویلی کے لا لو نے تو کہا تھا کہ مسلم لیگ ن کے 70ارکان اسمبلی نو از شر یف سے ادھا ر کھا ئے بیٹھے ہیں مگر جو تعدا د نظر میں آئی ہے وہ تو 78 نکلی۔ گویا سیلا بی ریلے میں پانی کی مقدار بڑھ رہی ہے۔بل منظوری کے موقع پر مسلم لیگ ن کے جو ارکا ن غیر حاضر رہے وہ تو اپنی جگہ تاہم کئی سینیئر ارکان اسمبلی جن میں سابق وزیر اعظم ظفر اللہ جما لی ، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اورجمعیت العلمائے اسلا م کے سربراہ مولانا فضل الر حما ن بھی غیر حاضر رہے ۔ویسے غیر حاضررہنے والو ں میں تحریک انصا ف کے چیئر مین عمر ان خان بھی شامل تھے مگر ان کا ذکر اس لئے اہم نہیں کہ وہ اسمبلی میں تو نظر ہی نہیں آتے ،سڑکو ں پر سیا سی مٹر گشت کر تے پھر تے ہیں۔ شاید انکے دل میں سمایا ں ہو ا ہے کہ وہ اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا نے ہی تام جھا م سے جائینگے ۔ دیکھیں ان کے دل میں ایسی جو خواہش قائم ہو ئی ہے کب بر آتی ہے یا نہیں رانا ثنا ء اللہ تو ان کے لئے نیک خواہشات کا اظہا ر کر تے رہتے ہیں۔ اب تو وہ یہ کہنے لگے ہیں کہ ثابت ہو گیا ہے کہ عمر ان خان اسٹیبلشمنٹ کا مہر ہ ہیں۔ بہت دیر سے ثابت ہو اہے حالانکہ عمر ان خان نے تو 3 سال پہلے ہی امپائر کی انگلی کا ذکر کر کے انکشاف خود کر دیا تھا ۔
اسٹبلشمنٹ کے اور بھی مہر ے ہیں۔ خود نو از شریف کے بارے میںبھی لوگ یہ رائے رکھتے ہیں کہ ان کو سیا ست میں سابق آئی ایس آئی چیف جنرل غلا م جیلانی لائے اور پنجا ب کے خزانے کا قلمدان ان کے سپر د کردیا تھا۔ اب رانا ثناء اللہ خان فرما تے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے زیر سایہ بننے والی جما عتیں زیادہ دیر نہیں چلتی مگر مسلم لیگ ن تو دھڑلے سے چل رہی ہے، یہ بھی جنرل ضیا ء الحق کی مر ہنو ن منت ہے، یہ الگ بات ہے کہ جنرل پر ویز مشرف کے ایک آئینی اور قانو نی حکومت پر شب خون ما رنے سے کٹ گئی اور ایسااعزاز مسلم لیگ ق کو ملا ، اگر مسلم لیگ ق کا حشر دیکھا جا ئے تو رانا ثنا ء اللہ کی با ت جچتی ہے تاہم یا د رہے کہ ری پبلیکن پا رٹی بھی انہی کی دین تھی مگر وہ بھی بے آواز چھکڑا ثابت ہوئی ۔اس کانا م بھی دنیا سے تو مٹ گیا مگر تاریخ میں بھی محدب عدسہ کے ذریعے تلا ش کیا جا تا ہے ۔
ما ضی میں ایسی کھٹ پٹ ، الٹ پلٹ کے تجربے بہت ہو چکے ہیں مگر اس کا فائدہ ملک یا قوم کو کبھی نہیں پہنچا البتہ ملک وملت گھاٹے میں ہی رہی ہے اس لئے اکثر وبیشتر آوازیں اٹھتی رہتی ہیں کہ اداروں کو اپنے دائر ہ کا ر میں رہنا چاہیے ، ادارو ں سے ٹکر انا نہیں چاہیے ۔ پہلی بات تو درست ہے کہ تما م اداروں کو اپنے دائرہ کا ر کی پابندی ہونا چاہیے ۔ دوسری بات سے کلی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیو نکہ اداروں سے ٹکرانے کی بات غلط ہے بلکہ یہ مو ٹو ہونا چاہیے کہ ادارے ٹکر نہ لیں۔جو ان کے فرائض ہیںاسی جانب اپنا دھیا ن رکھیںیہی ملک کے مفادکا تقاضا ہے ۔