ایم کیو ایم پاکستان مشکلات کا شکار ہے، چپقلش کھل کر سامنے آگئی ہے، اُن سے انتخابات میں بڑی توقع کرنا بے سود ہوگا
صلاح الدین حیدر
انگریزی میں ایک کہاوت ہے ”He came, he saw and he conquered“۔ بعینہ کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں 24 دسمبر کے جلسے میں ہوا۔ پاک سرزمین پارٹی نے کمال مہارت سے نہ صرف جلسہ لوٹ لیا بلکہ لوگوں کے دلوں پر چھا گئے۔ انہیں میدان سیاست کے خارزار میں قدم رکھے ہوئے محض دو سال سے بھی کم عرصہ گزرا ہے۔ اتنی قلیل مدت تو انسان کو اپنی پہچان کروانے میں صرف ہوجاتی ہے لیکن اس نوجوان (مصطفیٰ کمال) نے جس تیزی سے ترقی کا سفر طے کیا اور اپنی ہمت اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا، اُس سے انکار کرنا سراسر ناانصافی ہوگی۔ وہ آج سے 13 سال پہلے سندھ کی کابینہ میں میرے ساتھ تھے، انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسا اہم قلمدان اُن کے پاس تھا۔ پھر صرف 2 سال کے بعد وہ کراچی کے میئر منتخب ہوگئے اور 2010 تک اپنی لگن، محنت، جانفشانی سے اُنہوں نے اہلیان کراچی کے ہی دل نہیں جیتے بلکہ دُنیا بھر سے اپنی قابلیت کا لوہا منوالیا۔ ”ٹائمز“ جیسے موقر میگزین نے اُنہیں دُنیا کے 10 بہترین میئرز کی فہرست میں ڈال کر، نہ صرف اُن کا، اُن کی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ بلکہ پورے پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا۔ شومئی قسمت یہی کہیے کہ چند ہی برسوں میں وہ خدمتِ خلق کے چیئرمین مقرر ہوئے اور سینیٹر کے اعزاز سے نوازے گئے۔ مصطفی کمال کی فطرت جولانیت اپنے کام میں رکاوٹ اور بے جا مداخلت کے شروع سے ہی خلاف تھی۔ وہ، ابھی جوانی کے مراحل میں ہی ہیں، پارٹی میں اختلافات کی وجہ سے بانی ایم کیو ایم سے اَن بن ہوئی اور انہوں نے ایک رات خاموشی سے سینیٹ اور خدمتِ خلق کے عہدے سے مستعفی ہوکر دبئی میں نوکری کرنے کو ترجیح دی۔ یہ اُن کی اعلیٰ ظرفی کی عکاسی کرتا ہے۔ دبئی میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد وہ ایک دم مارچ 2016ء میں کراچی واپس آئے اور اپنے ساتھ انیس قائم خانی کو ملاکر ایک نئی پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ نیتیں صاف ہوں تو قدرت بھی مدد کرتی ہے۔ بہت جلد اُن کی پارٹی مقبولیت کی حدوں کو چھونے لگی لیکن سفر آسان نہیں بلکہ طویل اور دشوار گزار تھا۔ مصطفی کمال نے اعلیٰ حوصلگی اور ہمت سے مشکلات کا مقابلہ کیا اور آج اُن کی پارٹی کا پیغام ملک کے کونے کونے بلکہ بیرونِ ملک بھی پھیل چکا ہے۔ ایک شعلہ بیان مقرر کی حےثےت میں مجھے کئی بار اُنہیں سننے اور بالمشافہ گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے، ویسے بھی یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ روزِ اوّل سے ہے اور شاید رہتی دُنیا تک قائم رہے۔ کراچی سے چترال تک اور مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریک تک اُنہوں نے محنت سے بہت جلد ہی مقبولیت کمالی۔ یہی اُن کی گوناگوں صلاحیتوں کا ثبوت تھا بلکہ ہے۔
مجھے کبھی کبھی یہ خیال بھی آتا تھا کہ مصطفی کمال نے علیحدہ پارٹی بنا کر ایم کیو ایم اور مہاجروں کو نقصان پہنچایا ہے لیکن قدرت کے کھیل عجیب ہی ہوتے ہیں، اﷲ تعالیٰ کو جس سے جو کام لینا ہوتا ہے، اُسے اُسی سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ ایم کیو ایم کی کئی ایک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنی اصل پارٹی (جو 22 اگست 2016 ءکے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے جانی جاتی ہے) چھوڑ کر پی ایس پی سے آملے۔ پاک سرزمین پارٹی (جس کے وجود کو کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا) نے اپنے جھنڈے گاڑ دیے، ہر جگہ مقبولیت سے ہمکنار ہوئی۔ یہاں تک تو صحےح تھا لیکن دل میں ایک خلش تھی کہ مہاجر طبقے یا ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کو جو بانی متحدہ نے اپنی ہمت اور لگن سے ہمکنار کیا تھا، اُن کی شناخت کا لوہا دُنیا بھر میں منوایا تھا، وہ کسی انجانے خطرے سے دوچار ہوتا نظر آرہا تھا۔ شومئی قسمت کہیے یا میری کم عقلی، میں تذبذب میں مبتلا تھا کہ آخر مہاجر قوم تقسیم ہو گئی تو اُن کا پُرسان حال سوائے خدا کے اور کوئی بھی نہیں ہوگا۔ مثل مشہور ہے کہ جن کا ناخدا نہیں ہوتا اُن کا خدا ہوتا ہے، اﷲ تعالیٰ خود سے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کردیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہمتِ مرداں مدد خدا۔ یہی کچھ مصطفی کمال کے ساتھ ہوا۔ محنت اور لگن رنگ لائی اور 24 دسمبر کو لیاقت آباد فلائی اوور میں ایک شاندار جلسہ ہوا۔ میں خود بھی وہاں بھیڑ میں موجود تھا۔ یقین مانئے کہ میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ قسمت کی دیوی مصطفی کمال پر بھرپور طریقے سے مہربان ہوچکی تھی۔ لیاقت آباد کے جلسے کو کراچی کی آواز سے پکارا گیا۔ میں خود بھی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ کراچی کے بارے میں پی ایس پی کے رہنما آخر کتنا کچھ کہہ سکیں گے۔ یہ شہر تو ایم کیو ایم کے ہاتھ سے نکلتا ہوا نظر آرہا تھا۔ ایم کیو ایم پاکستان، جو بانی متحدہ سے رابطہ منقطع کرکے، مشکلات کا شکار ہوگئی تھی، وہ روز ہی نت نئے مسائل سے دوچار نظر آتی تھی۔ بے یقینی کی کیفیت میں کراچی کی 20 قومی اسمبلی اور 42 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر نظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی، تحریک ِ انصاف، جماعت اسلامی اس کی تکا بوٹیاں کرنے پر تلی دِکھائی دیتی تھیں۔ اگر ایم کیو ایم واحد نمائندہ جماعت بن کر اُبھری تھی تو آنے والے دنوں میں اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ یہ سوال مستقل درد سر کا باعث تھا، میرے ہی لیے نہیں ہر اُس شخص کے لیے جو اپنے مہاجر ہونے پر فخر محسوس کرتا ہو۔ جماعت اسلامی تو خیر کم از کم میری نظر میں کسی گنتی میں نہیں تھی۔ دینی جماعتوں کو ویسے بھی بڑے شہروں سے ووٹ نہیں ملتے۔ معاشی نعروں پر لوگ سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے لے کر آج تک کبھی دینی جماعتیں 7/8 سے زیادہ نشستیں نہیں جیت سکیں، لیکن پی ٹی آئی اور پی پی پی اپنی نگاہیں کراچی کی نشستوں کی طویل فہرست پر گاڑھے ہوئے تھیں اور اگر نشستیں تقسیم بھی ہو جاتیں تو حیرت کی بات نہ ہوتی۔
لیکن یہی قدرت ہے کہ ذرّے کو چمکا دے۔ پی ایس پی کا جلسہ لیاقت آباد میں تاریخی تھا۔ ایک جم غفیر، انسانوں کا سمندر ڈیڑھ دو میل، بلکہ حد نظر تک پھیلا ہوا تھا۔ لوگوں میں جوش و خروش دیدنی تھا۔ مصطفی کمال مجھے اُس رات ایک نئے روپ میں نظر آئے۔ شعلہ بیانی، پھر بغیر سانس لیے برق رفتاری، روانی سے جملے اُن کی زبان سے ادا ہورہے تھے۔ یقین مانئے میں حیران تھا کہ کیا کوئی دوسرا ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوگیا ہے۔ تقریر میں بلا کی سی تیزی ہی نہیں ایک مسلسل نہ ٹوٹنے والا ربط تھا۔ انتہائی موثر انداز میں اُنہوں نے کراچی کے ساتھ ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کا ذکر کیا اور ڈیڑھ گھنٹے تک بغیر کسی جھجک اور سوچ بچار کے بولتے ہی چلے گئے۔ آج ایک نیا مصطفی کمال پیدا ہوچکا تھا۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ میں ایک آسمانِ سیاست پر اُبھرتا ہوا بلکہ جگمگاتا ستارہ دیکھ کر حیران تھا۔ پاکستانی قوم کو ایک نیا لیڈر میری نظر میں تو مل چکا تھا۔ ایم کیو ایم پاکستان ویسے بھی مشکلات کا شکار ہے، فاروق ستار اور عامر خان کے درمیان چپقلش اب کھل کر سامنے آگئی ہے، ایسے میں اُن سے انتخابات میں کوئی بڑی توقع کرنا بے سود ہوگا۔ پھر بھی ابھی 5/6 مہینے باقی ہیں۔ ہوسکتا ہے ایم کیو ایم کی آپس کی ریشہ دوانیاں ختم ہوجائیں، گو اتنا آسان نظر نہیں آتا۔ ایسے میں مصطفی کمال ایک اُمید کی نئی کرن بن کر اُبھرے ہیں۔
********