Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی اسموگ

شہزاد اعظم
یہ بات صرف ہم ہی نہیں جانتے بلکہ انسان کہلانے والے سبھی لوگوں کو اس امر کا ادراک ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے کچھ ہیں اور سمجھتے کچھ اور ہیں جبکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے کچھ ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے کچھ اور ہیں۔اس کی ایک عام فہم اور اہم مثال فلمی ہیروئن ہے کہ جب ہم کوئی فلم دیکھتے ہیں تو ہیروکے ساتھ ہیروئن دکھائی دیتی ہے۔ ہم اسے دیکھتے ہیں اور سمجھتے کچھ اور ہیں ہم جان بوجھ کر وہ نہیں سمجھتے جو ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ہم ایسی ’’غلطی‘‘ اس لئے کرتے ہیں تاکہ ہم اپنے مستقبل کے لئے کچھ سیکھ سکیں، سمجھ سکیں اور اپنی راہ متعین کر سکیں۔ایسا ہی ہمارے ساتھ چند روز قبل وطن عزیز میں ہوا۔ 
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے ’’پنجاب‘‘ میں زمین پر تو حسبِ امروزچھوٹے میاں صاحب کا ہی راج تھا مگر فضائوں میں’’ فوگ اور اسموک‘‘ یعنی دھند اور دھوئیں نے ’’مخلوط حکومت‘‘ قائم کر رکھی تھی۔ لاہوری فضائوں کے اس ’’حکمراں اتحاد‘‘ کو عوامی زبان میں ’’اسموگ‘‘ کے نام سے پکارا جا رہا تھا۔اسموگ کے سامنے انسان ہوں یا حیوان ،عوام ہوں یا حکمران، سب کے سب مجبور تھے۔بہر حال ان حالات میں کاروبارِ دنیا تو چلتا ہی رہتا ہے اور ہم بھی اسی دنیا کے باسی ہیں چنانچہ ہماری سرگرمیاں بھی ’’اسموگ‘‘کے باوجود جاری رہیں۔ 
ہم نے پاکستان کے شمال کی جانب اسلام آباد، راولپنڈی، ایبٹ آباد، مری وغیرہ جانے کا منصوبہ بنایا ،ایک وین کرائے پر لی اور اپنے اہل خاندان کے ساتھ اس میں سوار ہو گئے۔ رات کا ایک بج رہا تھا۔ محکمہ موسمیات نے اسموگ وغیرہ کے بارے میں کافی خوفناک قسم کی پیش گوئیاں کر رکھی تھیںاس کے باوجود ہم سفر پر نکل کھڑے ہوئے ۔ اس کی 2وجوہ تھیں۔ ایک تو یہ کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہماری دانست میں محکمہ موسمیات کا ریکارڈکچھ اچھا نہیں، وہ جو بھی فرماتا ہے، عموماً اس کا اُلٹ ہی ہوتا ہے۔ دوسرا سبب یہ کہ ا پنے ارد گرد موجود ہم نفسوں کی دیکھا دیکھی ہماری بھی فطرت ثانیہ یہی بن چکی ہے کہ یا تو کسی کام کا آغاز کیا ہی نہ جائے اور اگر کسی فعل کو روبہ عمل لانے کی ٹھان لی جائے تو اسے انجام تک پہنچا کر ہی دم لیاجائے چنانچہ ہم وین میں تھے جو آزادی چوک کی جانب رواں دواں تھی تاکہ راوی عبور کر کے شہر لاہور کی حدود سے باہر نکلا جائے۔جوں جوں ’’چوکِ آزادی‘‘ قریب آ رہا تھا، ’’اسموگ‘‘ میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وین کی رفتار کم کرنا پڑی پھر گاڑی بان یعنی ڈرائیور نے وین کی انتباہی روشنیاں جلا دیں۔کچھ فاصلہ طے ہوا توسیاہ گرد کے مرغولے وین کی اسکرین  پر حملہ آور ہوتے دکھائی دیئے ۔ انتہاء یہ ہوئی کہ حد نظر پہلے تو کم ہوئی، پھر چند فٹ تک محدود ہو گئی اور پھر اچانک ہی حد نظر صفر ہوگئی اور انجام کار ڈرائیور نے وین روک دی۔ قریب سے گزرتی گاڑی والے نے مشورہ دیا کہ وین کو ایک جانب روک لیں اور ایک آدھ گھنٹہ  ’’اسموگ‘‘کے کم ہونے کا انتظار کرلیں۔ ابھی ہماری گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوا ہی تھا کہ ہماری وین کو پہلے ذرا سے جھٹکا لگا اور اس کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے کوئی ظالم و جابر شے ہماری وین کو رگڑتی ہوئی آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ احساس ہوتے ہی ڈرائیور نے شور مچایا کہ کون ہے، اندھے ہو گئے ہو کیا ؟ اس نے باہر نکل کر دیکھا تو پولیس کی موبائل تھی جس نے ہماری کرائے کی وین کو دائیں جانب سے رگڑا چڑھایا تھا۔ رگڑا دینے والی چونکہ پولیس موبائل تھی لہٰذا وہی ہوا کہ پولیس والوں نے ہماری وین کے ڈرائیور کو ڈانٹ پلانی شروع کر دی کہ تم نے سرکاری گاڑی کو ٹکر ماری ہے؟ اس پر ڈرائیور نے چلا کر کہا کہ آپ کے ڈرائیور نے میری کھڑی گاڑی کو پیچھے سے آ کر رگڑا دیا ہے،آپ اندھے ہیں کیا، نظر نہیں آ رہا؟ یہ سن کرپولیس موبائل کا ڈرائیورباہر آیا اور کہنے لگا کہ میں اندھا  تو نہیں ہوں البتہ ’’اسموگ‘‘ نے اندھا کر دیا ہے۔ہمارے ڈرائیور نے کہا کہ تم جانتے نہیں یہ گاڑی کس کی ہے؟ اس نے پولیس والوں کو اپنا تعارف کرایا توان کی آوازیں نجانے کیوں دھیمی ہوگئیں، پھر ہم نے زندگی میں پہلی مرتبہ پولیس والے کواپنی غلطی مانتے، گھٹنے ٹیکتے اور شکست تسلیم کرتے دیکھا۔ اس نے اپنا نمبر دیا اور کہا کہ کل ملاقات کر لینا تو اس نقصان کی تلافی بھی کرا دوں گا۔پھر یوں ہوا کہ ہماری وین نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا۔دریائے راوی عبور کیا، سست روی سے سفر جاری رکھا ۔ یہاں تک کہ گوجرانوالہ گزر گیا ۔ حیرت و استعجاب کی بات یہ تھی کہ جیسے ہی گوجرانوالہ کی حدود سے گاڑی نکلی،اسموگ غائب ہو گئی۔ حد نگاہ کئی سو فٹ تک جا پہنچی۔ ایسا کیوں ہوا، اس کی وجہ ہمیں معلوم نہیں ہو سکی۔ ہم 2روز تک شہر اقتدار، اس کی جڑواں ’’بہن‘‘ راولپنڈی اور کوہساروں کی دلہن ’’مری‘‘ سے ملاقاتوں میں مصروف رہے اور اسموگ کا عذاب بالکل ہی بھول گئے مگر پھر جیسے ہی گھر واپسی کے لئے جی ٹی روڈ پر سفر کرتے کرتے گوجرانوالہ کی حدود میں داخل ہوئے ، اسموگ نے ہمیں اپنی بانہوں میں لے لیا۔ہم سب لوگوں کو گلے میں خراش اور آنکھوں میں جلن جیسی محسوسات نے گھیر لیا۔ایک آدھ روز لاہور میں بھی یونہی گزرا ، پھر بارش ہوئی اور اسموگ سے نجات حاصل ہوگئی۔ ہم نے اسموگیات کے حوالے سے تحقیق و جستجو کا سلسلہ جاری رکھا، ماہرین سے رجوع کیا، دانشوروں سے ملاقاتیں کیں، ذہین افراد اور فطین لوگوں سے اسموگ کے اسباب و علل معلوم کرنا چاہے تو انہوں نے فرمایا کہ  اسموگ ایسا ’’عذاب‘‘ ہے جو ہمارے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ یہ گاڑیوں کے سائلنسروں سے نکلنے اور سلگتے کچرے کے ڈھیروں سے اٹھنے والے دھوئیں، گرد اوردیگر فضائی آلودگیوںکے باہم اتحاد و اتفاق سے وجود میں آتا ہے اورزمینی حقیقت یہ ہے کہ ہم انسانوں کا، سیاستدانوں کا، 2 یا زائد خاندانوں کا اتحاد تو ٹوٹ سکتا ہے مگر ان آلودگیوں کے اتحاد کے ٹوٹنے کا امکان نہ تو ماضی میں تھا، نہ حال میں ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کے تتر بتر ہونے کی کوئی اُمید ہے۔’’اسموگ‘‘ کی موجود گی میں حدنگاہ کم ہو جاتی ہے، گاڑیوں کی رفتار کم ہو جاتی ہے، حلق میں خراش اور سانس میں جلن ہونے لگتی ہے۔ انسان کا مزاج چڑچڑا ہو جاتا ہے۔ وہ بات بات پر کھانے کو دوڑتا ہے۔ اسموگ شدید ہو توکاروبارِ زندگی بھی رُک سکتا ہے۔ ماہرین سے اتنی قیمتی معلومات حاصل کرنے کے بعد ہماری ملاقات ایک ذہین و فطین سے ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ فضائی اسموگ سے آپ اتنے پریشان کیوں ہوگئے،اس نے توچند دن ہی شہریوںکو تنگ کیا پھر بارش نے اسموگ کا ’’دھپڑ دھوس‘‘ کر دیا ۔ دوسری جانب ’’سیاسی اسموگ‘‘ ہے جس نے ملکی معیشت ، ترقی، تعلیم، صحت ، روزگار، صفائی ستھرائی ہر شے کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ جس طرح فضائی آلودگیوں کے اتحاد نے اسموگ کی شکل میں اذیت کا سامان کیا اسی طرح وطن عزیز میں سیاسی آلودگیوں کے اتحاد نے ایسی اسموگ پیدا کی ہے جس نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے،معیشت کا پہیا رک رہا ہے، شاہراہِ ترقی پر حد نگاہ صفر ہو چکی ہے، آج ہر محب وطن پاکستانی اس طوفانی بارش کا انتظار کر رہا ہے جوخوب کھل کر برسے اور اس سیاسی اسموگ کو دھپڑ دھوس کر دے۔
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں