Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے تعاون ناگزیر

 پاکستان ، سعودی عرب اور ترکی کو خطرات سے نمٹنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون میں شریک ہونا ہوگا
 
محمد عتیق الرحمن ۔ فیصل آباد
 
عالم اسلام کے خلاف جہا ں اسلام دشمن قوتیں مصروف عمل ہیں وہیں اسلام کا لبادہ اوڑھے کچھ تکفیریت و خارجیت کے حامل لوگ بھی اسلامی ممالک میں کشت وخون میں مصروف ہیں۔عراق وشام کو تباہ وبرباد کرنے میں جہاں غیرمسلموں کا کردار ہے، وہیں ان لوگوں کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جو اپنے آپ کو خلافت اسلامیہ کا دعویدار سمجھتے ہیں ۔یمن میں حوثی قبائل کی طرف سے بغاوت اور پھر غیر ملکی امداد کے بل بوتے پر سعودی سرحد پر چھیڑ چھاڑ سے بڑھ کر مکہ مکرمہ کو میزائل سے نشانہ بنانے والے بدبخت بھی انہی کی قبیل سے ہیں ۔ داعش کے نام نہاد خلیفہ ابوبکر البغدادی نے آڈیوبیان میں اپنے کارکنان کو ترکی و سعودی عرب پر حملے کاحکم دیتے ہوئے کہا کہ ”سعودی عرب اور ترکی کو خون میں نہلادو“۔ بیان میں نام نہاد اسلامی خلیفہ البغدادی نے مسلم ممالک کے متعلق کہا کہ ”سعودی عرب کے مسلمان ، مسلمان کے بھائی نہیں“داعش جیسی تنظیموں کے نزدیک سعودی عرب ، ترکی اور پاکستان کی حکومت و عوام الناس مرتد ہیں اور واجب القتل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جو البغدادی کی خلافت کو نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ۔
 
عالم اسلام میں اس وقت سعودی عرب ،ترکی اور پاکستان ایسے ممالک ہیں جو عسکری لحاظ سے مضبوط ہیں اور ان میں امن وسکون دوسرے اسلامی ممالک کی نسبت قدرے بہتر ہے ۔پاکستان ایک عرصے سے تحریک طالبان پاکستان جیسی دہشت گردتنظیموں سمیت ملک دشمن عناصر سے نظریاتی وعسکری لحاظ سے نمٹ رہاہے ۔سعودی عرب یمن میں جاری حوثی بغاوت اور دہشت گردانہ کارروائیوں سے بخوبی نمٹ رہاہے اور دوسرے اسلامی ممالک کو ان خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے اتحاد واتفاق کی دعوت دے چکا ہے ۔ترکی میں حکومت کا مرحلہ وار اسلام کی طرف جانا اور شام میں کردوں و دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مجاہدین کی مدد کرنا اسلام دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔مکہ مکرمہ کی طرف بیلسٹک میزائل اور جدہ میں 11اکتوبر کو ہونے والے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان فٹبال میچ کے دوران خودکش دھماکوں کی منصوبہ بند ی کرنے والے داعش کے 10شدت پسندوں کی گرفتاری ،کوئٹہ میں ہوئے پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ اور پھر ہندوستانی سفارتکاروں کا جاسوسی میں ملوث ہونا اور ترکی کے ضلع حقاری میں گرفتار کئے گئے دہشت گردوں سمیت دیگر اسی طرح کے واقعات جہاں اسلامی ممالک کے امن کو ختم کرنے کی کوشش ہے، وہیں اسلام مخالف لابی کے ہاتھ مضبوط کرنے والی بات بھی ہے۔ یمن کے حوثی جہاں عملی طور پر مسلمانوں کے مقد س ترین مقام کے خلاف ایرانی ایما ء پر حملہ کرچکے ہیں، وہیں داعش بھی سعودی عرب کے خلاف حملوں کا عملی طور پر اعلان کرچکی ہے۔کشمیر و فلسطین اور برما سمیت دیگر ممالک میں مسلمانوں پر جو مظالم ہورہے ہیں ،ان کی طرف ان انتہا پسند تنظیموں کی توجہ صفر ہے جبکہ جہاں مسلمان امن سے رہ رہے ہیں وہاں انہیں واجب القتل قرار دے کر دھماکے کرنا پرانا وتیرہ ہے ۔شام میں بشارالاسد کو جب شکست کے آثار نظر آرہے تھے ، تب داعش کا اس معاملے میں داخل ہونا اور مسلم تنظیموں کو تختہ مشق بنانا کس طرف اشارہ کرتا ہے ؟پاکستان لمبے عرصے سے داعش ،ٹی ٹی پی اور ملک دشمن عناصر کے خلاف حالت جنگ میں ہے ۔ترکی کو کردوں اور شام میں جاری جنگ کی وجہ سے خطرات لاحق ہیں تو سعودی عرب کو یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں سے خطرہ ہے۔ ایسے میں ان ممالک کو باہمی تعاون کو مزید بہتر سے بہتر بنانا ہوگا ۔ پاکستان ، سعودی عرب اور ترکی جیسے مسلم ممالک کو اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ عملی تعاون میں شریک ہونا ہوگا ۔
 

شیئر: