Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

راہ حق کے شہید

***محمد مبشر انوار***
خیر اور شر کی جنگ ازل سے ہے  اور  ابد تک رہے گی۔خیر کم ہونے کے باوجود   شر پر غالب آ کر رہے گاکہ  یہی رب العالمین کا   وعدہ ہے اور صرف وہی ہے جس کے وعدے قیامت تک اور مابعد زندگی میں بھی پورے ہونے والے ہیں۔ چار دن کی دنیاوی زندگی ایک کھیتی کی مانند ہے ،انسان یہاں جو کچھ بوئے گا، روز قیامت اس کا پھل اس کو مل جائے گا الا یہ کہ  اللہ رب العزت اپنے بے پایاں کرم اور  رحم سے ہم جیسے آسیوں ،گنہگاروں کو بخش کر پروانہ  جنت تھما دے  وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ  نہ ہم ایسے  اور نہ  ہمارے اعمال ایسے کہ  ہم  روز محشر رب کریم اور اس کے محبوب کے سامنے آنکھ اٹھا سکیں۔ایک ایک سانس میں نہ جانے کتنی غلطیاں ہم کرتے ہیں اور   وہ بے نیاز ہو کر ہمیں رزق اور  زندگی فراہم کرتا رہتا ہے۔ اللہ نے زندگی گزارنے کے جو  اصول متعین کر دیئے۔بندگی کا تقاضا  صرف اتنا ہے کہ بلا چوں و چراں ان پر عمل کیا جائے ،ان کی تعمیل کی جائے کہ  اسی میں نجات  اور  ابدی زندگی ہے لیکن  ابن آدم کو عقل سلیم سے  نواز کر  یہ  اختیار بھی  اس اشرف المخلوقات کو  دے دیا کہ میرے بندے یہ  میرا حکم ہے  اور  یہ تیرا اختیاروگرنہ  فقط احکامات کی تعمیل  تو اس کی بے پناہ دوسری مخلوق شب و  روز کرتی ہے۔  اسے انسان کی عبادت سے  قطعاً کوئی غرض نہیںاس کی منشاء  ہے  تو بس اتنی کہ جو  اختیارات بندے کو  دئیے ہیں،ان کا استعمال کس طرح کرتا ہے؟خیر و شر کی  اس جنگ میں انسانوں کے انسانوں پر حقوق،ان کی ذمہ داریاں، انفرادی، خاندانی، گروہی، معاشی، معاشرتی  و سماجی ہر طرح کی  ذمہ داریاں کھول کھول کر  بیان فرما دی ہیں۔ گروہی  و  سماجی ذمہ داریوں میں  دوسرے انسان کی جان و مال، عزت و آبرو کے حوالے سے بھی حقوق اور  قدغنیں بیان کر دی ہیں مگر انسان کی جبلت میں طاقت و  اختیار، ہوس اقتدار، ہوس زر جیسی خصلتیں بھی رکھ چھوڑی،جن سے  وہ  ساری زندگی  نبرد آزما رہ کر  ہی  ابدی نجات حاصل کر سکتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ عساکر  اسلام ہمیشہ  تعداد میں کم رہے مگر  اپنے جذبہ  ایمانی سے  اپنے سے کئی گنا بڑے  دشمنوں کو  شکست فاش دی۔  جب بھی ان پر جنگ مسلط کی گئی ۔ انہوں نے اس کا منہ  توڑ جواب اپنی بہادری، دلیری  اور  شجاعت سے  دیا،ان کی بے جگری ہی ان کا خاصہ رہی کہ ان کے  مد مقابل غیر مسلموں کے لئے زندگی عزیز جبکہ اہل اسلام کے لئے حوض کوثر پر  سرور کونین کے حضور حاضری مقدم رہی۔ آج مگر صورتحال  قدرے مختلف ہے کہ  فی زمانہ جنگ کے  انداز ہی بدل چکے ہیں اور کوئی بھی   براہ راست لڑائی میں کودنے کی بجائے پس پردہ رہ کر  دشمنوں کی ثقافت  و اقتصادیات کے  علاوہ داخلی امن  و امان کو  نشانہ بنا کر  انہیں تباہ کرنے کے  درپے ہیں۔  اس مخصوص خفیہ جنگ کے حوالے سے  غیر مسلموں کا  منصوبہ ’’عرب ا سپرنگ‘‘ کے نام سے مسلم ممالک بالعموم  جبکہ مشرق وسطیٰ اور  پاکستان میں  بالخصوص بروئے کار ہے جبکہ مشرق وسطیٰ کی چیدہ چیدہ ریاستیں اور پاکستان اپنے محدود  وسائل کے ساتھ اس جنگ سے  نبرد آزما ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور  پاکستان میں  بروئے کار آنے والا یہ منصوبہ کئی حوالوں سے  مطابقت رکھتا ہے کہ  نہ  صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پاکستان کو بھی  ویسی ہی آزمائشوں کا سامنا ہے، جن میں معیشت کے  علاوہ  داخلی  امن و امان کی  صورتحال سب سے  زیادہ   توجہ کی متقاضی ہے ۔  اندرونی خلفشار کے حوالے سے پاکستان کا  صرف پڑوسی ملک ہی نہیں بلکہ شمال مشرق میں  دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف عمل مکار امریکہ بھی پاکستان میں داخلی انتشار کا سبب ہے کہ بظاہر  تو  وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے مگر  درحقیقت  درون خانہ اپنے مقاصد کی تکمیل اور چین کے بڑھتے ہوئے  اثرورسوخ کو کم کرنے کی کوششوں  میں  مصروف ہے۔ پاکستان کو  ہمیشہ ’’ڈومور‘‘ کے  احکامات سنائے جاتے ہیں مگر اپنے زیر اثر علاقے سے ہی دہشت گردوں کو پاکستان بھیجا جاتا ہے تا کہ پاکستان کو کمزور کیا جائے۔ مشرقی سرحد سے ہندوستان مسلسل  شر انگیزی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان ،ایران کے راستے بھی تربیت یافتہ دہشت گردوں کو پاکستان کا امن تباہ کرنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے۔  اقوام عالم کی  نظریں صرف و ہ دیکھتی ہیںجو  دیکھنا  مقصود  ہو یعنی ایک مسلم ایٹمی طاقت کا داخلی خلفشار مگر اس خلفشار میں ملوث بیرونی طاقتیں(جو ان کی حلیف ہیں)کے کردار پر مجرمانہ خاموشی اس امر کی غماز ہیں کہ  وہ حقیقتاً اس خلفشار کو  روکنے کی بجائے  مزید پھیلانے کی خواہشمند ہیں۔
دوسری طرف پاکستان کی  مقتدرہ اس سارے عمل کو 2011سے  نہ صرف بغور دیکھ رہی ہے بلکہ اس کے سد باب کیلئے اپنی پوری قوت کے ساتھ بروئے کار بھی ہے۔ پاکستان کی  داخلی صورتحال کو  قابو میں کرنے کیلئے افواج پاکستان  براہ راست اس عمل میں مصروف ہیں اور کہیں بھی کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے  دریغ نہیں کر رہی بلکہ ببانگ دہل یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ 22 کروڑ عوام کے اس ملک پر قبضہ کرنے سے پہلے دشمنوں کو  اس کی بھاری قیمت ادا کرنا ہو گی۔یہ  فقط دعویٰ ہی نہیں،افواج پاکستان اس ضمن میں ہر طرح کی قربانیا ں دے رہی ہے۔اس قوم کے جواں سال بچے،جان ہتھیلی پر لئے دہشت گردی کے ناسوروں سے  لڑ رہے ہیں مگر کچھ  ازلی متعصب پھبتیاں کسنے سے باز نہیں آتے کہ اس کے باوجود ملک میں دھماکے اور دہشت گردی کیوں ہو رہی ہے۔ عقل کے ان اندھوں کو  ادراک ہی نہیں کہ محشر کی اس گھڑی میں  یہ سویلین حکومتوں کا فرض ہے کہ  نہ  صرف اس   مدافعت کو  قولاً فعلاً قوت مہیا کریں بلکہ ان تمام وسائل کو  بروئے کار  لائیں جس سے دہشت گردی کے اس عفریت پر قابو پایا جا سکے۔   ہو ، مگر اس کے الٹ رہا ہے کہ  سویلین حکومتیں نیشنل ایکشن پلان جیسے دہشت گردی کے خلاف بنے ہوئے منصوبے پر نہ صرف وسائل مہیا کرنے سے قاصر ہیں بلکہ اس کے سویلین نقاط پر عمل درآمد سے بھی  لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں افواج پاکستان کا نقصان توقع سے کہیں زیادہ ہے۔  افواج پاکستان اس وقت پاکستان کی  بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور مؤرخ لکھے گا کہ  جب وطن کے سپوت سر پر کفن باندھے دشمنوں سے برسر پیکار تھے  تب اس ملک کے حکمران   بعینہ نیرو بانسری بجا رہے تھے یا اپنی ’’محنت شاقہ کی کمائی‘‘ بچانے میں لگے تھے۔  یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جمہور پسندوں کا یہ اعتراض وزن رکھتا ہے کہ  ماضی میں یہی وہ ’’نان ا  سٹیٹ ایکٹر‘تھے  جنہیں ہماری مقتدرہ نے  پالا پوسا تھا،اسے ملک کی  دوسری دفاعی لائن بنانا چاہاتھا ، جو آج ہمارے گلے پڑی ہوئی ہے لیکن کیا کسی بھی جمہوریت  پسند یا محب الوطن کو یہ  زیب دیتا ہے کہ کل تک جس پالیسی کی مخالفت کی جا رہی تھی،آج جب اس کا قلع قمع ہو رہا ہے  تو فقط ماضی کی غلطی،حب  الوطنی پر غالب آ جائے ؟ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی پاکستانی حب الوطنی پر کسی غلطی کو   ترجیح دے   ماسوائے اشرافیہ جو  اس غلطی کی آڑ لے کر عوام الناس کو گمراہ کرے  کیونکہ اس کا نصب العین صرف اور صرف پاکستان کو لوٹنا ہے۔  اس وقت  جو جنگ لڑی جارہی ہے  وہ کلیتاً پاکستان کی بقا کی جنگ ہے   اور اس جنگ میں  وطن عزیز کے سپوت قوم کی جان،مال،آبرواور وطن کی  سرحدوں کی حفاظت  میں اپنی جانوں کا   نذرانہ پیش کررہے ہیں،اپنے وطن اور  ہموطنوں کی خاطر جان قربان کرنا، حق کی خاطر جان کی   قربانی ہے اور ہم راہ حق کے  ان شہیدوں کو  سلام پیش کرتے ہیں۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں