Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بابا رحما

***جاوید اقبال***
ہزاروں حوادث ہیں ، ہزاروں مناظر ہیں جو پاکستانی نظام عدل کی بے بسی اور ضعف کا چیخ چیخ کر اعلان کرتے ہیں۔ اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ عدل کو آج وکلاء کی لفاظی اور موشگافیوں نے موم کی ناک بنادیا ہے۔ ہزاروںواقعات ہیں لیکن میں صرف چند ایک کا ذکر کروں گا۔
سب سے پہلے ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کے ایک موضع میر والا کی بات کروں گا۔ جون 2002  کے ایک دن وہاں پنچایت بیٹھی۔ فیصلے اور روایت کے مطابق تتلہ قبیلے کی ایک خاتون مختار مائی کو طلب کیا گیا اور اسے حکم سنایا گیا کہ وہ اپنے 12 سالہ بھائی کی ایک مبینہ بداخلاقی پر مستوئی قبیلے سے معافی مانگے۔ لیکن مستوئی قبیلے کے افراد نے اس کی معافی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ پنچایت نے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی اور نیا حکمنامہ جاری کیا۔ اس پر عمل کیا گیا اور مستوئی قبیلے کے 6 افراد نے پنچایت کے دس گواہوں کے سامنے خاتون کی احتماعی بے حرمتی کی۔ قبائلی رواج کے مطابق اس وحشتناک واقعے کے بعد مختار مائی کوخود کشی کرلینی چاہیئے تھی لیکن اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کے بجائے اس حیوانیت کے خلاف آواز بلند کردی۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ مقدمہ چلا اور یکم ستمبر 2002 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 6 ملزموں کو سزائے موت سنادی۔ 8 افراد کو بری کردیا۔ صرف دو دن بعد 3 ستمبر کو متاثرہ خاتون نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی۔ہائی کورٹ کے ملتان بنچ میں شنوائی ہوئی۔ ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر ہائیکورٹ نے 6 میں سے 5 ملزموںکو بری جبکہ ایک کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔ مختاراں مائی اور حکومت نے اب کے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس نے سارے 14 ملزموں کے مقدمے کی دوبارہ شنوائی کا فیصلہ دیا۔ وقوع سے 8 برس بعد 2011 میں سارے ملزم بری کردیے گئے۔ عدالت میں وکلائے صفائی کے لفظی کھلواڑ اور ایف آئی آر کے کونوں کھدروں میں پوشیدہ خامیوں کی جراحی نے حرمت قانون اور احترام انسانیت کی دھجیاں اڑادی تھیں۔ مظلومہ مکمل 8 برس اٹھتی انگلیوں کا ہدف بنتی رہی اور اب ساری عمر کے لیے عذاب جاں اٹھائے رہے گی۔ سپریم کورٹ میں شنوائی کے دوران مختاراں مائی کے چچا کو اس وقت کے وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار سردار عبدالقیوم جتوئی کی طرف سے دھمکی آمیز پیغام ملا تھا کہ متاثرہ خاتون مقدمے کی پیروی سے کنارہ کش ہوجائے۔ سپریم کورٹ سے کبھی اس کے حق میں فیصلہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مختاراں مائی نے تو عدالتی کارروائی سے دستکش ہونے سے انکار کردیالیکن جتوئی قبیلے نے سپریم کورٹ کے ہاتھ باندھ دیے۔ ملزم معصوم قرار دیے گئے۔
پھر دوسرا واقعہ کالج کی ایک طالبہ کا ہے۔ مظفر گڑھ کی آمنہ بی بی 5 جنوری 2014 کو کالج سے گھر جارہی تھی کہ 5 افراد نے بندوق کے زور پر اسے اغوا کرلیا۔ ہمراہ بھائی تھا لیکن وہ اکیلا کچھ نہ کرسکا۔ اغوا کاروں نے اجتماعی آبروریزی کے بعد بچی کو چھوڑ دیا۔  سٹی پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر یوں کاٹی گئی کہ عدالت میں ملزموں کے وکیل نے مدعیہ اور گواہوں کے بیانات کا تیا پانچہ کرکے رکھ دیا۔ الفاظ کے مختلف زاویے تراشے گئے ، اغوا کے چشم دید گواہوں کی صحیح الدماغی پر شکو ک کھڑے کئے گئے۔ 4 مارچ کو جب عدالت نے فیصلہ سنایا تو 18 سالہ مظلومہ مقدمہ ہار گئی۔ مجرمین معصوم قرار پائے۔ جب پانچواں مجرم مظفر گڑھ کے سٹی پولیس اسٹیشن سے آزاد ہوکر مسکراتا باہر آیا تو آمنہ بی بی صدر دروازے پر کھڑی تھی اس کے ہاتھ میں پیٹرول کا ڈبہ تھا۔ اس نے اپنے بدن پر پیٹرول گرایا اور اپنے آپ کو آگ دکھادی ۔ نیم جان پگھلے بدن کو راہگیروں نے اسپتال پہنچایا لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ اسپتال میں اس معصوم مظلومہ کا سوختہ بے جان بدن قانون کے ہرکاروں اور محافظوں کے لیے ایک بہت بڑا سوال چھوڑ رہا تھا۔ جرم ہوا تھا، مجرم بھی تھے ، سزا نہیں تھی۔
پھر ایک اور واقعہ بھی ذہن میں چنگاریاں بھرتا ہے۔ 24 دسمبر 2012 کی شام یونیورسٹی کا ایک طالب علم شاہ زیب خان اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ گاڑی میں اپنی ایک اور ہمشیرہ کے ولیمے سے گھر کی طرف جارہا تھا کہ قریب سے گزرتی ایک اور گاڑی کے ڈرائیور نے انہیں تنگ کرنا شروع کردیا۔ وہ گاڑی ایک وڈیرے سراج تالپور کی تھی اور وہ ناپسندیدہ حرکت اس کا ڈرائیور غلام مرتضی لاشاری کررہا تھا۔ بات بڑھ گئی۔ شاہ زیب خان اور سراج تالپور میں خاصی گرما گرمی ہوئی تب شاہ زیب کے والد اورنگزیب خان وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے صلح صفائی کراکے بات آئی گئی کرادی لیکن بات آئی گئی نہ ہوئی۔ سندھی وڈیرے سے تُوتکار کی ، سزا لازم ٹھہری تھی۔ سراج تالپور اور اس کے دوست شاہ رخ جتوئی نے شاہ زیب خان کا پیچھا کیا اور اسے گولیوں سے بھون دیا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلا۔ جتوئی کو سزائے موت جبکہ تالپور اور لاشاری کو عمر قید کی سزا سنادی گئی۔وکلاء کے بھاگ جاگ اٹھے۔ دن رات ایک ہوئے دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر ہزاروں ایکڑ کچے کے مالک اسکندر جتوئی کے بیٹے کو سزائے موت؟ قانونی سقم ڈھونڈھے گئے اور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی گئی۔ اس دوران مقتول کے والدین پر دھونس جمانے  کے عمل کا آغاز کیا گیا۔ ہمارا بیٹا گیا تو تمہارا خاندان ختم کردیں گے۔ مقتول کے والد ریٹائرڈ ایس پی تھے۔ سمجھتے تھے کہ وطن عزیز میں اہل ثروت قانون کو موم کی ناک بنائے بیٹھے ہیں۔ کہاں ایک ازکار رفتہ معمولی پولیس کا ملازم اور کہاں اربوں ، کھربوں کا مالک۔ سودا ہوگیا۔20 کروڑ روپوں ، آسٹریلیا میں ایک فلیٹ اور کراچی میں ایک گھر کے عوض! دادگاہوں میں کیا رکھا ہے؟ پیشیوں میں عمر رائیگاں جاتی ، بیٹا تو گیا تھا، بیٹیوں کا کیا حشر کرتے! خط خاندان معدوم ہوجاتا! ہلانے کو تو کئی زنجیر عدل نہیں! تو جب یہ تینوںواقعات و سانحات میرے ذہن میں آتے ہیں تو بلاتاخیر امیر المومنین عمر ابن الخطابؓ کا خیال آتا ہے۔ اونچے لمبے قد کے تھے۔ بیت المال سے حصے میں ملی چادر ہمیشہ چھوٹی پڑتی ، گھٹنوںتک ہی پہنچتی۔ چنانچہ لوگ انہیں دور سے آتا پہچان لیتے۔ہمیشہ ہاتھ میں کوڑا رکھتے اور مجرم کو موقعے پر ہی بلاتاخیر سز ا دیتے۔ نہ وکیل ، نہ گواہ ، نہ جرح ، مثالی معاشرہ بنا ، سیدھا تیر !! اور پھر میرے ذہن میں خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آتے ہیں۔ شاہی خاندان کے نوجوان نے قتل کیا ، بلاتاخیر و بلاجبر و اکراہ غیرے فرمان الہی کے مطابق فیصلہ ہوا ، مقتول کے خاندان نے دیت کی بجائے قصاص پر اصرار کیا۔ امرملکی نے لواحقین کی رضا پر سب چھوڑا۔ 
چیف جسٹس ثاقب نثار اتنے غلط بھی نہیں۔انصاف فوری ہو اور ہونا بھی نظر آئے۔ ہمارے نظام عدل کو صراط مستقیم پر لانے کے لیے بابا رحما کا وجود اب اشد ضروری ہوگیا ہے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں