Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہوٹلوں ، شادی ہالز کے ا ندر ”کھانے کے دشمن“اور باہر ”عقل کے دشمن“

 
صبیحہ خان۔ ٹورانٹو
 
 
کسی دانا کا قول ہے کہ” جینے کے لئے کھاو ، کھانے کے لئے مت جیو“ مگر لوگوں کا یہ ہی خیال ہے کہ جان ہے تو جہان ہے ۔ وہ زندگی کا مفہوم یہی سمجھتے ہیں ۔ اس لئے موجودہ دور میں خوش لباسی کی طرح خوش خوراکی نے فیشن کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ہر جدیدشاپنگ مال میں فوڈ کورٹ کا ہونا ضروری ہے ۔خواہ شاپنگ ایریا کتنا ہی ویران کیوں نہ ہو، فوڈ کورٹ میںتل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ 
وطن عزیز کے ”ماہرینِ سماجیات“کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں کے عوام کی ا کثریت کو دو اہم اقسام میں دھرا جا سکتا ہے ۔ ایک وہ جو ہوٹلوں، شادی ہالز، بینکویٹ پلیسز،پکوان مراکز، ڈھابوں اورایسے ہی دیگر مقامات پر پائے جاتے ہیں اور دوسرے وہ جوان مقامات کے باہر ہوتے ہیں جنہیں ان تقاریب میں بچ جانے کے باعث پھینکا جانے والا کھانا بھی پیسوں سے خریدنا پڑتا ہے۔ ”ماہرین“ کے مطابق ہوٹلوں، شادی ہالز اور ایسے ہی دیگر مقامات پر ”کھانے کے دشمن“ پائے جاتے ہیں جبکہ باہر پائے جانے والوں کی اکثریت کا تعلق ان سے ہوتا ہے جنہیں ”عقل کا دشمن“ قرار دیاجاتا ہے۔ 
تقاریب میں اکثرمہمانوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کھانا پلیٹ میں بھرلیا جائے، کیا پتہ دوبارہ نصیب ہو یانہ ہو ۔ شادیوں میں اکثر لوگ بسیار خوری اس لئے کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے دولہا کو سلامی اور دلہن کو گفٹ بھی دیا ہوتا ہے۔ اسی طرح ہوٹلنگ میںبوفے کے چار جز زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ کھاتے بھی ہیں اور کھانا ضائع بھی کرتے ہیں ۔یوںوہ ہر ڈش کے ساتھ پورا انصاف کرکے ہوٹل والوں سے کچھ نہ کچھ انتقام تو لے لیتے ہیں۔بے تحاشا کھانے والے لوگ ڈاکٹروں کی ہدایت کو بھی فراموش کردیتے ہیں جوانہیں شوگر اور مٹاپے کو کم کرنے کے سلسلے میں دی گئی ہوتی ہے۔ ایسے افراد کو آپ فرنی کی پلیٹیں نیز آئسکریم پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے اکثر تقریبات میں دیکھتے ہوں گے اور ان کے مٹاپے کی وجہ بھی سمجھ میں آجاتی ہوگی۔
ہمارے میڈیا کے ہر چینل پر مارننگ کوکنگ شو دیکھ یہی کہنے کو دل چاہتا ہے کہ 
”اوربھی غم ہیں زمانے میںتناول کے سوا“
ہمارے مختلف چینلز پر فیشن ایبل شیف آپاوں کا راج ہے۔ ان کو کنگ شوز میںجو مرد شیف ہیں وہ بھی شیف کم اورماڈل زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔وہ کھانا پکانے کے طریقوں کے علاوہ ڈانس بھی سکھاتے ہیں۔ کچھ پروگراموں میں شیف آپا کے ساتھ ایک عدد چمچی نما میزبان بھی ہوتی ہے جس کی زبان قینچی سے زیادہ تیزچلتی ہے تو ساتھ ہی وہ میک اپ کی چلتی پھرتی دکان بھی نظر آتی ہے ۔ ہر ڈش کو چکھنے کے بعدوہ یہی کہتی ہے کہ ”کیا بات ہے آپاکی۔“
اکثر فون کرنے والی خواتین کھانے سے زیادہ میزبان کے لباس، شیف آپا کی جیولری اور ہیئراسٹائل میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔ اپنی تعریف پر شرماتے ہوئے شیف آپا سوال کرتی ہیںکہ آپ کوئی فرمائش کرنا پسند کرینگی؟ جواب میں فون کرنے والی خاتون زور دیتی ہیں کہ ”پلیز! کھچڑی بنانا سکھادیں ۔“ ہمیں تو لگتا ہے کہ ان کوکنگ شوز کو دیکھ دیکھ کر ہماری خواتین اپنی ساری کوکنگ بھول چکی ہیں اور آجکل صرف میڈیا والوں سے ہی سیکھ رہی ہیں۔
ایک طرف ہمارے ملک میںمہنگائی کا طوفان ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ہر شخص مہنگائی اور اپنی قلیل آمدنی کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے مگران کوکنگ شوزکی آن بان، ان میںپکائی جانے والی دیسی بدیسی ڈشوں کی ترکیبیں اورتقریبات میں مہمانوں کو کھلانے کےلئے کھانوں کی ڈھیروں اقسام ، چائنیز، اٹالین، امریکن، تھائی ،انڈین غرضیکہ دنیا کے ہر خطے کے کھانے کھاتے دیکھ کر دل میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ آخر مہنگائی کس چڑیا کا نام ہے؟ 
دیکھا جائے تو ہم بحیثیت مجموعی ایک پیٹو لوگ ہیں۔ہماری زندگی صرف کھانے کے گرد گھومتی ہے ۔ جوں جوں کھانوں سے لوگوں کی رغبت بڑھتی جارہی ہے اسی شرح سے کھانوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔گھر سے باہر نکلیں تو ہوٹلز ، فوڈ پوائنٹس غرض ہرکھانے کی جگہ رش نظر آئے گا اور کھانے کے شوقین لوگ گھنٹوں اپنی باری کا انتظار بڑی استقامت اور ہمت کے ساتھ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لوگوں کو بسیار خوری کی عادت ڈال کر انہیں لوٹنے کی حکمت عملی کے پیش نظر کھانوں کے عجیب و غیریب نام رکھے جاتے ہیں مثلاً بالٹی گوشت، مٹکا گوشت، افلاطونی بریانی، ریشمی کباب ، ہانڈی چکن ، اور اب ایک نیا رجحان چل نکلا ہے جس میں چائے شائے، قلچہ شلچہ، نان شان اور بوٹی شوٹی جیسے نام رکھے جا رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کھانا انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے ۔ اس لئے وہ جگہ، مقام اور اپنے مرتبے کا احساس بھی نہیں کرتا ۔ سیاسی جلسے جلوسوں میں آپس میں لڑائی مار کٹائی کاسبب اکثر کھانا ہی ہوتا ہے اور جلسے کے اختتام پر یہ مناظر میڈیا پر دکھائے جاتے ہیں۔ عجب بات یہ ہے کہ ویسے تو ہمارے اندر بین الصوبائی اتحاد ہو نہ ہو لیکن جہاں کھانے کی بات ہو وہاں ہمارا اتحاد قابل دید ہوتا ہے مثلاً ملتانی تکے، پنجابی روسٹ، لاہوری پٹھورے ، شکار پوری مرغ ، چنیوٹی پلاو¿ ، بلوچی سجی، پشاوری آئسکریم ،چپلی کباب ، گویا کھانے کے لئے بین الصوبائی اتحادبے مثال ہے۔ اکثر ٹی وی کے کوکنگ شوز میں کالرز شیف سے فرمائش کرتے ہیں کہ بگھارے بینگن ، کشمیری پلاو، سندھی بریانی بنانا سکھادیں ۔کاش ہمارے عوام کسی مفکر اور دانا سے یہ فرمائش بھی کریںکہ ہمیں کوئی ایسی ترکیب بتادیں جس سے ہم سب ایک ہوجائیں۔ 
اپنے قائد کے سنہرے اصول جو ہم بھول گئے ہیں، کاش کوئی ہمیں یاد دلادے کیونکہ ہم دوغلے ہوچکے ہیں ۔ روس کے کمیونسٹوں کو کافر قرار دیں گے لیکن رشین سلاد پیالے بھر بھر کر نکالیں گے ۔امریکہ کو برا بھلاکہیں گے مگر امیریکن چوپس برگرز ہمیں بے حدپسند ہیں۔ اسی طرح ہم پاکستان سے محبت کرنے وا لے بہاری لوگوں کو اپنے ملک میں بسانے کیلئے تیار نہیں مگر بہاری کباب بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ چائنا کا موبائل لینا پسند نہیں لیکن کھانے میں چائنابے انتہاءپسند ہے۔ ہند ہمارا دوست بھلے نہ ہو مگر انڈین تھالی ہمیںمرغوب ہے۔ کبھی زندگی میںمدراس خواہ نہ گئے ہوں مگر مدراسی بریانی پکانا لازمی ہے ۔ کشمیر کی آزادی سے ہمیں کوئی دلچسپی ہو نہ ہو، کھانے کا ذکر ہو تو کشمیری پلاو، کشمیری چائے کی ترکیب معلوم کرنے کےلئے بے تاب رہتے ہیں۔ مغلیہ دور کی شان و شوکت، پہلے عروج اور پھر زوال نے اس کو خاک میںملا دیا۔آج تک ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا کہ آخر مسلمانوں کے عروج کو اتنا زوال کیوں آیا۔ کسی کو اس سے غرض نہیں۔ ہاں یاد ہے تو مغل بریانی ، جہانگیری پلاو ،شاہی ٹکڑے، یعنی کھانے کے وقت ہم سب بھول جاتے ہیں۔ لگتا ہے یہ سارے پکوان بین الاقوامی اتحاد کا بڑا ذریعہ ہیں۔ ہم خواہ کتنے ہی انتشار و افتراق کا شکار کیوں نہ ہوں ،دسترخوان پر پہنچ کر ایک ہوجاتے ہیں۔
******

شیئر: