Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حق کی حقانیت جاننے کیلئے ایمان ضروری ہے، فرحین سعد

 زینت شکیل۔جدہ   
خالق نے مخلوق کے لئے کائنات کو مسخر فرما دیا۔ جو اس میں پنہاں راز کو جان جاتے ہیں، پوری کائنات کو اپنے لئے سرنگوں کر لیتے ہیں ۔زندگی خوف و امید کے درمیان گزرتی ہے ۔کبھی خوف بڑھ جاتا ہے اور امید کم ہو جاتی ہے اور کبھی امید اس قدر بڑھ جا تی ہے کہ خوف 
محسوس نہیں ہوتا لیکن سب سے متوازن بات یہ ہے کہ امید میں خوف پنہاں ہو اور خوف میں امید موجود ہو۔ یہی زندگی کی اساس ہے۔ مالک حقیقی سے ڈرتے رہنا اور اسی سے ہر دعا مانگنا اور پھر قبولیت کا بھرپور یقین بھی رکھنا یہی ایمان کا مل ہے۔ 
ہوا کے دوش پر اس ہفتے ہماری ملاقات محترمہ فرحین سے ہوئی جو تزئین معاشرت میں مصروف عمل ہیں۔ انکا کہناہے کہ زندگی ہر 
دور ، ہرزمانے اور حتیٰ کہ ہر طبقے میں الگ الگ رنگوں میں سامنے آتی ہے اور ہر ایک کے مسائل کے انداز ایک دوسرے سے جدا جدا ہوتے ہیں ۔وہ اپنے نانا جان کی شخصیت سے جس قدر متاثر ہیں ،اسی قدر اپنے والد اور والدہ کی ذہانت کو بھی اپنی شخصیت میں سمونا چاہتی ہیں۔ انہی کی طرح مطالعے کی شوقین ہیں اور ایک دن میں ایک ضخیم کتاب پورے انہماک سے پڑھ کر مکمل بھی کرلیتی ہیں ۔محترمہ فرحین ، اس سلسلے میں اپنے تایا جان کا ذکر کرنا نہیں بھولیں جو ہر گرمیوں کی تعطیلات میں انہیں اردو بازار اور کتاب میلے میں لے جانا اپنے لئے ضروری خیال کرتے تھے ۔بچپن کی یادیں ایسی سیر وںسے بھرپور ہیں جہاںکتابوں کے حصول کے لئے کئی کئی گھنٹے ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے گزرتے اور بہترین کلیکشن حاصل کرنے میں بہرحال کامیاب رہتے اور اپنی کوشش کے بارآور ہونے کی خوشی اپنی جگہ ملتی کہ جوجو کتابیں ہماری درجن بھر دوستوں کے پاس ہونگی، وہ سب میرے پاس موجود ہیں بلکہ ان سے زیادہ ہی ہیں۔ 
اسے بھی پڑھئے:بچپن کی تربیت ذہن پر نقش ہوجاتی ہے،شمیم کاظمی
محترمہ فرحین نے اس بات کو بہت اہمیت کے ساتھ بتایا کہ ہماری سہیلیاں اور ہماری کلاس فیلوز جو کتابیں پڑہتیں ،ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ انہیںضرور شیئر کرتے اور کچھ دنوں میں ہی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ہم لوگوں کی کتابوں کی سلیکشن تقریباً ایک جیسی ہی ہوتی ہے اور جب بھی کتابیں خریدتے ہیں تو ان مخصوص مصنفین کا ہی انتخاب کرتے ہیںجن کا ذکر ہم نے کہیں نہ کہیں سنا ہوا ہوتا ہے لیکن ایک بات جان کر ہم لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہم لوگوں نے جن ٹیچر سے انگریزی کا مضمون پڑھا تھا اور انہوں نے جن جن مصنفین کی تعریف کی تھی ،آج ہم سب انہی کی کتابیں شوق سے پڑھتے ہیں۔انگریزی کی وہ استاذہ آج بھی ہمارے لئے تعلیمی رہنما ئی کرتی ہیں۔ ان کا نام مس تسنیم زمان ہے ۔ 
فرحین نے کہا کہ ہم لوگوں نے خود دیکھا کہ ایسے گھرانے کے بچے جنہیں ایک آدھ لفظ انگریزی آتا تھا، مس تسنیم نے انہیں سال بھر میں ایسا بنادیا کہ وہ آسانی سے بات چیت کرنے لگے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ کوئی اسٹوڈنٹ خواہ کتنا بھی پڑھائی میں پیچھے ہو ،وہ استاد کی محنت سے آگے ضرور بڑھتا ہے ۔ ہر کام کی کامیابی کے لئے محنت شرط ہے۔
انسان اس دنیا میں علم سیکھنے اور سکھانے کے لئے آیا ہے اور ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ اپنی تمام زندگی طالب علم کی حیثیت میں رہو یا پھر معلم کے طور پر اوراس کا یہی مطلب ہے کہ زندگی کا ہر دور علم حاصل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے میں صرف ہونا چاہئے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ہم خود طالب علم ہوتے ہیں توبھی مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ ضرورت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب آپ ٹیچر بن جائیں۔
ایک معلم کی کیا اہمیت ہے اور اسکو کیسے بتایا جاسکتا ہے، اس بارے میں یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ ایک انسان ہے ،اسکی آنکھیں روشن ہیں،سامنے نشانیاں موجود ہیں لیکن وہ اندھیری رات میں کیونکر دیکھ سکے گا ؟اس کا مطلب ہے کہ سامنے موجود چیز کو دیکھنے کے لئے روشنی کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت پوری ہوجائے تو ہر چیز واضح نظر آنے لگے گی۔ اسی مثال کے کینوس کو بڑا کر دیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں کئی ارب لوگ ہیں اورکائنات خود بہت بڑا وسیلہ ہے رب کریم کو جاننے کے لئے ۔ وہ لوگ سامنے موجود حق کی حقانیت سے بے بہرہ رہتے ہیں اور اسکو جاننے کے لئے علم کی روشی یعنی ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
اسکول و مدرسہ ہو یا بڑے تعلیمی ادارے، وہاں اسٹوڈنٹس بھی موجود ہوتے ہیں اور لائبریری میں کتا بیں بھی ہوتی ہیںلیکن اساتذہ ہی سمجھاتے ہیں کہ ان کتابوں میں کیا ہے ، ان کے بتلانے سے ہی وہ کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔ اسی لئے مستند اساتذہ کسی بھی قوم کا سر مایہ ہوتے ہیں اور ایسا علم مفید ہوتا ہے جو آخرت کی کامیابی کا راستہ کھول دے۔ان اساتذہ کے لئے ریاست کوایسے ہی اقدامات کرنے چاہئیں جیسے اسپین کے علمائے کرام کے لئے انکی ریاست نے کئے تھے کہ انہیں صرف قوم کی تعلیم و تربیت کا کام سونپا تھا ۔انکے معاش کا انتظام ماہانہ کی بنیاد پر نہیں کیا تھا بلکہ جائدادیں ان کے نام کر دی تھیں کہ علم کی روشی سے قوم کو منور کرنا ہی اصل کام ہے ۔ ان کا قیمتی وقت معاش کی تلاش میں ضائع نہ ہو۔ اگر ہم اپنی آج کی حالت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم بحیثیت قوم علمائے کرام کی کتنی قدر کر رہے ہیں۔ اس بات کی بھی نشان دہی ضروری ہے کہ دین اور سائنس دونوں کا مفید علم حاصل کرنے والے کو عالم کہتے ہیں۔ 
ادب وثقافت کا زندگی سے ایسا ہی رشتہ ہے جیسا کہ ہوا اور مٹی کا ۔ثقافتی کارکردگی انسان کو حیوانات کی دوسری انواع سے ممتاز کرتی ہے۔کہا جاسکتا ہے کہ ثقافتی کارکردگی نوع انسان کی انسانیت کی ضامن ہے۔ خالق کائنات نے سیدناآدم علیہ السلام کو کائنات کے ذرے ذرے کا علم انکے امکانات کی دنیا میں منتقل فرمادیا ۔اس طلسم کائنات کے سربستہ رازوں کی عقدہ کشائی اور پھر ان پوشیدہ خزانوں کا استعمال ان سے پھر اسی کائنات کی آرائش وزیبائش،یہ انسان کا عمل ہے اور اسی آرائش و زیبائش کا نام ثقافت ہے ۔
اردو شاعری کامزاج فارسی شاعری سے مستعار ہے ۔اردو شاعری کی قدیم ترین روایت فارسی کلاسیکی شاعری ہے۔اس لحاظ سے بہار کی شاعری کی قدیم ترین روایت فارسی شاعری ہے جو مخدوم الملک اور انکے رفقاءومعتقدین کے ذریعہ بہار کی سرزمین میں منتقل ہوئی اور روایت کے اس سفر میں مرزاعبدلقادر بیدل کی شاعری ایک ایسا سنگ میل ہے جسکی بلندی، عظمت ،وسعت اور رفعت کو کوئی ہندی النسل نہ پاسکا ۔یہ سفر جاری رہا ۔
اسے بھی پڑھئے:ازدواجی گاڑی غلط مڑ جائے تو سفر پر قابو رہتا ہے نہ شریک سفر پر، حلیمہ شعیب
بیدل نے فارسی روایات کی لہروں کو اردو کی طرف منتقل کیا ۔بہار میں اردو شاعری کی قدیم روایت کا سراغ بھی شعراءکے یہاں بالخصوص رومی،حافظ، سعدی،جامی اور خسرو کے یہاںملتا ہے۔ کہنے میں یہ بات کچھ پرانی سی لگتی ہے ۔خسرو کہتے ہیں: 
منِ دیوانہ راکشتی بہ غمزہ
 کرم کردی الٰہی، زندہ باشی
میر کہتے ہیں: 
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
اور جوشش عظیم آبادی کہتے ہیں: 
درد سرسے جہان کے چھوٹے 
مار ڈالا، بھلا کیا تو نے 
  20ویں صدی کا ایک عظیم آبادی شاعر کہتا ہے:
بھلا ہو تری رونق انجمن کا 
غریبوں کو بے خانماں کر نے والے 
حافظ شیرازی کہتے ہیں:
عاشق خستہ زدرد غم ہجر تو بسوخت
 خود نہ پرسی تو کہ آں عاشق غمخوار کجاست
اور کچھ لوگ کشادہ مزاجی، سخاوت اور مہمان نوازی میں اتنے آگے ہوتے ہیں کہ ان کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ:
 ہم تو کشادہ دل ہیں کشادہ مزاج ہیں 
ہم کو تو راہ میں جوملا ،دوڑ کر ملے 
محترمہ فرحین سعدکا کہنا ہے کہ ہر جگہ ، سب لوگ اتنے کشادہ دل نہیں ہوتے اور اپنے استعمال کی کوئی چیز کسی کو دینا تو دور کی بات، وہ تودوسروں کی جائداد پر قبضہ کرنے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈ لیتے ہیں اور کبھی غیرت کے نام پر یا کاروکاری کا نام دیکربے جوڑ شادیاں کردیتے ہیں اور اگر کوئی آواز بلند کرنے کی کوشش کرے تو ان ہی ناموں کو استعمال کرکے اسے ملک عدم روانہ کر دیتے ہیں اور ساری جائداد پر خود قبضہ کرلیتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ حشر کے دن ہر ایک عمل کا حساب لیا جائے گا۔
فرحین سعدکی تعلیم کی ابتداءحدیقہ صغیرہ عربی اسکول سے ہوئی۔ اسکے بعد منارات میں داخلہ ہوا اور پھر جدہ پریپ میں تعلیم حاصل کرنے لگیں۔ پاکستان میں کراچی یونیورسٹی میں پڑھنے کے لئے پاکستان انٹرنیشنل اسکول سے بھی تعلیم حاصل کی ۔ ان کا خواب اس وقت پورا ہواجب انہوں نے ماس کمیونیکیشن میں اپنے پسندیدہ تعلیمی ادارے سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
محترمہ فرحین نے کہا کہ وہ اپنے نانا جان ،سید عرفان کاظم کو دیکھتیں کہ وہ ایک معروف کمپنی میں اکاﺅنٹس ڈپارٹمنٹ میں بہت ذمہ داری والے عہدے پراپنی خدمات انجام دینے کے باوجود انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں مضامین لکھتے تھے۔ یہ انکا شوق تھا ۔ وہ اپنی گوناگوں مصروفیت میں بھی مطالعے کے لئے وقت نکال لیتے تھے اوریہی خوبی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھی کہ انہوں نے کبھی وقت کی کمی کی شکایت نہیں کی ،وقت کو منظم کیا ۔فرحین سعد نے بھی اپنے وقت کو منظم کیا اور کئی کام بیک وقت سرانجام دینے کی صلاحیت حاصل کرلی ۔یہی وجہ ہے کہ فل ٹائم جاب کے باوجودوہ اپنے دونوں بچوں کیلئے انکی فرمائش پر گھر میں کوکنگ اور بیکنک شوق سے کرتی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ انسان آج اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ جب تک وقت کا درست استعمال نہیں کرے گا،اسے وقت کی کمی کا سامنا رہے گا ۔
محترمہ فرحین کے ناناجان اخبار میں برسوں لکھتے رہے ، ان کی امی جان بھی اخبار میں لکھنے کے علاوہ اسکول میں معلمہ کی ذمہ داری بھی ادا کرتی رہیں اور اب انہوں نے خودماس کمیو نیکیشن میں ہونے کی وجہ سے کئی اسائنمنٹ ایسے کئے جو دراصل معاشرے کا ایسا موضوع تھے جن پر اب تک کوئی کام نہیں ہوسکاتھا ،تو کیا ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ جین کی وجہ سے کئی نسلوں میں ایک جیسی عادت موجود ہوتی ہے تو اب ہم کہیں کہ ایک جیسے شعبہ¿ زندگی کو چننا بھی اسی زمرے میں آتا ہوگا جب ہی آپ لوگوں کی تین نسلوں نے ایک جیسے شوق اپنائے۔ فرحین سعد نے اس حوالے سے کہا کہ میں نے ہمیشہ ٹیچر کے کہنے سے مطالعہ کیا اور جیسے جیسے مطالعہ بڑھا، علم حاصل کرنے کی خواہش اور جستجو بڑھتی گئی اور مختلف مصنفین کو پڑھنے سے معلومات میں اضافہ ہوا ۔پسندیدہ فکشن پڑہنے سے معلوم ہوا کہ لکھنے والے بھی کہاں کہاں سے نئے نئے خیالات اور چونکا دینے والے واقعات کاحصول ممکن بناتے ہیں اور ان پر قلم اٹھاتے ہیں۔ 
بچپن سے کتاب پڑھنے کا شوق تھا اور اس سلسلے میں تایا جان سید وقار احمد نے میرے اس شوق کو جلا بخشی کہ جب گرمی کی تعطیلات میں ہم لوگوں کا پاکستان جاناہوتا تو کتابوں کی خریداری کے لئے پورا دن میرے ساتھ کتابوں کی دکانوں پر خاص طور پر لیکر جاتے اورایک بڑی رقم اس کے لئے اپنی تنخواہ سے مختص کرتے تھے ۔ تایا جان کی یہ بات مجھے بہت فیسینیٹ کرتی ہے کہ بچوں کی خواہش کو کس قدر اہمیت دینی چاہئے ۔ اب یہ حال ہے کہ ہم نے لائبریری کو بھی غیر فعال بنا دیا ہے۔علم حاصل کرنے کے مواقع صرف اسکول، کالج میں نہیں بلکہ یہ سہولت ہر محلے میں دستیاب ہونی چاہئے۔علم جستجو میں اضافہ کرتا ہے، تحقیق پر آمادہ کرتا ہے طلبہ و طالبات کو صرف ڈگری کے حصول کو کافی نہیں جانناچاہئے بلکہ تحقیقی کام میں حصہ لینا چاہئے ۔کم و بیش ہر طالب علم میں تخلیقی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسے بروئے کار لانا چاہئے۔
فرحین سعد کے شریک سفر سعد خرم اشرف سمجھتے ہیں کہ میری اہلیہ فرحین جتنی بھی مصروف ہوں ،بچوں کی فرمائش ضرور پوری کرتی ہیں۔ وقت کو منظم کرتی ہیں ،مہمانوں کی خاطر میں خوشی محسوس کرتی ہیں،خاندان کی بڑی بیٹی ہونے کی وجہ سے انہیں خاندان بھر میںاہمیت دی جاتی ہے۔ بڑے صاحب زادے زید سعد پرائمری اسکول کے طالب علم ہیں اور اپنے سے چھوٹے بھائی ہادی سعد کو نئے کارٹون دکھاتے ہوئے یہ بتانا نہیں بھولتے کہ جو کچھ کارٹون میں دکھاتے ہیں، سب کچھ سچ نہیں ہوتا۔ نہ ہی کوئی ایساسوپر مین ہوسکتا ہے جو ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک اڑ کر جاسکے ۔
فرحین صاحبہ کا کہنا ہے کہ میرے شوہرسعد خرم اشرف کے گھر والے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انکی امی نے ایک معروف اسکول میں معلمہ کی ذمہ داریوں کو اتنی خوبی سے نبھایا کہ آج ریٹائر منٹ کے بعد بھی طالبات انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرتی ہیں اور انکی خوبیوں کا ذکر کرتی ہیں۔فرحین سعد کو اپنے سسرال میں میکے جیسا ہی ماحول ملا اور شادی کی رسومات بھی ویسی ہی تھیں جیسی وہ اپنے خاندان میں دیکھتی آئی تھیں۔ سعد اشرف نے کینیڈا سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی اور ایک معروف کمپنی کے فنانس ڈپارٹمنٹ میں جاب حاصل کی۔فرحین کا کہنا ہے کہ سعد اپنے والدین کے فرماں بردار بیٹے ہیں۔ مہمانوں کی دعوت اکثر کرتے رہتے ہیں اور بچوں کے لئے وقت بے وقت انکی فرمائش پوری کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں ۔
فرحین کو علامہ اقبال اس وجہ سے پسند ہیں کہ انہوں نے نوجوانوں میں آزادی کی جستجو پیدا کی اور غلامی سے آزادی جیسی نعمت کو حاصل کرنے کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن گئے ۔اب اس نعمت کی حفاظت ہرفرد پر لازم ہے ۔
 
 

شیئر: