Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ویلیو ایڈڈ ٹیکس

محمد مبشر انوار
دور جدید میں انداز زندگی مکمل طور پر بدل چکے ہیں ،نئی ٹیکنالوجی نے زندگی کی رفتار کو گویا پر لگا دئیے ہیں،آج ہر شعبہ ہائے زندگی سائنسی توجیحات کی متقاضی ہے ،زندگی کو سائنٹیفک بنیادوں پر گزارنے کیلئے قوانین بنائے جا رہے ہیں،ماضی کی نسبت آج زندگی دوش بر ہوا تیرتی ہوئی نظر آتی ہے،ہر شخص جلدی میں ہے،ہر کام چٹکیوں میں بجا لانے کی خواہش شدید تر ہوتی جا رہی ہے،کسی کے پاس وقت نام کی چیز نہیں ،دنیا سمٹ کر ایک موبائل میں قید ہو چکی ہے،کسی بھی قسم کی معلومات فقط اپنے موبائل پر حاصل کی جا سکتی ہیں۔ عام انسان کا آئی کیولیول(معیار ذہانت)کئی گنا بڑھ کر کارکردگی دکھا رہا ہے۔ مہذب و ترقی یافتہ اقوام تو اس حد تک جا چکی ہیں کہ انہوں نے ہر کاروبار میں شرح منافع تک کا تعین کر دیا ہے کہ کوئی بھی اجارہ داری کی بنیاد پر عوام الناس کو لوٹ نہ سکے اور نہ ہی کوئی معاشی مگرمچھ کسی نئے آنے والے کے لئے رکاوٹ بن سکے لیکن اس سب کے باوجود آج بھی نئے آئیڈیا کا حامل فرد  واحد یا ادارہ ایک مخصوص مدت تک اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکتا ہے پھر وہ آئیڈیا عام ہو جاتا ہے تا کہ سب کو کاروبار کے یکساں مواقع فراہم ہو سکیں۔ 
امور ریاست چلانے کے لئے حکومتیں ان معاشی سرگرمیوں میں شامل افراد اور اداروں سے ٹیکس وصول کر کے امور ریاست سر انجام دیتی ہیں اور محروم طبقات کی فلاح وبہبود کے لئے منصوبے بنائے جاتے ہیں تا کہ معاشرے کے افراد یکساں نہ سہی کم ازکم زندگی گزارنے کے قابل رہ سکیں اور حکومتیں ان کی کم ازکم ضروریات زندگی کی ضامن بن سکیں۔ ٹیکسوں کے نفاذ میں دن بدن جدت آ رہی ہے اور ایسے ایسے ٹیکسز کا نفاذ کیا جا رہا ہے جن کا ذکر بھی کبھی سننے میں نہیں آیا تھا لیکن نئے ٹیکسز کا نفاذ  در حقیقت معاشی سرگرمیوں کے صحیح اعداد و شمار اکٹھے کرنا ہے  نہ کہ کاروباری افراد یا اداروں کو  خوفزدہ کرنا مطلوب ہے۔ معاشرے میں جیسے جیسے معاشی سرگرمیاں اور حجم بڑھ رہے ہیں ویسے ویسے اس سے حاصل ہونے والے سرمایے کا بے مہابا اور غیرقانونی استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے جو  براہ راست یا بالواسطہ امن عالم کے لئے خطرہ بھی بن رہا ہے۔  اس خدشے کے سد باب کی خاطر ،حکومتوں نے بجائے معاشی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کے ،ان پر واٹ نامی ٹیکس کا نفاذ کیا ہے، جس کا  خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے اور ہو گا کہ اس ٹیکس کے نفاذ سے کسی بھی کاروبار کے  شامل افراد  یا اداروں کے حقیقی کاروبار کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔ بالعموم کاروباری   افراد کے لئے کسی بھی قسم کا ٹیکس سوہان روح ہوتا ہے  اور  وہ اس کا نام سنتے ہی دہائیاں دینے لگتے ہیں،اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ کسی بھی قسم کے ٹیکس کا اثر بالآخر صارف کی جیب پر پڑتا ہے،جو در حقیقت ساری دنیا ہی ہے اور مہنگائی کے فروغ کا باعث ہوتا ہے۔ واٹ یا کسی بھی ٹیکس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ  وہ کاروباری شخص پر لاگو ہو گا یا اس کی جیب سے نکالا جائے گا،درحقیقت کوئی بھی ٹیکس کاروبار ی شخص کے شرح منافع کو بڑھاتا ہے ،اس کی مثال یوں سمجھ لیں کہ پہلے جو چیز100 روپے کی خرید کر110میں بیچی جار ہی تھی،اب110 کی خرید کر 130 کی بیچی جائے گی۔ اس قیمت فروخت میں پہلے شرح منافع 5 فیصد تھا تو اب شرح منافع 6 یا ساڑھے6 فیصد ہو جائے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ واٹ ٹیکس کسی بھی کاروبار سے منسلک مختلف مرحلوں پر نافذالعمل ہو گا،جس کا مطلب یہ ہے کہ خام مال سے لے کر تیاری تک کے سب مراحل اور ان سے منسلک تمام لوگ اپنے اپنے مرحلے سے گزرنے کا ٹیکس حکومت کو دیں گے،اس سے حکومت کو نہ صرف کسی بھی کاروبار کے مختلف مراحل کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے بلکہ حقیقی اعدادو شمار بھی حاصل ہوتے ہیں۔
مہذب و ترقی یافتہ ممالک اس تمام مشقت سے گزر کر ایک فلاحی معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک کو ٹیکسوں کے نفاذ میں مشکلات درپیش ہیں،جس کی  وجوہ مختلف ہیں اور الگ بحث کی متقاضی ہیں۔غیر ترقی یافتہ ممالک اس فہرست میں ہی شامل نہیں۔ پاکستان  انویسٹرز فورم کے برادرم  خالد محمود چوہدری نے مملکت سعودی عرب میں واٹ کے نفاذ کے حوالے سے ایک سیمینار کی دعوت دی،جس میں  ماہرین ٹیکس سید آصف زمان،زمان اقبال،مجیب الحق اور عباس یا سین شامل تھے۔ سیمینار ،پاکستان انویسٹرز فورم کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھاتا کہ پاکستانی سرمایہ کاروں کومملکت سعودی عرب میں  واٹ سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے،بظاہر ایک بور نظر آنے والا سیمینار انتہائی معلوماتی ثابت ہوا۔ سید آصف کرمانی نے سلائیڈ شو کے ساتھ حکومتی ترجیحات کے ساتھ ساتھ  دیگر طریقہ ہائے کار کی  وضاحت کی  تو حاضرین کے سوالوں کا جواب دینے کے لئے ان کے ساتھی ماہرین زمان اقبال،مجیب الحق اور عباس یاسین نے سیر حاصل جوابات دئیے۔  ان سب  ماہرین کا یہ کہنا تھا کہ عالمی سطح پر  بدلتے ہوئے  حالات اس امر کے  متقاضی ہیں کہ تمام معاشی سرگرمیوں کو  دستاویزی شکل دیتے ہوئے ،امن اقوام عالم کو  درپیش  خطرات سے نپٹنے میں  اپنا حصہ  ڈالا جائے گو کہ اس  وقت امن اقوام عالم کو  بنیادی طورپرخطرہ ، عالمی ٹھیکیداروں کے  دہرے معیار سے ہے لیکن اس کے  باوجود مسلم ممالک  اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی نہیں کرسکتے۔ مملکت سعودی عرب کی نئی قیادت  عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں سے پوری طرح آگاہ نظر آتی ہے  اور ہر صورت  انتہا پسندی اور کرپشن کے پھیلتے ہوئے ناسور کا  مقابلہ کرنا چاہتی ہے  اوراسی سلسلے میں پوری تندہی اور ہوم ورک کے ساتھ،ان ناسوروں کے خلاف بروئے کار آتی نظر آ رہی ہے۔  نئی قیادت کے بیشتر اقدامات  وژن 2030کی روشنی میں  اقوام عالم کے ہم آہنگ  ہونے کی شعوری مخلصانہ سعی ہے اور پاکستانی  جو  سعودی عرب کو  اپنا  دوسرا گھر سمجھتے ہیں،ان قوانین کو  اپنا کر ،ان پر عمل کر کے اپنے اس دعوے کا  ثبوت فراہم کرنا چاہئے ۔ جیسا اوپر ذکر کیا ہے کہ اس ٹیکس کا  مقصد قطعاً  معاشی  سرگرمیوں پر قدغن لگانا نہیں بلکہ ان  معاشی سرگرمیوں کو ایک  دائرہ کار میںلانا ہے  تا کہ حکومت کو  اندازہ ہو کہ کس کاروبار میں کتنے  مراحل ہیں  اور اس کا حجم کتنا ہے  اور اسی مناسبت سے حکومت مستقبل کی منصوبہ کرسکے۔ دوسری اہم ترین  بات پاکستانی و مختلف  قومی سرمایہ کار  ایک عرصے سے مقیم ہیں  اور بلا ٹیکس کاروباری فوائد سے محظوظ ہو رہے ہیں،اب ٹیکس لگنے کے بعد انہیں پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے کہ  ابھی بھی مملکت سعودی عرب میں ٹیکسوں کی  شرح باقی ممالک سے  نسبتاً کم ہی ہے ۔  علاوہ ازیں مملکت سعودی عرب تارکین کو  اچھی سہولتوں کے ساتھ کہیں  بہتر معیار زندگی فراہم کرتی ہے،جس کے بدلے میں یہ ٹیکس کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں