Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عربی سیکھنے کے لئے آسان اسباق پر مشتمل سلسلہ شروع کیا جارہا ہے۔ جو اردو داں طبقے کیلئے معاون ثابت ہوگا

قرآن پاک کے نزول پر 14صدیاں گزرچکی ہیں لیکن اس میں استعمال ہونے والی عربی زبان اپنے نزول کے وقت بھی عربی ادب کا شاہکار تھی اور آج بھی ہے ۔ 14صدیاں گزرجانے پر بھی عربی زبان کا معیار فصاحت وہی ہے جو قرآن پاک کے نزول کے وقت تھا۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جو چودہ ، پندرہ صدیوں تک املاء، انشاء، محاورے قواعدِ زبان اور استعمال الفاظ میں ایک شان پر باقی رہ گئی ہو۔ آج بھی عربی کا کوئی لفظ متروک نہیں اور اس کا ایک قاعدہ بھی ایسا نہیں جو ناقابل استعمال ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ عربی مولویوں کی نہیں بلکہ ہمارے آقا اور رہبر محمد رسول اللہ اور آپ کے جان نثار صحابہ رضی اللہ عنہم کی زبان ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے محبوب رسول اللہ کی زبان ہے۔

آئیے اپنے مصروف اورقیمتی اوقات میں ہر روز صرف ایک گھنٹہ یہ زبان سیکھنے کیلئے خاص کرلیجئے جو اللہ کی کتاب، رسول اللہ کی سنت ، فقہ اور اسلامی تاریخ کی زبان ہے۔ تاکہ آپ براہ راست اور ترجموں کا سہارا لئے بغیر قرآن پاک اور حدیث شریف کا مطالعہ کرسکیں اور بذات خود دینی تعلیمات اور احکام معلوم کرسکیں۔یہ عربی سیکھنے کیلئے پہلا سبق ہے

دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح عربی زبان میں بھی انسان جو بات بولتا ہے وہ دوطرح کی ہوتی ہے یا تو وہ بات مکمل اور سننے والے کیلئے مفید ہوگی یا نا تمام اور غیر مفید۔ اگر بات مکمل اور مفید ہے تو اس کو جملہ یا کلام کہتے ہیں جیسے:

حان وقت الصلاۃ: نماز کا وقت ہوگیا

نجح خالدٌ فی الاختبار : خالد امتحان میں پاس ہوگیا

طلع ھلالُ العید: عید کا چاند نکل آیا

استسلم العدو : دشمن نے ہتھیار ڈالدئیے

اور اگر بات نامکمل اور غیر مفید ہو تو اس کو لفظ یا کلمہ کہتے ہیں۔ جیسے:

فعل : کیا، صام :روزہ رکھا، ذھب چلاگیا، یکتب : لکھ رہا ہے، یصلی: نماز پڑھ رہا ہے۔ الشمس: سورج، القمر: چاند، رَجلُ مرد، امرأۃ: عورت، مدینۃٌ: شہر ، قریۃٌ : گاؤں، مِن سے، إلی تک، علی پر

ان مثالوں میں ابھی آپنے تین طرح کے الفاظ دیکھے ہیں فعل، اسم اور حرف

یعنی عربی میں نامکمل اور غیر مفید بات لفظ یا کلمہ کی تین قسمیں ہیں: فعل ، اسم اور حرف

’’فعل‘‘ سے مراد ایسا لفظ یا کلمہ ہے جس میں کرنے یا ہونے کا مفہوم ہو اور اس سے کسی وقت یا زمانے پر بھی دلالت ہوتی ہو لیکن یہ تنہا کوئی مفید یا مکمل مفہوم یا معنی نہ دیتا ہو جیسے:فَھم، سافر، رجع سمجھ گیا، سفر کرگیا اور واپس آگیا۔ ان تینوں الفاظ میں سے ہر لفظ دو چیزوں پر مشتمل ہے ۔ یعنی سمجھنے، سفر کرنے اور واپس ہونے کا مفہوم اور یہ کہ سمجھنے ، سفر کرنے اور واپس ہونے کا یہ عمل ماضی کے زمانے میں وقوع پذیر ہوا لیکن ان تینوں الفاظ میں سے کسی بھی لفظ سے مکمل اور مفید بات نہیں معلوم ہوتی: یعنی کون سمجھ گیا اور کیا سمجھ گیا، کون سفر پر روانہ ہوگیا اور واپس آگیا۔ کلمہ یا لفظ کی دوسری قسم ہے : ’’اسم‘‘ یہ لفظ اردو داں افراد کیلئے عام فہم ہے جو لوگ انگریزی جانتے ہیں ۔ وہ انگریزی میں اس کا مترادف جانتے ہوں گے (Noun) اسم ایسا لفظ یا کلمہ ہے جو کوئی مفرد مفہوم یا معنی تو رکھتا ہو لیکن اس میں کسی وقت یا زمانے کا مفہوم نہ ہو اور وہ بھی کسی دوسرے لفظ سے ملے بغیر مکمل یا مفید مفہوم نہ دے سکے ۔ جیسے نحاسٌ : پیتل، بیتٌ: گھر، جَمَلٌ :اونٹ، مدینۃٌ :شہر، یدٌ : ہاتھ، رِجُلٌ: پاؤں، جدہ: ایک شہر کا نام، زیدٌ ایک مرد کا نام وغیرہ یہ تو وہ اسماء تھے جن کو ہم محسوس کرتے ہیں۔ اسماء میں وہ چیز یں بھی داخل ہیں جن کو ہم محسوس نہیں کرتے بلکہ ان کا ادراک بذریعہ عقل کرتے ہیں جیسے: شجاعۃٌ :بہادری، شرف، راستبازی، نُبلٌ شرافت، عالی ظرفی، نُبُوغ برتری غیر معمولی ذہانت کا مالک ہونا وغیرہ۔ ’’حرف‘‘ سے مراد ایسا لفظ یا کلمہ ہے جو تنہا کوئی مفید یا غیرمفید معنی نہ رکھتا ہو اور نہ اس میں وقت یا زمانے کا مفہوم شامل ہو بلکہ وہ جملہ میں شامل ہونے کے بعد کوئی مفہوم دیتا ہو۔ حرف سے مراد حروف تہجی نہیں بلکہ وہ مفرد یا مرکب حروف ہیں جو جملہ میں فعل یا اسم پر داخل ہوکر نیا مفہوم ادا کردیتے ہیں جیسے : من :سے، إلی : تک یہ دونوں الفاظ انفرادی طور پر لایعنی سے لگتے ہیں لیکن سافرت من جدہ إلی القاھرۃ میں نے جدہ سے قاہرہ تک کا سفر کیا۔ اس جملہ میں ان دونوں کے استعمال سے ایک مفہوم پیدا ہوگیا اور وہ یہ کہ میرا سفر جدہ سے شروع ہوا اور قاہرہ پر ختم ہوگیا۔ آج کا سبق اسی پر اختتام ہوتا ہے دوسرے سبق میں اسم کے موضوع پر گفتگو کرین

شیئر: