اترپردیش کے گورنر رام نائک نے کاس گنج کے فرقہ وارانہ فساد کو اپنی ریاست کیلئے کلنک (بدنماداغ) قرار دیا ہے۔ وہاں یوم جمہوریہ کے موقع پر برپا ہونے والے فساد میں ایک شخص کی جان چلی گئی تھی اور ایک شخص کی آنکھ پھوڑ دی گئی تھی۔ کئی روز تک جاری رہنے والے اس فساد میں کرفیو کے باوجود کروڑوں کی املاک لوٹی اور جلائی گئیں۔ 100سے زیادہ افراد کو فساد بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کیاجاچکا ہے جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ پولیس مسلم ملزمان کی تلاش میں ان کے مکانوںکی تلاشی لے رہی ہے اور ان کی قرقی بھی کی جارہی ہے۔ لیکن ابھی تک ان لوگوں کو ہاتھ نہیں لگایاگیا ہے جنہوں نے اس فساد کا بیج بویا تھا کیونکہ وہ آر ایس ایس کی طلباء تنظیم اے بی وی پی کے کارکن ہیں ۔ ان ہی لوگوں نے یوم جمہوریہ کے موقع پر ایک اشتعال انگیز یاترا نکال کر شہر میں فساد برپا کیا۔ کاس گنج کے ویر عبدالحمید چوک پر مسلمانوں نے یوم جمہوریہ کی تقریب کا انعقاد کیاتھا۔ اے بی وی پی کے کارکن ہاتھوں میں ترنگے اور بھگوا جھنڈے لے کر وہاں پہنچ گئے اور یوم جمہوریہ کی تقریب کو تہس نہس کرنے لگے۔ ان کی ضد تھی کہ ان کی یاترا یہیں سے نکلے گی اور وہ اپنا راستہ تبدیل نہیں کریں گے۔ یہی ضد فساد کا سبب ثابت ہوئی۔ پھر مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے ان پر’’ پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے بلندکرنے کا الزام عائد کیاگیا ۔
گزشتہ برس جب یوگی آدتیہ ناتھ کو ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی باگ ڈور سونپی گئی تھی تو وہاں مسلمانوںمیں زبردست خوف وہراس پھیل گیا تھا۔ چونکہ آدتیہ ناتھ کی امیج ایک انتہائی سخت گیر اور انتہا پسند فرقہ پرست لیڈر کی تھی جنہوں نے اپنے حلقہ انتخاب گورکھپور کے آس پاس اپنی ہندو یووا واہنی کے ذریعہ دہشت پھیلا رکھی تھی۔ یوگی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جس طرح مسلمانوں کے خوردونوش پر پابندیاں لگانا شروع کیں اور طرح طرح کی دھمکیاں دی گئیں، اس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب یوپی میں مسلمانوں کے لئے سخت آزمائش کا دور شروع ہونے والا ہے۔ یوں تو گزشتہ ایک سال کے دوران یوپی کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ تصادم کی چھوٹی موٹی وارداتیں ہوتی رہیں تاہم کاس گنج کا فساد اس معاملے میں سب پر بازی لے گیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ فساد بھڑکانے میں اے بی وی پی کے جارحیت پسند کارکنوں نے نمایاں حصہ لیا مگر پروپیگنڈہ یہ کیاجارہا ہے کہ اس فساد کی منصوبہ بندی مسلمانوں نے کی تھی کیونکہ ان کے گھروں کی چھتوں سے پتھر ، تیزاب کی بوتلیں اور اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ یہ ایک پرانی کہانی ہے جو ہرفساد کا الزام مسلمانوں کے سر ڈالنے کے لئے تراشی جاتی ہے۔ حالانکہ ہر فساد میں سب سے زیادہ متاثر مسلمان ہوتے ہیں کیونکہ عام طورپر فسادات میں مسلمان ہی مرتے ہیں اور ان ہی کے مال واسباب کو لوٹا اور جلایا جاتا ہے۔ بعد میں گرفتاریاں بھی ان ہی کی ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہر بار یہی کہاجاتا ہے کہ مسلمانوں نے فساد کی منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ بات کتنی ناقابل فہم ہے کہ جس فرقے کو فساد کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا، وہی اس کی منصوبہ بندی کیوں کرے گا۔
یوپی میں بی جے پی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں خم ٹھونک کر یہ اعلان کیا تھا کہ اب کسی کو گھبرانے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیںہے کیونکہ ہم اترپردیش میں فساد سے پاک انتظامیہ فراہم کریں گے۔ لیکن اس بیان کے برعکس اترپردیش میں گزشتہ ایک سال سے خوف وہراس کا ماحول ہے اور فساد کا سلسلہ بھی رکا نہیں ہے۔ جس کا تازہ ترین ثبوت کاس گنج ہے جہاں بھگوابریگیڈ نے منصوبہ بند طریقے سے فساد برپا کیا اور مسلمانوں پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کا جھوٹا الزام لگایا۔ جب اس کی پول بریلی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راگھویندر سنگھ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کھولی تو ان کے خلاف بھگوابریگیڈ ہی نہیں خود اترپردیش کی سرکار نے جارحانہ رخ اختیار کیا اور انہیں لکھنؤ طلب کرلیاگیا۔ راگھویندرسنگھ نے اپنے تجربات کی بنیاد پر لکھا تھا کہ ’’عجیب رواج بن گیا ہے۔ مسلم محلوں میں زبردستی جلوس لے جاؤ اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاؤ۔کیوں بھائی وہ پاکستانی ہیں کیا؟‘‘یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اس حقیقت پسند بیان سے اتنے ناراض ہوئے کہ انہوں نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو معافی مانگنے اور اپنا بیان واپس لینے پر مجبور کردیا ۔ راگھویندر سنگھ نے اپنا بیان تو واپس لیا لیکن اتنا ضرور کہا کہ’’ مسلمان بھی ہمارا ہی خون ہے اور ان کا اور ہمارا ڈی این اے ایک ہے۔ ‘‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اترپردیش کی بی جے پی سرکار اپنی ریاست میں فسادیوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے مظفرنگرفساد کے مجرموں پر قائم کئے گئے مقدمات واپس لے لئے ہیں اور انہیں ہرطرح کے تحفط کا یقین دلایا ہے۔ اترپردیش میں آج کل جرائم پیشہ افراد کو خوف زدہ کرنے کیلئے ان کا انکاؤنٹر کرنے کی مہم چلی ہوئی ہے۔ جس میں اب تک سینکڑوں ’جرائم پیشہ‘ افراد کو انکاؤنٹر میں مارا جاچکا ہے۔ لیکن یہی حکومت فساد پھیلاکر بے گناہوں کی جان لینے والوں کوتحفظ فراہم کررہی ہے۔ کاس گنج میں ابھی تک ان اے بی وی پی کارکنوں کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیاگیا ہے جنہوں نے یوم جمہوریہ کے موقع پر ایک مسلم علاقے میں جاکر اشتعال انگیزی کی ، اس کے برعکس مقامی پولیس مسلمانوں کے دروازے توڑ کر انہیں گرفتار کررہی ہے اور یک طرفہ کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کاس گنج میں بے گناہ مسلمانوں کی اندھادھند گرفتاریوں کا سلسلہ روک کر اے بی وی پی کے شرپسند کارکنوں کو گرفتار کیاجائے جنہوں نے اس فساد کی بنیاد ڈالی اور شہر کے امن وامان کو غارت کردیا۔ سوال یہ ہے کہ جس آر ایس ایس نے آزادی کے 52برس تک کبھی قومی پرچم نہیں لہرایا۔ وہ اب ترنگا یاترا نکال کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہے؟