سعودی عرب سے شائع ہونیوالے عربی اخبار ”البلاد “ نے 7دسمبر جمعرات کو اپنے شمارے میں القدس کے حوالے سے نئی صورتحال پر اداریہ تحریر کیا ہے جس کا ترجمہ نذر قارئین ہے۔
البلاد کااداریہ
امریکی صدر نے تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے کے عزم کا اظہار کرکے پوری عرب اور مسلم دنیا کو جھٹکا دیدیا۔ انہوں نے القدس کو اسرائیل کادائمی دارالحکومت قرار دیکر عربوں او رمسلمانوں کو شدید صدمہ پہنچایا۔ امریکی صدر نے مذکورہ فیصلہ کرکے اسرائیل اور خود امریکہ کے حوالے سے پُرخطر مہم جوئی کی ہے۔ یہ خطرناک قدم ہے۔ اسکے نتائج کا ادراک کئے بغیر ہی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے علاقائی و بین االاقوامی استحکام سبوتاژ ہوگا۔ یہ اُن تمام بین الاقوامی قراردادوںکے سراسر منافی فیصلہ ہے جن میں باور کرایاگیا ہے کہ 1967ءسے مقبوضہ مشرقی القدس فلسطینی شہر ہے۔ بین الاقوامی قانون اور عرب فارمولے میں القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا گیا ہے۔ عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق دلانے کیلئے موثر کردارادا کرے۔ قابض صہیونی حکام فلسطینی حقوق کو سرزمینِ فلسطین میں جغرافیائی اور آبادیاتی تبدیلیاں کرکے طاقِ نسیاں کی زینت بنانے کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔
مشرقی القدس کا مستقبل قابض اسرائیل کے سر پر سوار رہیگا۔ امریکہ نے القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرکے قابض ریاست کے ساتھ اندھی جانبداری کا مظاہرہ کردیا۔ انہوں نے امریکہ کو اسرائیل کا طرفدار بنادیا۔ امریکہ مبنی برانصاف حل کیلئے سیاسی عمل کا سرپرست تھا۔ ٹرمپ نے امریکہ کی یہ حیثیت ختم کردی۔
عرب امت مسلمہ اور عالمی برادری طاقت کے بل پر تھوپے جانے والے اس فیصلے کو کبھی قبول نہیں کریگی۔ پوری دنیا مانتی ہے کہ القدس کا فیصلہ مذاکرات کے ذریعے ہی طے ہوگا۔ اسرائیل کئی عشروںسے اپنے جرائم اور غرور کے سہارے مسئلہ فلسطین کے حتمی حل سے دامن بچا رہا ہے۔ امریکہ کی جانبداری ، سرپرستی اور بین الاقوامی برادری کی پراسرار خاموشی خطے کے استحکام کیلئے مزید خطرات کا الارم بجا رہی ہے۔