پچھلے ہفتے کینیڈا کی برف باری کے موسم کا ذکر کیا تھا ۔پورے ہفتے ٹورنٹو کے شہر مارکھم کے سڑکیں برف سے ڈھکی تھیں ۔بلدیہ روز صاف کرتی اور پھر چند گھنٹوں میں پھر برف پڑجاتی ۔ہائی ویز تو صاف ہوجاتے ،مگر اندر کی گلیاں اور سڑکیں برف سے ڈھکی رہتیں۔ ماہرین موسم کے مطابق سردیاں اور منفی درجہ حرارت کی وجہ سے برف باری اپریل تک رہے گی۔ہم کراچی کے رہنے والے اتنی سردیاںبرداشت نہیں کرسکتے خصوصاًبچے جوسارا دن اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہوں ،گھر پر رہنے سے بور ہورہے تھے ۔ایک دوست نے مشورہ دیا کہ چونکہ ایک ماہ تک کے قیام کا ارادہ تھا اور اسکولوں کی چھٹیاں 22دسمبر سے 2ہفتوں کیلئے ہونگی جس میں ابھی تک ایک ہفتہ باقی تھا تو دوست کے ساتھ کولمبیا کا پروگرام بنایا۔ یہاں درجہ حرات 20سینٹی گریڈ کی پیشن گوئی تھی لہذاایک ہفتہ دھوپ انجوائے کرنے کولمبیا کے سمندری ساحل جس کانام کارٹاجینا ہے روانہ ہوگئے۔ کینیڈا سے 6گھنٹوں کا ہوائی سفر کرکے شہرپہنچے ۔یہاں کی مقامی زبان اسپینش ہے۔ کولمبیا منشیات کے حوالے سے بہت بدنام ہے ۔خصوصاً اُس کا ایک شہر بگوٹا تو ڈرگ مافیا کا سب سے بڑا اڈا سمجھا جاتا ہے۔بہت سے جنگلات میں افیون کی بھر مار ہے ۔مقامی انتظامیہ ان سے واقف رہتی ہے اور پولیس مقامی طور پر اُن پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتی ہے۔ ان کا سیاست دانوں پر بھی بہت اثر ہے۔ خود حکومت ان سے ڈرتی ہے۔
امریکن پولیس نے مقامی پولیس کی مدد سے ان پر کئی بار ہاتھ ڈالاتاکہ امریکہ میں اس کی اسمگلنگ کی روک تھام ہوسکے مگر کولمبیا ،پانامہ، میکسیکو میں اس کو ناکامی ہی کہتے ہیں۔ ان اسمگلروں کے مخبروں کا جال مقامی پولیس میں بھی پھیلا ہوا ہے جو پیشگی اطلاع کردیتے ہیں ۔اس کی وجہ صرف وہی حال ہے جو ہماری پولیس کا حال پاکستان میں ہے ۔اتنی بھاری رشوت مقامی پولیس اور نارکوٹکس فورس کو بھتہ کی شکل میں ملتی ہیں جتنی ایک سال کی تنخواہ سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں ۔یہاں لڑکے لڑکیا ںاور درمیانی عمر کے لوگ شراب اورمنشیات کے عادی ہیں ۔سارا ساردن رات نشے میں دھت پڑے رہتے ہیں مگر جرائم زیادہ نہیں ۔خوبصورت لڑکیاں قانوناً اخلاق سوزی کرتی ہیں۔ اس کیلئے باقاعدہ ہرماہ لائسنس کی تجدید اور معائنہ کیا جاتا ہے اور سرٹیفکیٹ جاری ہوتا ہے۔ لازماً کوئی بیماری نہ لگے اس پر سختی سے عمل ہوتا ہے ۔ہر ٹیکسی ڈرائیور تھائی لینڈ کی طرح ایئرپورٹ سے ہوٹل جانے تک اس طرح کی پیشکش ضرور کرتاہے اور ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ یہاں یہ جرم نہیں ۔ چند سال پہلے اس سمندری ساحل پر دنیا بھر کے سربراہوں کی کانفرنس برائے انوائرمنٹ ہوئی تھی جس میں صدر اوباما سمیت سب اسی شہر میں آئے تھے اورسمندر کی تفریخ سے لطف اندوز ہوئے تھے ۔
الغرض ہم ہوٹل پہنچے۔ لائن سے 2اسٹار سے لے کر 5اسٹار تک ہوٹلوں کی قطار درقطار سمندر کے ساتھ ساتھ دور دور تک پھیلی ہوئی ہوٹلیںتھیں مگر امریکن اور کینیڈین باشندے بہت کم نظر آئے۔ اُس کی وجہ اس کی ریپوٹیشن بتائی جاتی ہے البتہ پڑوسی ممالک کے گروپس سے ہوٹل بھرے پڑے تھے۔ اس کی ایک وجہ مشکل سے 2فیصد عوام انگریزی جانتے ہیں ۔بازاروں میں بھی دوکاندارصرف اسپینش بولتے ہیں ۔مہنگائی زیادہ نہیں۔ شہر بہت خوبصورت ہے اور چاروں طرف سے سمندر نے گھیرا ہوا ہے ۔10 میل کے فاصلے پر خوبصورت جزیرے ہیں ۔پڑوسی ممالک میں جہاں جہاں سردیاں شروع ہوچکی ہیں، وہاں کے افراد خصوصاً یہاں کے موسم کو انجوائے کرتے ہیں ۔کولمبیا میں سردی جون ،جولائی اور اگست میںہوتی ہے۔سارا دن چھوٹی بڑی کشتیاں ان جزیروں پر آتی جاتی ہیں، پھر بڑے بڑے کروز بھی سارے دن کا ٹرپ کرواتے ہیں۔ کروز پر مقامی ڈانس دکھایا جاتا ہے۔کروز پر ہر قسم کی مشروبات پیش کی جاتی ہیں اور پھر کھانا بھی اس میں شامل ہوتا ہے ۔تقریباً 100امریکی ڈالر سے لے کر 250امریکی ڈالر تک کے ٹور ہوتے ہیں۔ آپ چاہیں تو رات جزیروں پر بھی گزار سکتے ہیں ۔ اس شہر میں حلال کھانانہیں ملتا البتہ ہم نے ایک ہفتہ مچھلی ،جھینگا ،سبزی اور دال پر گزارا کیا ۔ہر طرح کا پھل جس میں آم ،تربوز ،کیلا،پپیتہ ،ناریل تو ہرجگہ بھرا پڑا تھا۔ٹیکسیوں کی بھر مار ہے مگر میٹر کے بغیر حکومت نے کرائے فکس کردیئے ہیں ۔مہذب ڈرائیور مگر 10بیس میںسے ایک معمولی انگریزی سمجھنے والا ڈرائیور ملے گا۔ یہاں ایک ڈالر میں 3 ہزار مقامی پیسو(COP) آتے ہیں، ان کو بھی ڈالر کہا جاتا ہے ۔ہر رات ایک کونے سے دوسرے کونے تک اورڈائون ٹائون کی سیر کرانے کیلئے ہر 15منٹ کے بعد رنگ برنگی لائٹوں سے سجی بسیں3 گھنٹوں کا ٹور بھی سیاحوں کی کشش کا باعث ہے جو صرف 20امریکی ڈالر لے کر گھمایاجاتاہے۔ راستے میں سمندر پر واقع ایک قلعہ کی سیر کرائی جاتی ہے ۔پھر ڈائون ٹائون کی گلیوں کی سیر وہ بھی تانگوں میں بہت مزہ کراتی ہے ۔بہت خوبصورت چھوٹے چھوٹے مکانات، اُن کی سجاوٹ ر نگ روغن دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ۔بندہ 3گھنٹوں میں ان دلفریب نظاروں میں گم ہوجاتا ہے۔ بسوں میں بھی لڑکیاں ڈانس کرکے لبھاتی ہیں ۔سموسے ،شراب یامشروب مفت دیا جاتا ہے۔
ایئرپورٹ سمندری ساحل سے 10کلومیٹر پر واقع ہے۔ اگرچہ بہت بڑا نہیں مگرا س شہر میں آنے کیلئے بگوٹاکے ایئرپورٹ پرٹرانزٹ لازمی ہے جو بہت بڑا ہے جس میں 75کے قریب جہازوں کے برتھ ہیں۔ تقریباً ایک کلومیٹرلمبا ہے۔ بندہ پیدل چل چل کر تھک جاتا ہے ۔دنیا بھر کے جہاز بگوٹا ایئرپورٹ آتے ہیں ۔یہاں سے چھوٹے چھوٹے شہروں کو ملانے کیلئے چھوٹے جہازوں کا جال بچھا ہوا ہے ۔ہر سال ان گرم سمندری ساحلوں پر سیاحوں کی بھر مار رہتی ہے۔ خصوصاً یورپی ممالک میں جب سردیوں کا زور ہوتاہے اور یورپی شہروں میں گرمیوں کو گزارنے کیلئے امریکہ کے شمال،جنوب میں بنے اس اسپینش بولنے والوں کے ملک میں سستی اور میعاری تفریح کرنے کیلئے مجبوراً یہ سیاح آتے ہیں ۔ہم بھی ہفتہ بھر مختلف جزیروں پرکشتیوںاور کروزسے انجوائے کرتے رہے۔ایک بڑی خاص بات نوٹ کی۔ اس شہر میں رینٹ اے کار دنیا کے مہنگی ترین داموں میں ملتی ہے ۔200ڈالر سے لے کر 250ڈالر یومیہ ملتی ہے ۔غالباً یہاں کی عقلمند انتظامیہ نے ڈرائیوروں کو روزگار فراہم کرنے ک لئے ٹیکسیاں سستی اور رینٹ اے کار جان بوجھ کر مہنگی کر رکھی ہیں جو یقیناایک اچھا اقدام ہے۔ ہم بھی اپنے سمندروں کو کم از کم مقامی شہریوں کیلئے Developکریں ۔ہمارے سمندری ساحل کراچی سے گوادر اور ان سے ملحقہ علاقوں میں دینا کے کسی سمندری ساحلوں سے کم نہیں مگر افسوس مرکزی حکومت سے لے کر صوبائی حکومتیں عوام سے صرف اور صرف ٹیکس وصول کرنے میں لگی ہوتی ہیں ۔عوام کی خدمت تو صرف کاغذوں کا پیٹ بھرنے کیلئے کافی ہے۔ اسکی آڑ میں ٹیکسوں کا ملنے والا حصہ غبن کرنے کا وسیلہ ہے جو ایک ایک درجہ سے لے کر 22درجہ کے بیوروکریٹس ،کونسلر سے میئر،صوبائی ایم پی اے سے لے کر صوبائی وزراء ،مرکزی اسمبلی کے ممبران ،وزراء،سینیٹ کے اراکین سب مل کر کرپشن میں مبتلا ہیں ۔پورا نظام سب کرپشن کا جیتاجاگتا ثبوت ہے ۔پورا پاکستان اس میں، ہم سب عوام بھی شامل ہیں ، ملوث ہوچکا ہے ۔
خدارا عوام کے پیسوں کا کم ازکم 50فیصد ہی وہ ان کی فلاح وبہبود پر لگادیں۔ کچھ تو ان کو تفریحات میسر ہوجائیں۔ عوام تو بیچارے اپنی خواہشات کو دبئی ،تھائی لینڈ ،امریکہ اور یورپ میں جاکر انجوائے کررہے ہیں جو ہمارے اپنے ملک میں دستیاب ہیں ۔