دیندار اوردینداری کے ڈھونگی
سعودی اخبار ”المدینہ“ میں شائع ہونے والے کالم کا ترجمہ پیش خدمت ہے:۔
دیندار اوردینداری کے ڈھونگی
علی ابو القرون الزہرانی۔ المدینہ
ہمارا مسئلہ دین کیساتھ کبھی نہیں تھا۔ ہمیں مشکل ان لوگوں کےساتھ تھی اور ہے جو دینی تعلیمات سے ناواقفیت اور دین کو غلط سمجھ کر دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دین سے ناواقف ہوں یا دین کو غلط سمجھ رہے ہوں یہ دونوں اسلام کی غلط تصویر تخلیق کررہے ہیں۔ یہ تصویر اسلام کی حقیقت اور اس کی روح سے کوسوں دور ہے۔
1۔ 1979ءمیں نام نہاد” بیداری کے دور“ کے بعد دینی اقدار اور دینی تصورات کی بابت بڑی بڑی تبدیلیاں شروع کی گئیں۔ ہم نے کچھ دینی حقائق لئے اور ان میں اپنی روایات اور اپنے رسم و رواج کو شامل کرکے دونوں کا ایک ملغوبہ تیار کیا۔ آگے چل کر ہم معاشرے کی روایات پر مبنی دین اور حقیقی دین کے درمیان تمیز سے عاری ہوگئے۔
2۔ اس صورتحال نے اسلام کے حقیقی عقائد کی بابت لوگوں کے ذہنوں میں ایک خاص قسم کا الجھاﺅ پیدا کردیا۔ دین کی اصل روح اور دین کے نام سے سماجی روایات پر مشتمل دینی تصور کا مطلع ابر آلود ہوجانے کے باعث نئی بحث کھڑی ہوگئی۔ خاص طور پر سادہ لوح مسلمانوں کے یہاں معاملہ زیادہ ٹیڑھا ہوگیا کہ وہ سماجی روایات سے فطری تعلق کی بنیاد پر دینی ملغوبے کا دفاع کرنے لگے۔
3۔ اس تبدیلی نے ایک نیا طبقہ پیدا کیا۔ اس طبقے کی قیادت خفیہ گروہ کرنے لگے جن کا اپنا مذہبی ایجنڈا تھا۔ یہ وہ گروہ ہیں جو مسلم دنیا میں ”اسلام پسند “ کہلائے جارہے ہیں۔
4۔ اس کے بالمقابل انتہا پسندانہ دینی افکار نے جنم لیا۔ یہ افکار دہشتگردی کے رواج کا باعث اور محرک بنے۔ دہشتگردی انتہا پسندانہ دینی افکار کا عملی نتیجہ تھی۔
5۔ 1979ءسے قبل ہم لوگ سادہ سماجی زندگی گزار رہے تھے۔ دینی شعور فطری تھا۔ شرعی نظریات سے کہیں زیادہ فطری صلاح و فلاح کے باعث سعودی شہری سادگی کیساتھ دین کی پابندی کررہے تھے۔
6۔ 1979 ءکے بعد جھیمان کا تاریخی واقعہ رونما ہوا۔ اس واقعہ نے ہمارے یہاں تشدد اور انتہا پسندی کو جنم دیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ عصری ریاست کے قیام کے منصوبے کو بھی معطل کردیا۔
7۔ آج ہم جب خواتین کی ڈرائیونگ ، اسکولوں میں لڑکیوں کی جسمانی ورزش ، میلاد النبی، دفاتر میں کام کرنے والے مرد و زن کی موجودگی، چہرہ کھولنے اور اغیا ر کیساتھ فطری شکل میں پیش آنے جیسے عصری مسائل پر معاشرے کا رد عمل ریکارڈکرنا چاہتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ انتہائی شکل میں 2فریقوں میں منقسم ہوچکا ہے۔ صاف نظرآرہا ہے کہ اس تقسیم کا بڑا محرک شرعی نقطہ نظر سے کہیں زیادہ روایتی مزاج اور ذہن ہے۔
8 ۔ مجھے سب سے زیادہ جو بات کھل رہی ہے وہ دین کو انتہائی سطحی انداز میں لینے والا رویہ ہے۔ ایسا اسلئے ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ خود ساختہ ایسے افکار کے سحر میں مبتلا ہوچکا ہے جن کے نتائج کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ یہ لوگ حقیقی معنوں میں ترقی کے منصوبے میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں۔
9۔میرا مطالعہ مجھے یہ کہنے پر مجبور کررہا ہے کہ ہم لوگ جھیمان کے واقعہ اور اسکے بعد رونما ہونے والے سنگین نتائج سے جان چھڑانے والے دور کی دہلیز پرکھڑے ہوئے ہیں۔
10۔ اس مرحلے کی طرف اشارہ شہزادہ محمد بن سلمان نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ ”ہم لوگ اسلام کی تفسیرِ نو نہیں بلکہ اسلام کو اس کی حقیقی بنیادوں کی طرف واپس لیجانے کی تگ و دو کررہے ہیں“۔
میری نظر میں یہ مرحلہ مخلوط تصورات کی آلودگی سے ذہنوں کو صاف کرنے اور اسلام کی صحیح تصویر اجاگرکرنے کا طلب گار ہے۔ ہمیں اعتدال پسند ، متوازن مذہب کی طرف واپس ہونا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭