Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہنگامے زاہدان تک پھیل گئے، زبردست جھڑپیں

تہران.... ایران میں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین نے متعدد پولیس تھانوں پر حملے کرکے انہیں آگ لگادی۔ سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد21 ہوگئی ہے جبکہ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ پاکستان کی سرحد کے نزدیک واقع ایرانی شہر زاہدان تک پھیل گیا ہے۔ سوشل میڈیا سائٹس بند کرنے کے بعد گوگل پر زور دیا جارہا ہے کہ وہ ایران میں اپنی پابندیاں ختم کرانے کیلئے آوازاٹھائیں تاکہ لاکھوںمظاہرین ایک دوسرے سے رابطہ کرسکیں۔ جیسے جیسے مظاہرے بڑھ رہے ہیں ویسے ویسے گرفتار شدگان کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ اب تک تہران سے 450افراد جبکہ اصفہان سے 100سے زائد افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل نے ان ہنگاموں کو ایرانی عوام کیخلاف نیابتی جنگ قرار دیا ہے۔ انقلابی گارڈز کے ترجمان کا کہناتھا کہ اسے ابھی تک ہنگامہ ختم کرانے کا کوئی حکم نہیں ملا لیکن اگر ملکی سلامتی کو خطرہ ہوا تو وہ ازخود فیصلہ کریگی۔ دریں اثناءملک کے کئی شہروں اور گاﺅں میں حکومت کی حمایت میں بھی مظاہرے کئے گئے ہیں۔ تہران کی انقلابی عدالت کا کہناہے کہ اگر مظاہرے بڑھتے ہیں تو اس میں شریک لوگوں کو اتنی ہی سخت سزا دی جائیگی۔ دریں اثناءایران کے رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ملک دشمن احتجاج کو ہوا دے رہے ہیں۔ انہیں اپنی حرکت سے باز آجانا چاہئے۔ مظاہرے شروع ہونے کے بعد یہ انکا پہلا بیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے دشمنوں نے رقم ، ہتھیار اور خفیہ اداروں سمیت مختلف ہتھکنڈوں سے حالات خراب کئے اور میں حالیہ واقعات کے بارے میں صحیح وقت آنے پر قوم سے خطاب کرونگا۔ صدر روحانی نے اعتراف کیا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کا مسئلہ بڑھ چکا ہے۔ایرانی قوم قانون توڑنے والی اقلیت سے نمٹ لے گی۔ ایران کے وسطی صوبے اصفہان میں واقع شہر قہدریا ن میں 5 مظاہرین ہلاک ہوگئے ہیں۔ 3 پولیس افسران کو بھی گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ اصلاح پسندوں اور بنیاد پرستوں کے ذرائع کے مطابق مظاہرین نے شہر کے ہال کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے بعد مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے اصفہان کے ایک اور شہر نجف آباد میں مظاہرین کیساتھ جھڑپوں میں ایک سکیورٹی اہلکار کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔ قھدریجان کے علاقے میں مظاہرین نے تھانے پر حملہ کرکے اس کی عمارت کو نذر آتش کردیا۔ سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی جس کے دوران شدید جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلادیں جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہوگئے۔کرمان شاہ میں بھی مظاہرین نے پولیس چوکی کو آگ لگادی۔ ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق نجف آباد میں مشتعل مظاہرین نے پولیس پر فائرنگ کرکے ایک اہلکار کو ہلاک اور 3 کو زخمی کردیا۔ مسلح افراد نے پولیس اور فوجی چوکیوں پر حملہ کرکے ان پر قبضہ کرنے کی بھی کوشش کی لیکن سیکیورٹی فورسز نے شدید مزاحمت کرکے انہیں پسپا کردیا۔دارالحکومت تہران میں بھی سیکڑوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور سرکاری پالیسیوں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ تاہم پولیس نے لاٹھی چارج اور واٹر کینن استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشرکردیا۔ مقدس شہر قم میں بھی مہنگائی اور اعلی حکام کی کرپشن کے خلاف بڑی تعداد میں شہریوں نے احتجاج کیا اور آمر مردہ باد کے نعرے لگائے۔ مظاہرین ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای مذہبی اسٹیبلشمنٹ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ایران کے سرکاری میڈیا اور حکام کے مطابق اتوار کو 10 افراد جب کہ پیر کو حمدان میں 3 افراد ہلاک ہوئے تاہم آزاد ذرائع کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تجزیہ نگار اسے 2009 ءکے بعد سب سے شدید احتجاج قرار دے رہے ہیں جب محمود احمدی نژاد کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے خلاف بڑی تعداد میں شہری سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ مظاہروں کی نئی لہر کی وجہ سے 1979 ءمیں انقلاب کے بعد ایران میں برسراقتدار آنے والی مذہبی اسٹیبلشمنٹ شدید دباو¿ میں ہے ۔

شیئر: