Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنی نو ع انسان کی خدمت کرنیوالے....

لوئی پاسچر
فہد عامر الاحمدی۔ الریاض
ہم لوگ نہ جانے کیوں سائنسدانوں ، بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والی عظیم ہستیوں اور دنیا بھر کے انسانوں کے نجا ت دہندہ موجدوں سے کہیں زیادہ تذکرہ قتل و غارتگری مچانے والے سفاک اور جابر انسانوں کا کرتے ہیں۔ ہم لوگ نپولین ، اسٹالن، ہٹلر اور چنگیز خان کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں جبکہ اگر ہم سے پینسلین کے موجد الیگزینڈر فلیمنگ، ویکسین کے خالق لوئی پاسچر ، انسولین کے موجد فریڈرک بینٹن، پیس میکر ولسن گریٹ بیچ، انگریز سائنٹسٹ اور سرجن جوزف لیسٹر، بلب کے موجود تھامس ایڈیسن ، ریڈیم اور یورینیئم ایجاد کرنے والی میڈم کیوری کی بابت دریافت کیا جائے تو ہم ان سے لاعلمی کا اظہار کردیں گے۔
الیگزینڈر فلیمنگ نے پینسلین ایجاد کرکے کروڑوں لوگوں کو بے شمار امراض سے نجات دلائی۔ ولسن گریٹ بیچ نے پیس میکر تخلیق کرکے لوگوں کو لمبی مدت تک زندہ رہنے کا سامان فرام کیا جبکہ سرجن جوزف لیسٹر سے قبل آپریشن کرانے والے عمل جراحت کے دوران ہی دم توڑ دیتے تھے۔ اس انگریز (جراح) سرجن اور سائنٹسٹ نے جو 1877 ءمیں پیدا ہوا اور 1912ء میں وفات پائی۔ جراحی کا نظام دیکر آپریشن کو محفوظ بنادیا۔ اسی طرح فریڈرک بینٹن نے انسولین ایجاد کرکے لوگوں کی زندگیوں میں امید کے دیئے روشن کردیئے۔ 
میں ذاتی طور پر فرانس کے لوئی پاسچر کا دلدادہ ہوں۔ موصوف 27دسمبر 1822ءکو فرانس میں پیدا ہوئے۔ میں نے بہت کم عمری میں ان کے سوانح حیات کا مطالعہ کیا تھا۔ یہ میری نظر میں بلب کے موجد تھامس ایڈیسن ، مائیکل فرائیڈے او رمیڈم کیوری کی صف کے سائنسدان اور انسانیت کے محسن ہیں۔ 
لوئی پاسچر قابل قدر عظیم ہستی کا مثالی نمونہ ہیں۔ انہوں نے اپنے کارناموں اور علمی مطالعات کے ذریعے نہ صرف یہ کہ جراثیم کا سدباب کیا بلکہ انہوں نے دنیا بھر کے انسانوں کو غیر معمولی فائدہ پہنچایا۔ انہوں نے خارش ، اینتھرکس اور گرمی کے امراض کا خاتمہ کیا۔ فوک بخار سے ہونے والی اموات کو کنٹرول کیا۔ برطانوی سائنسدان جوزف لیسٹر نے انکی سائنسی تحقیقات و مطالعات سے فائدہ اٹھاکر جراحت کے دوران ہونے والی اموات کی شرح جراثیم کش دواﺅں کی مدد سے گھٹانے میں کامیابی حاصل کی۔
لوئی پاسچر 27دسمبر 1822ءکو فرانس کے غریب خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انکے اہل خانہ ’دباغت“ کھالوں کی صفائی کا کام کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کمسنی میں ہی یہ بات نوٹ کرلی تھی کہ مائیکروب جانوروں کی کھالوں پر اندر ہی اندراثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ لوئی پاسچر مائیکرو بائیولوجسٹ تھے تاہم انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ثانوی اسکول کے استاد کے طور پرکیا۔ آگے چل کر انہوں نے اسٹراسبرگ یونیورسٹی میں کیمسٹ کے طور پر کام کیا۔ لوئی پاسچر نے یونیورسٹی میں موجود طاقتور خوردبینوں کی مدد سے جراثیم اور مائیکروبز کا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کیا۔ اپنا زیادہ تر وقت مائیکروبز او رجراثیم کے مطالعے میں گزارنے کا شغف رکھا۔ طرح طرح کے فزیائی حالات اور انواع و اقسام کے مادوں سے تجربات کا اہتمام کیا۔ ٹائیفائڈ بخار سے 3بچو ںکی موت نے انہیں مائیکروبز کے خلاف جنگ کا بڑا حوصلہ دیا۔
لوئی پاسچر نے وائرس اور متعدی امراض پر شاندار کام کیا۔ انہوں نے مختلف امراض کی ویکسین ایجاد کیں۔ یہ درست ہے کہ لوئی پاسچر سے قبل بھی ویکسین رائج تھی خصوصاً خارش سے بچاﺅ کی ویکسین خاصی مشہور تھی جسے ایڈورڈ گیز نے دریافت کیا تھا۔
لوئی پاسچر نے اس حوالے سے جو امتیاز حاصل کیا وہ مصنوعی ویکسین کی تیاری کے طریقے کا تھا۔ اس سے قبل جانوروں سے قدرتی شکل میں ویکین بنائی جاتی تھی۔ لوئی پاسچر نے دوا سازی میں حقیقی انقلاب برپا کیا۔
لوئی پاسچر کے یادگار کارناموں میں کھانوں اور مشروبات میں جراثیم کشی کا نظام ہے۔ اسکی بدولت وٹامنز کو متاثر کئے بغیر جراثیم کا خاتمہ کردیا جاتا ہے ۔ اس طریقہ کار کے ذریعے اشیائے خورونوش کو مخصوص درجہ حرارت تک گرم کیا جاتا ہے جس سے جراثیم کا کام تمام ہوجاتا ہے البتہ کھانے پینے کی اشیاءکی غذائی افادیت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔ وہ متاثر نہیں ہوتی۔ 
لوئی پاسچر کی اس ایجاد کی بدولت نہ صرف یہ کہ دنیا متعدی امراض اور زہر خورانی سے محفوظ ہوگئی بلکہ تاریخ میں پہلی بار کھانے محفوظ کرنے کی صنعت بھی متعارف ہوگئی۔
جب لوئی پاسچر 1895ءمیں چل بسے تو اس وقت یہ جاننا بیحد مشکل تھا کہ انکی ایجادات کی بدولت کتنے لوگوں کو نئی زندگی ملی جیسا کہ نپولین ، اسٹالن اور ہٹلر کے انتہا پسندانہ نظریات کے باعث جان سے ہاتھ دھونے والوںکی تعداد کا aاحاطہ ممکن نہ تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھیں:۔  دیندار اور دینداری کے ڈھونگی

شیئر: