Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گولڈ مارکیٹ کی سعودائزیشن

سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الجزیرہ“ کے کالم کا ترجمہ :
گولڈ مارکیٹ کی سعودائزیشن اور جابر کی کرسی!
 رقیہ سلیمان الہویرینی ۔ بشکریہ: الجزیرہ
سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کی خواتین مختلف شخصیتوں ، سیاسی رہنماﺅں اور قابل دید قومی مقامات سے منسوب زیورات خریدنا ، استعمال کرنا پسند کرتی ہیں۔مملکت میں ”عبدالغنی“کے کڑے انتہائی مشہور رہے ہیں ۔ اسی طرح (سکة الدریکتر) کے کڑے بھی مضبوط اور مقبول مانے جاتے رہے ہیں۔ دراصل راستوں کو کشادہ کرنے اور گھروں کی قیمتیں متعین کرتے وقت استعمال کئے جانےوالے آلے اور مذکورہ نقش میں مشابہت پائی جاتی ہے اسی لئے مقبو ل ہے۔جہاں تک ” جابر کی کرسی “ والے نقش کا تعلق ہے تو اس سے مراد شیخ جابر الصباح تھے ۔ زیور کا یہ نقش انتہائی مشہور اور غیر معمولی قیمتی ماناجاتا رہا ہے۔ عام طور پر دلہن کو جابر کی کرسی نامی ہار ہی مہر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے علاوہ ازیں ناراض بیوی کو منانے کیلئے بھی جابر کی کرسی نامی ہار دینے کا رواج ہے۔دراصل سونے کے تاجروں نے مذکورہ نام گاہک خواتین کو بیوقوف بنانے کیلئے دے رکھے ہیں۔یہ سارے نقش عام طور پر غیر ملکی ہی تیار کرتے رہے ہیں۔ 
مجھے یہ ساری باتیں اُس وقت یاد آئیں جب وزارت محنت و سماجی فروغ نے سونے کے زیورات اور قیمتی پتھر فروخت کرنیوالی دکانوں کی 3دسمبر 2017ءسے سعودائزیشن کا فیصلہ جاری کیا۔ایسا لگتا ہے کہ وزارت محنت و سماجی فروغ فیصلے پر عملدرآمد کے سلسلے میں سنجیدہ ہے اسی لئے اس نے سونے کی ہر مارکیٹ اور ہر تجارتی مرکز پر چھاپہ مارنے کیلئے مستقل ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔ وزارت محنت و سماجی فروغ کے انسپکٹرز وقتاً فوقتاً تجارتی مراکز اور مالز پر اچانک چھاپے ماریں گے۔ چھاپہ مہم کا سلسلہ ترک نہیں کرینگے بلکہ پے درپے یہ کام مختلف اوقات میں انجام دیتے رہیں گے۔ وزارت محنت و سماجی فروغ نے مہم کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے ایک اہم فیصلہ یہ بھی کیا ہے کہ گولڈ کی دکان پر پکڑے جانےوالے ہر غیر ملکی پر 20ہزار ریال کا جرمانہ کیا جائیگا۔میری آرزو ہے کہ جرمانے کی آدھی رقم اُس انسپکٹرکو دی جائے جو اسے گرفتار کرائے علاوہ ازیںخلاف ورزی کرنیوالے کارکن کو بیدخل کردیا جائے۔ 
مجھے یقین ہے کہ جب سے سعودائزیشن کی مہم شروع ہوئی ہے تب سے اب تک جاری کی جانیوالی قراردادوں میں یہ سب سے اہم ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زیورات کی دکانوں کے جملہ کارکن ایک ہی ملک کے ہیںجو سونے کی تمام دکانوں پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔یہ لوگ سعودیوں کے نام سے اپنا کاروبار کررہے ہیں۔گاہکوںکی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے سعودی لباس زیب تن کئے رکھتے ہیں۔سعودی لب ولہجے میں گفتگو کرتے ہیں۔ گاہکوں کو دیکھ کر انکے مزاج اور ان کے ذوق کا اندازہ لگاکر اس طرح کے سیٹ اور زیورات پیش کرتے ہیں جو انکی مرضی کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ گاہکوں کو باقاعدہ احساس دلاتے ہیں کہ ان سے بات کرنےوالے پردیس کے نہیں بلکہ خود انکے اپنے دیس کے ہیں۔باقاعدہ طور پر یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ سعودی ہیں۔کاش کہ ہمارے نوجوان ان سے خریدوفروخت کا فن سیکھتے۔کاش کہ ہمارے نوجوان اتنی ہی مستعدی اور چوکسی کا مظاہرہ کرتے جتنا کہ یہ غیر ملکی کارکن کررہے ہیں۔ کاش کہ زیورات کی دکانوں کی ڈیوٹی دوپہر ایک بجے سے رات 9بجے تک کردی جا ئے ۔ اوقات کار ایسے ہوں جو نہ صرف یہ کہ سعودی گاہکوں کیلئے مناسب ہوں بلکہ سعودی زیور فروشوں کے خاندانی امور و مسائل سے بھی مطابقت رکھتے ہوں۔
گولڈ مارکیٹ کی سعودائزیشن کے فیصلے ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن بوجوہ ان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ ہر وہ فیصلہ جس سے پہلے مارکیٹ کی بابت تمام معلومات جمع کرلی گئی ہوں،ایسا فیصلہ جس پر عمل درآمد سے قبل اس کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہو، ایسا فیصلہ جس کی منصوبہ بندی میں تمام متعلقہ فریقوں کے حالات کو مدنظر رکھا گیا ہو،ایسا فیصلہ جس کے نفاذ کی بابت تمام متعلقہ فریق سنجیدہ اور مخلص ہوں یقینا کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔میں سمجھتی ہوں کہ اس مرتبہ گولڈ مارکیٹ کی سعودائزیشن کا فیصلہ کرتے وقت کامیابی کے ضامن مذکورہ تمام پہلوﺅں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ معلومات بھی جمع کی گئی ہیں۔ منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ متعلقہ فریقوں کے احوال و مسائل کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ فیصلے کو موثر بنانے کیلئے نیک نیتی، اخلاص،عزم اور سنجیدگی کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے۔ میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ گولڈ مارکیٹ کی صد فیصد سعودائزیشن کا فیصلہ سونے اور الماس کی طرح وطن عزیز کیلئے غیر معمولی قیمتی ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھیں:۔ بیرون مملکت سعودی اپوزیشن .....مخمصے سے دوچار

شیئر: