Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مصلحتِ ایزدی

***جاوید اقبال***
اگر خالقِ کائنات کی طرف سے سنگ وخشت کو بھی دولت گویائی عطا ہوتی تو جانے کتنے راز ہائے سر بستہ زبانِ خلق پر نقارہ جا بنتے ۔ درودیوار سے پھوٹتی صدائیں کیسے کیسے فساد ِخلق کی بنیاد رکھتی ۔ کتنے عذابوں کو جنم دیتیں ۔ ریاض میں سفارتخانہ پاکستان کے دروبام بھی سیکڑوں ایسی داستانوں کے امین ہیں کہ اگر طشت ازبام ہوں تو خلقِ خدا و رطۂ حیرت میں پڑ جائے ۔ اسی ہال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مختلف ادوار کے حکومتی رہنما اور اعلیٰ عہدیداران اپنے ہم وطن پردیسیوں کے سامنے زورِ خطابت دکھاتے رہے ۔ ان کے شکوے سن کر وعدے و عید کرتے رہے اور پھر سفارتخانے کے صدر دروازے سے نکلتے ہی سب گفت و شنید طاقِ نسیاں کی زینت بنا دیتے رہے ۔ اسی آڈیٹوریم کے درودیوار نے دیکھا کہ شوکت عزیز آئے ۔ سفارتخانے کے فعال حکام نے مثالی پروٹوکول دیا ۔ شوکت عزیز پیشہ وارانہ مہارت سے پاکستان کے ماضی کی مالی بد حالی کا نقشہ کھینچتے رہے اور پھر اس کا واحد حل ٹریکل ڈائون اکانومی بتاتے رہے ۔ سامنے ہال میں بیٹھے پردیسی افتادگان ِ خاک پر اپنی مالیاتی حکمت عملی کے فوائد واضح کرتے رہے ۔ انکی حب الوطنی پر ثقف شگاف نعرے لگے ۔ سوالات ہوئے ۔ انہوں نے نہایت معاملہ فہمی سے جوابات دئیے اور سامعین کوشاداں و فرحاں چھوڑ انکی دعائیں سمیٹتے عازمِ وطن ہو گئے ۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد حکومت کی تبدیلی کے آثار ظاہر ہوئے ۔ موصو ف نے لمحہ آخر آنے سے پہلے ہی وزیراعظم ہائوس سے اڑان کا فیصلہ کیا ۔ حکومتی توشہ خانے میں وہ سارے تحائف جمع کرا دئیے جاتے ہیں جو مختلف اوقات پر حکمرانوں کو ان کے بیرونی دوروں میں میزبان حکمراں دیتے ہیں ۔ 
یہ سب تحائف حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں ۔ شوکت عزیز نے کروڑوں مالیت کی یہ اشیاء انتہائی کم قیمت پر خرید کیں اور جہاز بھر کر لندن پرواز کر گئے ۔ ٹریکل ڈائون اکانومی !توشہ خانے میں بقیہ وہی چھوڑا جو بے قدر تھا ۔ 
پھر ہمارے ایک وزیر برائے محنت و بیرونِ ملک پاکستانی ہوا کرتے تھے ۔ تقرر سے قبل لندن میں ایک ٹریول ایجنسی چلاتے تھے ۔ وہیں ایک سابق حکمران کی رفت و آمد کے انتظامات کرتے رہے اور انکے قریبی حلقے میں ’’اِن ‘‘ ہو گئے ۔ دن رات کی کورنش رائیگاں نہ گئی ۔ جب حضور کو دوبارہ حکومت ملی تو ان صاحب کو وزارت محنت و بیرون ملک پاکستانی سے سرفراز کر دیا گیا ۔ ایک جمعرات کی صبح بغیر پیشگی اطلاع دئیے ریاض پہنچ گئے ۔ سفارتخانے کے کمیونٹی ویلفیئر افسر بھاگے اور انہیں ائیرپورٹ سے ایک فائیو اسٹار ہوٹل لے آئے ۔ اختتامِ ہفتہ کی تعطیل تھی ۔سفیر محترم ریاض میں نہ تھے چنانچہ وزیر موصوف کو ائیر پورٹ پر خاطرخواہ پروٹوکول نہ مل سکا تھا ۔ وہ ا نتہائی برہم تھے اور سارا غصہ اور زبانِ غلیظ بے بس ویلفیئر اتاشی پر اتار رہے تھے ۔ پھر انہوں نے 2احکامات جاری فرمائے ۔ پہلا یہ کہ انکی ملاقات کسی سعودی وزیر سے کرائی جائے اور دوسرا یہ کہ سفارتخانے میں کمیونٹی سے انکے خطاب کے انتظامات کئے جائیں ۔ جمعہ کو مملکت میں تعطیل ہوا کرتی تھی اور سعودی یہ دن اکثر و بیشتر صحرا میں نصب اپنے خیموں میں بسر کرتے ہیں ۔ہماری آفت ناگہانی کیلئے کوئی سعودی وزیر کہاں سے دستیاب ہوتا ؟ سعیٔ بسیار کے بعد ایک نائب وزیر تعلیم سے رابطہ ہوا ۔ وہ گھر سے اپنے مخیم کیلئے نکلنے ہی والے تھے ۔ استدعا کی گئی کہ صحرا کو جاتے وقت کچھ لمحات ہمارے وزیر با تدبیر کے ساتھ بسر کرلیں۔ وہ بادلِ ناخواستہ رضا مند ہو گئے ۔ ملاقات انتہائی مختصر تھی ۔ انتہائی ضروری تصاویر تھیں جو بنیں ۔ اختتام ملاقات پر ارشاد ہوا کہ تصاویر ذرائع ابلاغ کو ارسال کی جائیں اور تفصیلی خبر یہ ہو کہ وزیر موصوف کی سعودی نائب وزیر تعلیم سے پاکستانی طلباء کی مملکت میں تعلیم کے موضوع پر انتہائی اہم ملاقات ہوئی ہے ۔حکم کی تعمیل ہوئی ۔ اسی سہ پہر جاں گسل مشقت کے بعد موصوف کے سفارتخانے میں خطاب کے انتظامات کرائے گئے ۔ بڑی دھواں دھار تقریر تھی ۔ 
تارکِ وطن ہم وطنوں کو سبز باغ دکھائے گئے ۔ انکی راحت و فرحت کیلئے مجوزہ حکومتی منصوبوں سے آگاہ کیا گیا ۔ وزیر محترم کو وطن عزیز میں ان مقیمین کے متعلقین کی حالتِ زار سے آگاہ کیا گیا ۔ پولیس ، عدالت ، اراضی پر قبضے ، اقرباء کے مظالم ، ہر موضوع زیر بحث آیا ۔ تفصیلی بات ہوئی ۔ وزیر مکرم رحمت کا فرشتہ بنے ہر شاکی کا گِلہ سنتے رہے ۔ اسے تشفی سے نوازتے رہے ۔ اسکی مدد کا وعدہ کرتے رہے ۔ قول دیتے رہے ۔ مظلوم سائلین کی اکثریت درخواستیں ہمراہ اٹھائے تھے جو وزیر موصوف نے کمال شفقت سے وصول کیں اور ان پر فوری کارروائی کرانے کا وعدہ فرمایا ۔ سفارتخانے کی گاڑیوں کا قافلہ انہیں بصد احترام ہوٹل لے گیا جہاں انہوں نے ڈیڑھ 2گھنٹے استراحت فرمائی ۔ پھر انہیں مقامی پرواز سے جدہ کیلئے روانہ کر دیا گیا ۔ عمرہ کی ادائیگی بھی فرض تھی ۔ اسی رات ہوٹل کے ایک پاکستانی ویٹر نے انکشاف کیا کہ جب عزت مآب وزیر کی روانگی کے بعد انکے کمرے کی صفائی کی گئی تو کوڑے کی ٹوکری میں وہ ساری درجنوں درخواستیں پڑی تھیں جو مظلوم افتادگانِ خاک نے ان کے دستِ کرم کے حوالے کی تھیں ۔ حکومتی تبدیلی کے بعد موصوف کچھ عرصہ بیروزگار رہے ،۔ آجکل ایک شمالی امریکی ملک میں ہمارے سفیر ہیں ۔ 
پھر ہمارے ایک اور وزیر محنت و سمندر پار پاکستانی تھے ۔ کراچی کی ایک مضبوط سیاسی جماعت سے تعلق تھا ۔ مملکت کے دورے پر تشریف لائے ۔پہلا پڑائو ریاض تھا ۔ سفارتخانے کے درو دیوار نے بڑا جذباتی خطاب سنا ۔ اپنے بدن توڑ کر وطن عزیز کی رگوں میں مالیاتی لہو دوڑانے والوں نے پھر امیدیں بیدار کر لیں اور جب وزیر موصوف نے اپنی مادری زبان اردو سے ہٹ کر پنجابی میں کہا ’’ ساہنوں وی آزمائو ‘‘ تو آڈیٹوریم کے سنگ وخشت نعروں کی گونج سے لرز اٹھے ۔ زندہ باد ! پائندہ باد!
لیکن انتظار بشارت نہ بن سکا ۔ حکومت تبدیل ہو گئی ۔ او پی ایف کی انتظامی کمیٹی کے ایک رکن محمد اصغر قریشی نے مجھے انہی وزیر دانشمند کے بارے میں واقعہ سنایا ۔ او پی ایف میں ایک جو نیئر اسامی کا اشتہار آیا ۔ اصغر قریشی نے اپنے گائوں کے ایک انتہائی مستحق امیدوار کی سفارش کی تو انہیں بتایا گیا کہ اس اشتہار کی اشاعت سے پہلے ہی عزت مآب وزیر اپنے ایک خاص آدمی کی اس اسامی پر تقرری فرما چکے تھے ۔ 
بندہ ہے کو چہ گرد ابھی خواجہ بلند بام ابھی !
مصلحت ِ ایزدی ہے کہ سنگ و خشت قوت گویائی سے محروم ہیں ۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں