بیت المقدس ، برکتوں والی سرزمین
مسجداقصیٰ کو اسراء ومعراج سے مربوط کردیا گیا،جہاں کہیں بھی اسراء ومعراج کی یادتازہ کی جاتی ہے وہیں قضیۂ قدس کو بھی یاد کیا جائے
مسلمانوں کو اسلامی تاریخ کے اعتبارسے بیت المقدس کی اہمیت اورفضیلت کو سمجھنا چاہئے اوراس کی طرف توجہ مرکوزکرنی چاہئے۔ مسجد اقصیٰ کا تقدس اوراس کاپاس ولحاظ دینی ا عتبارسے عین مطلوب ہے۔مسلمانوں کے عقیدہ کے اعتبارسے اس کی اہمیت ہے نیز مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی اس کو ایک بڑااہم مقام حاصل ہے اس لئے تاریخ کے ہردورمیں مسلمان اس بات کے لئے کوشاں رہے کہ مسجد اقصیٰ کاانتظام وانصرام ان کے ہاتھ میں رہے اوریہ مسجد اُن کے قبضۂ تصرف میں رہے چنانچہ صلیبیوں نے جب مسجداقصیٰ پر غاصبانہ قبضہ کیااوراس پرزبردستی قابض ہوگئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جس وقت صلیبی اپنے لاؤ ولشکر اوراپنی صلیب وثالوث کے ساتھ یوروپ سے فلسطین آئے تھے۔ یہ لوگ آئے اور انہوں نے سرزمین فلسطین پر فلسطینیوں کومختلف اسٹیٹس اوراقلیموں میں تقسیم کردیااوران کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ اس کے بعدمسجد اقصیٰ پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ اس صورتحال سے نپٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلم قائدین وزعماء میں سے ایسے لوگوں کو اس کام کے لئے کھڑاکردیا جنہوں نے اپنی زندگی کو مسجداقصیٰ کی آزادی کے لئے تج دیا۔یہ سارے کے سارے زعماء وقائدین عجمی تھے۔اس دور کا آغاز عمادالدین زنگی ؒسے ہوتا ہے جو بلاشبہ ایک عظیم قائد تھے۔ اس کے بعدان کے صاحبزادے نورالدین زنگی ؒنے اس تحریک کی قیادت کی جن کو شہید کے لقب سے یادکیاجاتاہے۔ اگرچہ انہوں نے جامِ شہادت نوش نہیں فرمایا تھا لیکن اللہ کے راستے میں جام شہادت نوش کرنے کی تمنا کرتے کرتے زندگی گزاردی۔اس کے بعدان کے شاگردِرشیدصلاح الدین ایوبی ؒ جو کُردی نوجوان تھے، نے اس مہم کی باگ ڈورسنبھالی اور معرکہ حطین میں جس کو معرکہ فتح بیت المقدس کہا جاتاہے اس نوجوان قائد کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس فتح کرواکرآزادکروایا۔
جس وقت واقعۂ اسراء ومعراج پیش آیا اس وقت موجودہ بیت المقدس کی جگہ کوئی پکی عمارت نہ تھی مگر وہاں مسجد کی جگہ ضرور موجود تھی جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
’’اورہم نے ابراہیم( علیہ السلام )کے لئے کعبہ کے مکان کی جگہ مقررکردی۔‘‘(الحج26) ۔
لہذااللہ تعالیٰ کے فرمان’’الَی المسجد الأقصٰی‘‘(الاسراء1) میں بشارت پنہاں ہے کہ یہ مقدس جگہ مسجد کی شکل میں تبدیل ہوجائے گی اوراہل حجازکے لئے مسجد اقصیٰ مسافت کے اعتبارسے دوردرازہوگی۔ مرادیہ ہے کہ اسلام کا اثر ونفوذبڑھتا چلا جائے گااورجس جگہ پر رومن امپائرقابض ہے اس جگہ پر اسلام کا جھنڈالہرائے گا۔یہ مقدس سرزمین اسلام کے دست رس میںآجائے گی۔اس جملہ میں مسلمانوں کے لئے نویدِبشارت ہے کہ ان کے دین کو عنقریب غلبہ حاصل ہوگا اوران کی حکومت وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جائے گی۔ ان کے ملک کا دائرہ طول وعرض میں پھیل جائے گا پھر مسجد اقصیٰ کاوجود عمل میںآئے گااورایساہی ہوا۔
مسلمان حضرت عمر ؓ کے عہد خلافت میں سرزمین قدس میں داخل ہوئے۔اس وقت قدس کے بطریک سیفرنیوس نے مدینہ قدس کی کلید خلیفہ مسلمین ؓکے علاوہ کسی اورکے ہاتھ میں دینے سے عدم رغبت کا اظہارکیااوراس نے اس وقت کی مسلح قیادت کو چابی حوالہ کرنے سے صاف انکارکردیا اوریہ کہا کہ میں چاہتاہوں کہ خلیفۃ المسلمین بنفس نفیس تشریف لائیں اورمدینہ قدس کی زمام کاراپنے ہاتھوں میں سنبھالیں چنانچہ اس موقع پر حضرت عمرؓ اپنا تاریخی سفرطے کرکے قدس پہنچے جس کا قصہ معروف ومشہورہے اورتعجب خیز بھی ہے۔بہرحال آپؓ قدس پہنچے اور مدینہ قدس کی چابی وصول کی۔ اس کے بعد آپؓ نے ایک معاہدہ تحریرفرمایا جس کو’’ معاہدئہ عمریہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس معاہدہ میں تحریری طورآپؓ نے فرمان جاری کیا کہ ان لوگوں کو جو اس سرزمین پر ہیں جانی ومالی تحفظ عطا کیا جاتاہے نیز ان کی ذریت اوراہل وعیال محفوظ ومامون ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں اوران کے شعائرِدینیہ اوررسم ورواج سے تعارض نہیں کیا جائے گااورہراس چیزکا ان کو حق حاصل ہے جس کے حصول کی لوگ تگ ودوکرتے ہیں۔اس معاہدہ میں ایک بند یہ بھی تحریر تھا کہ اس مقدس سرزمین پریہودیوں میں سے کسی فردکو آبادہونے کے لئے جگہ نہ دی جائے۔
مسلمان جس وقت قدس میں داخل ہوئے وہاں اس وقت دوردورتک یہودیوں کا نام ونشان تک نہ تھا۔ایک بھی یہودی کا وہاں ملنا محال تھا کیونکہ رومن امپائرنے135 عیسوی میں یہودیوں کا وہاں سے صفایا کردیا تھااس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں نے یہودیوں یا اسرائیلیوں سے قدس نہیں چھینا بلکہ انہوں نے تو رومیوں سے اس کی بازیابی کی ہے۔ اس سے قبل بابلیوں نے قدس سے یہودی حکومت کو تاخت وتاراج کیا تھا اس کے بعدرومیوں کے ہاتھوں یہودیت کا قلع قمع ہوا اور وہاں سے یہودی حکومت کو اجڑے ہوئے 25صدیوں سے بھی زیادہ کاعرصہ گزرچکا تھا۔ مرادیہ ہے کہ 486قبل میلاد مسیح یہودیوں کو وہاں سے نکالا جا چکا تھا۔ اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد یہودی کس منہ سے اب یہ نعرہ لگاتے ہوئے نظرآرہے ہیں کہ ہم قدس کے اصل وارث ہیں۔تاریخی زاویہ سے ہمیں اس کی وراثت کا حق حاصل ہے۔ہم کہتے ہیں ان کا یہ حق کہاں سے آیا ؟بلکہ بحیثیت مسلمان ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم اس کے حق دارہونے کا دعویٰ کریں کیونکہ قدس کی سرزمین وہ سرزمین ہے جہاں قدیم زمانہ میں عرب آبادہوئے تھے ۔یہ کنعانیوں اوریبابسہ کا 30صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے پھران سے مسلمانوں نے اس مقدس شہر کو دستیاب کیاتھا اور کم وبیش14سوسال یہ مقدس شہر ان کے زیرِنگیں رہا ۔
یہ لوگ ٹیکنالوجی اوراسلحہ کی بنیادپر حق جتانا چاہتے ہیں!ان کا شعارہے ظلم وطغیان برپا کرو،عدل وانصاف کی بات مت کرو، طاقت وقوت سے حق حاصل کرو،جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والا معاملہ کرو،سمجھوتہ اورگفت وشنیدکی بات مت کرو۔ہم اس منطق کی تردیدکرتے ہیں اوراپنے حق کے حصول کا موقف اپنائے ہوئے ہیں۔ ہم مسجداقصیٰ کے بارے میں غفلت ولاپرواہی برتنا نہیں چاہتے، اگراس کی بازیابی کے بارے میں ہم نے تفریط سے کام لیاتوگویاکہ ہم نے اپنے قبلۂ اول کو اپنے ہاتھوں گنوادیا۔قبلۂ اول ہی نہیں بلکہ اسراء ومعراج کی سرزمین کو اپنی غفلت کا شکاربنادیا ۔دنیا کے تمام مسلمانوں پر اس مسجد کی طرف سے اس کی حفاظت اوراس کی عزت وناموس کی دفاع کا فریضہ عائدہوتاہے۔ صرف فلسطینیوں پر ہی اس کی حفاظت کی ذمہ داری عائدنہیں ہوتی بلکہ ہم نے تو فلسطینیوں سے یہاں تک کہا ہے کہ اگرتم لوگ مسجد اقصیٰ کی دفاع سے پہلوتہی اختیارکرکے بیٹھ رہے اورذلت ورسوائی کا لبادہ اوڑھ کرمیدان چھوڑ دیا اورعاجزآکر ہتھیار ڈال دئیے اورنفسیاتی طورپرتم شکست کھاگئے اورمسجد اقصیٰ دشمنوں کے حوالہ کردی تو ہم پر یہ بات واجب ہوجاتی ہے کہ اپنی عزت وآبرو اوراپنے مقدسات خصوصاًاپنے قدس اوراپنی مسجد اقصیٰ کے دفاع میں ہم تم سے ٹھیک اس طرح نبردآزمائی کریں جس طرح ہم یہودیوں سے برسرپیکارہوتے ہیں ۔مسجد اقصیٰ پر تن تنہا فلسطینیوں کی اجارہ داری نہیں حتیٰ کہ بعض لوگوں نے طنزاًکہنا شروع کردیا کہ کیا تم اس ملک والوں سے بڑھ کر دیش بھگت ہو،کیاتم فلسطینیوں سے زیادہ کٹر فلسطینی ہو؟ ہماراجواب ہے ہاں!ہم فلسطینیوں سے زیادہ کٹر فلسطینی ہیں!ہم قدس کے مکینوں سے زیادہ کٹر قدسی ہیں!ہم اقصیٰ کے باشندوں سے زیادہ کٹر اقصوی ہیں!یہ ہماری مسجد ہے ،یہ ہماری عزت وآبروہے بلکہ یہ تو ہماری ناک ہے اور ہماری امت اسلامیہ کی قداست کا شاہکارہے۔یہ ہمارا عتقادہے اورہم اسی اعتقادپرقائم ہیں اور اسی کی مسلمانوں میں ترویج واشاعت کرنے کے قائل ہیں۔ ہم مسجد اقصیٰ اوراس کے مقدس مقامات کویہودی بنانے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔اس سلسلہ میں اپنے موقف سے ہم ایک انچ ہٹنے کے لئے تیار نہیں ۔
اللہ نے چاہا کہ مسجداقصی کے نام کو بطوریادگار اسراء ومعراج کی مناسبت سے مربوط کردے کیونکہ ہرسال یہ موقع آتاہے تو وہ جہاں کہیں بھی اسراء ومعراج کی یادتازہ کرتے ہیںوہیں ان کو اسراء ومعراج اِس سنگین معاملہ کی بھی یاد دلاتاہے جس کو قضیۂ قدس کہتے ہیں ، بلاشبہ قضیۂ قدس سنگین اورخطرناک معاملہ ہے۔
اس لئے ہم پورے شدومدکے ساتھ یہ بات کہنے پر مجبورہیں کہ اے فرزندانِ اسلام!ہمارے لئے کسی طرح بھی یہ بات زیب نہیں دیتی کہ ہم اس قضیۂ قدس کے بارے میں غفلت یا کوتاہی کا شکارہوں۔سرزمین قدس پریہودی اپنا بسط ونفوذ قائم کرکے وہاں پر یہودی حکومت قائم کرنے کاخواب دیکھ رہے ہیں۔ بفرض محال اگر وہ اپنا خواب شرمندۂ تعبیرکرنے میں کامیاب بھی ہوگئے تو ہم کو چاہئے کہ اپنی مقدس مسجد اقصی کے بارے میںتفریط سے کام نہ لیں۔اگرخدانخواستہ ہمیں تلخ نتائج کی زدمیں آنا پڑجائے اورہم دشمنوں کے سامنے ہتھیارڈالنے پر مجبورہوجائیں اورہمیں شکست وریخت کا سامناہوتب بھی ہمارے لئے اس بات کا جوازنہیں کہ ہم شکست تسلیم کرتے ہوئے مغلوب ولاچاربن کران کے ہم رکاب ہوںبلکہ ہم پر یہ فریضہ عائدہوتاہے کہ ہم اس بات کا اعتقاد رکھیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ توہمارے ساتھ ہے اوراللہ تعالیٰ ہی ہمارامؤید وناصر ہے ۔وہ تمام ادیان پر اپنے دین کا بول بالا کرکے ہی رہے گا اوروہ مؤمنین کے گروہ کی مددکرکے انہیں غلبہ عطا فرمائے گا۔
امام احمدؒ اورامام طبرانیؒ نے حضرت امام باہلیؓ سے روایت کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:
’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے غالب رہیگا اوراپنے دشمنوں کو مقہورکرتا رہے گا،دشمن کی شیرازہ بندی اسے کوئی گزند نہ پہنچاسکے گی الا یہ کہ بطورآزمائش اسے تھوڑی بہت گزند پہنچ جائے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اوروہ اسی حال پر قائم ودائم ہوں گے۔‘‘
صحابہ کرام ؓنے عرض کیا:
’’ یارسول اللہ یہ لوگ کہاں کے ہوں گے۔‘‘
تو نبی کریم نے جواب دیا :
’’ یہ لوگ بیت المقدس کے باشندے ہوں گے یا بیت المقدس کے اطراف واکناف میں ہوں گے۔‘‘