معززشہزادے.... لی کوانگ یو کا قصہ
سعودی اخبار ”الوطن“ میں شائع ہونے والے کالم کا ترجمہ نذر قارئین ہے۔
معززشہزادے.... لی کوانگ یو کا قصہ
علی الموسیٰ ۔ الوطن
شہزادہ محمد بن سلمان نے نیویارک ٹائمز کو دیئے گئے تازہ ترین انٹرویو میں ایک جملہ ا ستعمال کیا ہے ”زندگی بڑی مختصر ہے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں وطن کیلئے اپنے خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے قبل ہی مر جاﺅں“۔
شہزادہ محترم سے عرض ہے کہ ..... جن عظیم انسانوں نے اپنی اقوام کی زندگی تبدیل کی وہ آپ ہی جیسے تھے۔ انہیں پہلے سے پتہ تھا کہ زندگی بڑی محدود ہے۔ میں اس سے زیادہ ایک بات عرض کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ مجھے آپ میں ایک ایسی فطری خوبی نظر آرہی ہے جو اُن تمام عظیم ہستیوں سے مختلف ہے جنہوں نے اپنے اپنے وطن کو تاریخ کامحور بنایا۔
شہزادہ محترم ! آپ ابھی عمر کے چوتھے عشرے کے دروازے پر کھڑے ہوئے ہیں جبکہ تاریخ ساز قلیل التعداد عظیم ہستیوں نے ”مختصر زندگی“ کے چھٹے عشرے میں اپنی قوم کے حوالے سے اپنے خوابوں پر کام کرنا شروع کیا تھا۔
معزز شہزادے!آپ نے چونکہ فطری خوف کی گتھی کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے ، ہر انسان کے ساتھ مختصر زندگی کا خوف لگا رہتا ہے۔ ہر انسان بڑے بڑے خواب بھی دیکھتا ہے ۔ اس تناظر میں ہم آپ سے یہ کہنے کی اجازت چاہیں گے کہ آپ اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے سے قبل اپنی قوم کیلئے تعلیم کا خواب بھی دیکھےے، تعلیمی انقلاب کسی بھی ٹاور اور کسی بھی شہر پر خطیر رقم خرچ کرنے سے قبل اشد ضروری ہے۔
میں اپنی سوچ کو صحیح شکل میں آپ تک پہنچانے کیلئے ایک مثال دینا چاہوں گا۔.... لی کوانگ یو جس دن سنگاپور کے صدر بنے تھے اسو قت انکی عمر 54برس تھی۔ اس وقت سنگاپور ملیریا کی بیماری اور جھونپڑوں کاجزیرہ ہوا کرتا تھا۔
ایشیاکی اس عظیم شخصیت نے یہ حقیقت بھانپ لی کہ تعلیم ہی انکے وطن کے جملہ امراض کا تسلی بخش علاج ہے۔ انہوں نے تعلیم کے بل پر سنگاپو رکو تیسری دنیا کے ممالک کی صف سے نکال کر اول درجے کے ممالک کی صف میں شامل کردیا۔ انکا انتقال مارچ 2015 ءمیں اس وقت ہوا جب انہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے وطن اور اپنے عوام کیلئے دیکھے جانے والے خواب کو خود اپنی آنکھوں سے شرمندہ تعبیر ہوتے ہوئے پالیا۔ جس وقت ان کا انتقال ہوا تب انکا ملک تعلیم کے معیار اور نوعیت کے حوالے سے دنیا کے 3بڑے ممالک میں سے ایک بن چکا تھا۔انہوںنے اپنی زندگی کو ایسے عالم میں خیر باد کہا جب سنگاپورنیشنل یونیورسٹی پوری دنیا کی 10بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہوگئی۔
ایشیا کا یہ عظیم رہنما اپنی ہر تقریر میں یہ جملہ انتہا©ئی جوش و جذبے ، احساس و ادراک اور ولولے کے ساتھ دہرایا کرتے تھے:
”تعلیم کی بدولت ہم نے جھونپڑوں کو خیر باد کہہ دیا اور ملیریا کو تسخیر کرلیا “۔
معزز شہزادے! میں اپنا کالم اس بات پر ختم کرنا چاہوں گا کہ موت و حیات اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کب کس کی موت کہاں اور کیسے آئیگی اس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ جہاں تک حساب کتاب اور اعدادوشمار کی بات ہے تو میرا کہنایہ ہے کہ آپ کے سامنے ان شاءاللہ لی
کوانگ یو سے دگنی زندگی باقی ہے۔ آپ تعلیم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرکے تمام گرتی ہوئی دنیاوی کرسیوں ، ہلتے ہوئے ایوانوں اور ڈانواں ڈول ہوتے ہوئے محلوں کو نیا عنوان دے سکتے ہیں
معزز شہزادے ! ملیریا ہماری اور آپ کی قوم کو جھونپڑوں کی ذہنیت کے حوالے کئے ہوئے ہے۔ اگر حقیقی تعلیم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرلیاگیا تو 50فیصد قومی آمدنی کی بچت ہوگی۔ حقیقی تعلیم کی بدولت صحت کامعیار، نظام زندگی، شہروں کی نوعیت اور سڑکوں کا اندازعام شہری کو کہیں سے کہیں لےجائیگا۔ سچ یہ ہے کہ ہم اپنی آمدنی کا 50فیصدنادانی کیوجہ سے فضولیات پر خرچ کررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭