ہر شخص اپنے معمولاتِ حیات سے مکمل واقفیت رکھتا ہے ۔ اسی حوالے سے ہم یہ جانتے ہیں کہ جب گھر میں دھول ، مٹی، کاٹھ کباڑ قابل اعتراض حد تک زیادہ ہوجاتا ہے تو پھر ہر ذی فہم ’’یوم صفائی‘‘ مناتا ہے۔ اس مقصد کیلئے اکثر لوگ دفتر وغیرہ سے ایک دن کی رخصت اس طرح لیتے ہیں کہ اس سے اگلے دن ہفتہ وار چھٹی ہوتاکہ ایک کی جگہ 2چھٹیاں میسر آجائیں۔یوں ایک دن گھر میں صفائی کا کام،دوسرے دن مکمل آرام اور تیسرے دن دفتر روانگی برائے کام۔
جس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھر یا مکان میں موجود ساز و سامان پر دھول جمنے لگتی ہے ، کا ٹھ کباڑ میں ا ضافہ ہوتا ہے ، بالکل ا سی طرح انسانی ذہن میں بھی خیالات کی گرد جمتی ہے ،گاہے بری اور دلخراش باتیں سننے کو ملتی ہیں، ناانصافی اور ظلم و زیادتی کے واقعات و سانحات دیکھنے، سننے اور پڑھنے پڑ جاتے ہیں۔ انجام کار ذہنی فضا مکدراور دماغی ماحول آلودہ ہو جاتا ہے اور صفائی بے انتہاء ضروری ہو جاتی ہے۔1980ء کے اوائل میں ہم نے جب اپنی ان کیفیات کا ذکر اپنے استاد محترم منظور چوہدری سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جس طرح گھرکی ستھرائی کیلئے ہر نفیس ہستی یوم صفائی مناتی ہے اسی طرح ہر ذی فہم اور حساس انسان اپنے ذہن ، خیالات اور دماغی فضا کو آلودگی سے پاک کرنے کیلئے ’’یوم کُوک‘‘ مناتا ہے ۔ میں بھی جب معاشر ے میں اپنے چاروں سمت غربت و افلاس، جبر و استبداد، ناانصافی اور کسمپرسی دیکھتا ہوں تو ایک دن کی چھٹی لیتا ہوں، اپنے کمرے کے تمام کواڑ بند کرتا ہوں، روشنیاں گُل کر دیتا ہوں اور اندھیرے میں بآوازِ بلند ’’کُوکیں‘‘ مارتا ہوںجس کے باعث دل سے بھڑاس نکلتی ہے،آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں اور زبان سے جذبوں کے اظہار کیلئے ایسے الفاظ پھسلتے ہیں جن میں ’’ڑ، ٹ،ڈھ، پھ،دھ‘‘ جیسے حروف کا استعمال ضرور ہوتا ہے۔ ایسے الفاظ کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ انکی ادائیگی انسان کے غصے کو اس طرح ٹھنڈا کرتی ہے جیسے دہکتے انگارے کو یخ بستہ پانی ۔محترم منظور چوہدری نے کہا کہ’’یوم کُوک‘‘ ہمارا خاندانی وتیرہ ہے ۔ یہ اسی وقت منایاجاتا ہے جب حالات بہت ہی ناگفتہ بہ ہوں اور بہتری کی کوئی امید نظر نہ آ رہی ہوتاہم ہمارے دادا کے دور میں حالات اچھے تھے۔ سنا ہے انہوں نے مرنے سے ایک ماہ قبل ہی یوم کُوک منایاتھا۔ اسکے بعد ہمارے والد محترم نے 70سالہ زندگی میں کُل 7’’یوم کُوک‘‘ منائے۔ اس کے بعد ہمیں دیکھئے، ہر سال ’’یوم کُوک‘‘ منانا پڑ رہا ہے ۔
محترم ایم چوہدری سے ہماری اس گفتگو کو آج 38واں سال شروع ہو چکا ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ ہم ہر ہفتے ’’یوم کُوک‘‘ مناتے ہیں۔ ہمیں خیال آتا ہے کہ ہماری اولادکو یہ دن روز منانا پڑے گا اور اولاد کی اولاد کو؟؟؟؟بہر حال ہم نے بروز ہفتہ یوم کُوک منایا، بند اور اندھیرے کمرے میں خوب کوکیں مار مار کر روئے۔اس کا سبب بھی ایک واقعہ تھاجو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا تھا۔ ہوا یوں کہ ہمارا ایک دوست’’ للوللیانوی‘‘تھا۔ ہماری راہیں 13ویں جماعت سے پہلے ہی جدا ہوگئی تھیں کیونکہ ہم’’ بحرِ اخباریات‘‘ میں غوطہ زن ہوگئے تھے اور للیانوی کو چونکہ سیاستدان بننے کا جنون تھا اس لئے اس نے باقاعدہ طور پر پولیٹکل سائنس کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔وہ ہمیں روز ملتا اوربتاتا کہ’’ آج ہمارے ’’سیاسی سائنس‘‘کے استاد نے کیا کچھ سکھایا اور سمجھایا۔ للیانوی نے کہا کہ میرے استاد نے مجھے کسی بھی جلسے میں بحیثیت سیاستداں مہمان خصوصی بن کر نشست پر براجمان ہونے کی عملی تربیت دینے کیلئے 3روز کے بعد کا وقت دیا ہے۔ میں کلاس میں مہمان خصوصی بن کر آئوں گا اور اپنے 253طلبہ و طالبات کو عوامی جلسے کے شرکا ء سمجھتے ہوئے اسٹیج پر ’’تشریف فرما‘‘ ہوں گا۔ اس عملی مظاہرے میں مجھے تقریر کرنی ہوگی،ملک و قوم کی بہتری کے وعدے کرنے ہوں گے، اشعار سنانے ہوں گے مگر شرط یہ ہے کہ تقریر، وعدے اور شعر سب اپنے ہونے چاہئیں،ورنہ نمبر ایک نہیں ملے گا۔
للو للیانوی نے سبز واسکٹ سلوائی،سفید شلوار قمیص دھوبی سے دھلوائی، سیاہ موکیشن کفش فروش سے خریدی ،جناح کیپ دوست سے مستعار لی ،تقریر ابو سے لکھوائی ،اُجرتی شاعر سے انقلابی اشعار کہلوائے، خس کا عطر ہم سے مانگ لیا اور ’’سیاسی جلسے‘‘ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کیلئے پہنچ گئے۔ہم گھر پر انتظار کر رہے تھے کہ للیانوی آج بتائے گا کہ اسے عملی سیاست میں قدم رکھنے کی تربیت کیسی لگی ۔ہم صبح کے 11بجے چائے نوش کر رہے تھے کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ ہم نے جا کر دیکھا تو للو للیانوی سامنے کھڑا تھا۔ ہمیں دیکھ کرگلے لگ گیا اور ’’کُوکیں‘‘ مار کر رو پڑا۔ ہم نے سبب دریافت کیا تو کہنے لگا کہ استاد منظور نے جلسے کا ٹائم 8بج کر 15منٹ رکھا تھا، میں 8بجکر 17منٹ پر ہال میں داخل ہو ا اور سیدھا اسٹیج کی جانب بڑھا مگر استاد منظور نے مائیک تھام کر میری سرزنش شروع کر دی۔ انہوں نے کہا کہ جو شخص قوم کو اپنی آمد کے انتظارکا کرب جھیلنے کیلئے چھوڑ دے وہ سیاستدان نہیں گھسیارا ہونے کے قابل ہے۔للو نے کہا کہ میں نے دوسرے مائیک پراپنے ا ستاد اور تمام ساتھیوں سے معذرت کی ۔ اسکے بعد میں نے لکھی ہوئی تقریر پڑھنی شروع کی تو استاد نے مجھے ڈانٹا کہ تم تقریر کسی سے لکھوا کر لائے ہو، اسی لئے پڑھنی پڑ رہی ہے، خود کسی قابل ہوتے تو زبانی خطاب کرتے۔میں نے پھر معذرت کی۔ تقریر کے دوران وعدہ کیا کہ میں تمام شہروں میں سڑکیں بنوائوں گا، روٹی ، کپڑا اور مکان جیسی ضروریات بہم پہنچاؤں گا، بیروزگاری ملک سے بھگائوں گا، خواتین کو ہر شعبے میں آگے لائوں گا۔ ابھی میرے وعدوں کی فہرست کا بیان جاری تھا کہ استاد منظور نے جھاڑ پلائی کہ یہ سب گھسے پٹے اور بدنام وعدے ہیں جو آج تک کسی سیاسی رہنما نے پورے نہیں کئے، رٹو توتے نہ بنو، سیاستداں بن کر خطاب کرو۔ اب میں نے شعر پڑھا:
بھیا کا تو ہوںبھائی ، بہنوئی کا سالا ہوں
تم سب مرے ووٹر ہو،میں خادم اعلا ہوں
یہ شعر سنتے ہی ایک محترمہ نے بآوازِ بلند فرمایا کہ یہ شعر تو میرے ابا نے کل ہی لکھا تھا۔ یہ سن کر تو استاد منظور سیخ پا ہوگئے اور آئو دیکھا نہ تائو، مجھے گریبان سے گھسیٹتے ہوئے ہال سے باہر لے گئے اور فرمایا کہ اگر آئندہ میں نے تمہیں سیاسی میدان میں کہیں دیکھاتو جان سے مار دوں گا۔ بس اُس دن دھتکارے جانے کے بعد سے میں نے سری پائے فروخت کرنے شروع کر دیئے ۔
کل ایسا ہوا کہ ایک اہم اجلاس تھا، سیاسی شخصیت مہمان خصوصی تھی۔ تمام شرکائے اجلاس ان کے منتظر تھے، ایک گھنٹہ تاخیر سے اجلاس شروع ہوا اور اعلان کیا گیا کہ محترم مہمان خصوصی ناگزیر وجوہ کی بناپر اجلاس میں شرکت سے قاصر ہیں۔ ان کی نیابت انکے ڈرائیور محترم کر رہے ہیں۔ہم نے منتظمین سے کہا کہ جناب ’’سیاسی سائنس ‘‘ تو یہ نہیں کہتی، انہوں نے کہا مگر یہ تو ’’سائنسی سیاست‘‘ ہے۔