Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاست ، لاڈلے اور قانون

***غلام مرتضیٰ باجوہ***
سیاست عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ملکی تدبیر و انتظام۔یونان میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوتی تھیں جنہیں Polis کہا جاتا تھا اور Polis کے معاملات کو Politike کہا جاتا تھا۔ ارسطو نے Politike کے عنوان سے سیاست پر ایک کتاب لکھی جسے انگریزی میں Politics کہا گیا اور یوں Polis کے معاملات چلانیوالے Politician کہلائے۔اردو میں ریاست کے علم کو سیاست کہا جاتا ہے۔ نبی پاک کی سیاسی زندگی ہمارے لئے ایک اسوہ اور مثال ہے۔ نبی پاک کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی۔ مشہور مورخ علامہ ابن خلدون نے تو انہیں مزاج کے اعتبار سے بھی ایک نہایت غیر سیاسی قوم قرار دیا ہے۔
اگر بات کی جائے پاکستان میں ہونیوالی سیاست کی تواکثر یہ گلے شکوہ سننے کو ملے گا کہ پاکستان کی سیاست عرصہ دراز سے فوجی آمریت کے ہاتھوں رہی ہے۔ جمہوری دور بھی سیاست سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے کھیل کا نام سمجھا جاتا ہے جس میں غریب صرف نعرے بازی اور ووٹ ڈالنے کی حد تک شریک ہوتا ہے۔ کسی شریف آدمی کا سیاست میں حصہ لینا انوکھی بات سمجھی جاتی ہے۔سیاست کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔مثال کے طور پر:اقتدار کے حصول کیلئے،حقوق کے حصول کیلئے،مذہبی اقدار کے تحفظ کیلئے،جمہوری روایات کے تحفظ کیلئے،ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے وغیرہ شامل ہیں۔
دور حاضر میں ان چیزوں کے بغیر کسی صاحبِ سیاست کا تصور نہ دوسرے لوگ کرتے ہیں اور نہ کوئی صاحب سیاست ان لوازمات سے خود کو الگ تصور کرتا ہے۔ سیاست اس قدر ٹھاٹ باٹ سے آشنا کبھی نہیں تھی جس قدر یہ اب ٹھاٹ باٹ کی عادی ہو چکی ہے۔اب اہل سیاست کا کام ریاست کے معاملات چلانا نہیں اور نہ ہی اس طرف کوئی توجہ ہے اب سیاست اقتدار اور کرسی کیلئے ایک دوڑ ہے ،اب اہل سیاست کا کام صرف دشنام طرازی ،ایک دوسرے کی ذاتیات پر انگلیاں اٹھانا ، ایک دوسرے کی عزت کو اچھالنا ، مخالف جماعتوں کے کارکنان کو الٹے سیدھے ناموں سے پکارنا ، قانون کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھنا ، گالی گلوچ کرنا ، جھوٹے وعدے کرنا، فریب دیکر ووٹ بٹورنا اورمنصب کا ناجائز استعمال کرنا ہے۔یہ خرافات کئی دہائیوں سے ہماری سیاست کا اہم ترین حصہ ہیں بلکہ اسکے بغیر سیاست کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔پارلیمنٹ روز مچھلی بازار بنی ہوتی ہے جنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے اہل سیاست پڑھے لکھے اور دانشور نہیں جو باہم لڑائی جھگڑے میں مصروف ہے پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کر رہا ہے اور قانون کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔اب اگر یہ کہا جائے کہ سیاست کی 2اقسام ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔
بقول شاعر ملک زادہ منظور احمد:
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
۔۔۔
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
تاریخی حوالہ جات اس بات کے گواہ ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ پاکستان کی ایک سابق سیاسی جماعت ہے جو قیام پاکستان کے بعد 1962ء میں ٹوٹنے والی مسلم لیگ سے بطن سے پیدا ہوئی۔ اس وقت سے مسلم لیگ مختلف حصوں میں تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی اور آج بھی مختلف مسلم لیگیں موجود ہیں جن میں سے چند معروف جماعتیں درج ذیل ہیں:پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم،پاکستان مسلم لیگ فنکشنل، پاکستان مسلم لیگ ضیاء الحق،پاکستان مسلم لیگ نواز شریف ودیگر شامل ہیں۔ اگر بات کی جائے مسلم لیگ (ن)تو یہ جماعت نواز شریف کی زیر قیادت 1988ء میں اپنے قیام سے ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہے۔ اسے دیگر مسلم لیگ سے ممتاز کرنے کیلئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کہا جاتا ہے۔ اس جماعت کو 1988ء میں جنرل محمد ضیاء الحق کی شہادت کے بعد محمد خان جونیجو کی پاکستان مسلم لیگ سے الگ ہونے والے فدا محمد خان نے تشکیل دیا۔ اس نئی جماعت کے سربراہ فدا محمد خان اور جنرل سیکریٹری نواز شریف تھے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اس وقت سب سے بڑی مسلم لیگ ہے۔اس سیا سی جماعت کا نعرہ ’’انصاف، امن، خوشحالی‘‘اور نظریات ’’ پاکستانی قومیت، قومی قدامت پرستی، سماجی قدامت پرستی، مالی قدامت پرستی وغیر ہ بتائے جاتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سابق وزیراعظم اور صدر مسلم لیگ ’’ن‘‘ نوازشریف پاکستان کے آئین کے تحت ایماندار نہ ہونے پر عدالت نے نا اہل قراردیا یعنی تقریباً 30سالوں میں پہلی بار نوازشریف کی مرضی کیخلاف فیصلہ آیا ہے جسکے بعد نوازشر یف اپنے بنائے پارٹی نعر ے اور نظریات بھول گئے اور نیا نعرے بنالیا کہ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘لگانے لگے ہیں۔ گزشتہ روز ہونیوالے پشاور جلسے میںنوازشریف کی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں تھی بلکہ نواز شریف کے ایک جملہ ’’ عدل قائم کرنے کیلئے ہم کشتیاں جلا کر میدان میں اترے ہیں‘‘ نے مبصرین ، ماہر ین اور شہریوں میں کئی خدشات پیداکردیئے ہیں؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوازشریف کواپنی پارٹی اور پاکستان کے آئین کو مدنظررکھنا چاہئے کیونکہ سیاست ،لاڈلے اور قانون میں بہت فرق ہوتا ہے ۔مشہور مثال ہے کہ ’’جیسا کروگے ویسا بھروگے‘‘ ۔میاں صاحب کی گرم جوشی پر مبنی تقریر وں کا نتیجہ کیا ہو گا ؟ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔
 

شیئر: