بایو پسی سے کینسر پھیلتا نہیں، صحیح تشخیص اور علاج میں معاون ہوتا ہے، ڈاکٹر
جمعرات 30 نومبر 2017 3:00
والدین کو اپنے بچوں پر نظر رکھنے اورتربیت کرنے کی ضرورت ہے، ایک مریض پر روزانہ 5ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں
گٹکے کے کیخلاف کراچی میں جاری مہم اب مدہم پڑتی جارہی ہے ،ڈاکٹروں کا بھی یہی خیال ہے کہ اگر حکومت چاہے تو یہ زہر بند ہوسکتا ہے ۔ڈاکٹر عاطف حفیظ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جن مریضوں کو کینسر ہوتاہے ان کا زخم بالکل مختلف ہوتا ہے جس سے اندازہ ہوجاتاہے تاہم تصدیق کیلئے خاص قسم کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جس سے کینسر کا پتہ چلتاہے۔ اس قسم کے مریضوں کے منہ عام طور پرپوری طر ح نہیں کھلتے اور منہ میں کوئی ایساچھالہ ہوتا ہے جو ایک2ماہ سے صحیح نہیں ہورہا ہوتا ہے بلکہ زخم بن جاتا ہے ۔بعض مرتبہ شکل اور زخم دیکھ کر اندازہ ہوجاتاہے کہ اس کو کینسر ہے ۔کینسر کی تصدیق کیلئے بایوپسی کراتے ہیں ۔زخم کے حصے سے ایک چھوٹا سے حصہ لیا جاتا ہے پھر اس کا ٹیسٹ کرتے ہیں۔ ا س سوال پر کہ عام طورپرلوگ کہتے ہیں بایوپسی مت کرانا اس سے مرض پھیل جائے گا۔ ڈاکٹر عاطف حفیظ نے کہا کہ اس بات کا حقیت سے کوئی تعلق نہیں عوام میں غلط باتیں پھیلی ہوئی ہیں۔اس ٹیسٹ سے مرض کی صحیح تشخیص ہوجاتی ہے جو صحیح علاج کرنے میںمعاون ثابت ہوتاہے ۔ہمارے پاس عام طو رپر مریض اسٹیج 4 میں آتے ہیں۔ ابتدائی مرحلے میں بہت کم مریض آتے ہیں اور جب ایسے مریضوں سے کہا جاتا ہے کہ بایوپسی کرالو تاکہ مرض کی صحیح تشخیص ہواور بہتر علاج ہوسکے تو عام طور پر مریض بایوپسی کاسن کر غائب ہوجاتے ہیں ۔جب بیماری بڑھ جاتی ہے تو آتے ہیں۔ اس وقت بھی ہم یہی ٹیسٹ کراکر علاج کرتے ہیں۔ اس کے بغیر ہم بہتر علاج نہیںکرسکتے ۔ اس بیماری میںمرض منہ سے گردن کی طرف پھیلتا ہے جس کی وجہ سے ہمیںگردن کا بھی آپریشن کرنا پڑتا ہے جس سے مریض گھبراجاتاہے اور آپریشن کرانے سے گریز کرتا ہے جس سے مرض بڑھتا چلا جاتا ہے اورنوبت کینسر تک پہنچ جاتی ہے ۔مریض یہ سمجھتا ہے کہ مرض بایوپسی کی وجہ سے ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ۔بایوپسی سے کینسر اور مرض کی شدت کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔کینسر کی بھی مختلف قسمیں ہوتی ہیں جن کا علاج بھی مختلف طریقوں سے ہوتاہے۔اس مرض کوابتدائی مراحل میں کنٹرول کیاجاسکتا ہے جس سے مریض کی زندگی میں 10سال تک اضافہ ہوسکتاہے۔ دو او رتین درجے کے کینسر میں مریض کی ریکوری اچھی ہوتی ہے جبکہ چوتھے درجے کے ٹیومر کا سائز کافی بڑھ جاتا ہے ۔گٹکے میں گند ی سڑی ہوئی چھالیہ ہوتی ہیں جو کینسر کا باعث بنتی ہیں ۔ ڈاکٹر عاطف حفیظ نے ایک سوال پر کہا کہ ہمارا کام مایوسی نہیں امید دلانا ہوتا ہے۔ ایک حد تک توہم ڈراتے ہیں لیکن اس حد تک نہیں بتاتے کہ مریض ہمت توڑ دے اورمایوس نہ ہوجائے ۔ہمارے پاس ہر مریض کی کوئی نہ کوئی کہانی ہوتی ہے۔ ایک لڑکا جس کی عمر صرف9سال کی تھی اس کو گٹکے کھانے کی وجہ سے منہ کا کینسر ہوگیا ۔کراچی کے مختلف علاقوں میںمختلف کلچر کی وجہ سے ان چیزوں میںاضافہ ہورہاہے۔عام طورپر ان مریضوںکی عمریں 25سے 40سال ہوتی ہے۔ نوجوان عمر کے اس حصے میں کینسر جیسے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں۔اس میں والدین کو اپنے بچوں پر نظر رکھنے اور تربیت کی ضرورت ہے حالانکہ اس عمر میںنوجوانوں پر کتنی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں لیکن ان کاموں کی وجہ سے ان کی زندگی ختم ہوجاتی ہے۔اس مرض میں گال کے ساتھ پورا پورا کان تک کٹ جاتا ہے بہت اذیت ناک صورت حال ہوتی ہے ۔کچھ مریضوں کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ گزشتہ دنوں ایک مریض آیا جس کی عمر 35سال تھی اس کے چہرے کا ایک حصہ بالکل گلاہواتھا وہ آپریشن کرانا چاہتے تھے لیکن اگر میں اس کو آپریٹ کرتا تواس کا جبڑا اورگال پورا ختم ہوجاتا۔بہرحال ہم نے اس کا آپریشن کیا اور پورا جبڑا نکالا جس کے بعد مریض ٹھیک ہوکر گھر چلا گیا ۔3 سال بعد پھر آیا تو اس کے دوسرے حصے میں کینسر ہوگیا تھا کیونکہ جب کوئی بیماری ہوتی ہے تو وہ دوسری جگہ کو بھی متاثر کرتی ہے۔گٹکا کھانے سے مرض منہ سے لے کر غذا کی نالی تک جاتا ہے۔ میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ گٹکا کھانا عادت ہے نشہ نہیں اس کو چھوڑنا ممکن ہے ۔گٹکے کے مریضوں میں 60فیصد کینسر کے مریض ہوتے ہیں۔گٹکے کی فروخت کے پیچھے مافیا کا ہاتھ ہے ۔ایک مریض پر روزانہ 4سے 5ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں ۔جو مریض کو لاتا ہے اکثر وہ خود بھی گٹکاکھارہاہوتاہے۔ بلوچ اور میمن کمیونٹی سے مریض زیادہ آتے ہیں ۔سندھ سے بھی بہت مریض آتے ہیں۔ایک مرتبہ میں سندھ کے دورے پر گیا تو دیکھا کہ کچی دکانیں ہیں کوئی زیادہ ڈیکوریٹ بھی نہیں ہیں جبکہ ایک پان اور گٹکے کی دکان دیکھی جو بڑی خوبصورت تھی اورنمایاں نظر آرہی تھی یہ تو ہمارا حال ہے۔ ہم اپنے طور پر عوام میں آگہی کیلئے مختلف سیمینار اور کانفرنسوں کا انعقاد کرتے رہتے ہیں جس میں قرارداد بھی منظورہوتی ہے اور عوام سے گٹکے اوردیگر مضر صحت اشیا سے دور رہنے کی اپیل بھی کرتے ہیں۔