Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ نتائج کیا کہتے ہیں؟

***معصوم مرادآبادی***
یکم فروری کو اگر پارلیمنٹ میں عام بجٹ پیش نہ کیاگیا ہوتا تو اس روز کی سب سے اہم خبر ضمنی انتخابات میں حکمراں بی جے پی کی شکست فاش ہوتی ۔ جیسا کہ کہاجاتا ہے کہ بڑی مچھلی ہمیشہ چھوٹی مچھلی کو کھاجاتی ہے، اسی طرح اکثر بڑی خبر چھوٹی خبر کو نگل لیتی ہے۔ راجستھان اور مغربی بنگال کے ضمنی انتخابات کے چونکانے والے نتائج اسلئے بحث کا موضوع نہیں بن سکے کہ سب لوگ بجٹ کی بھول بھلیوں میں کھوگئے۔ بی جے پی کی اقتدار والی ریاست راجستھان میں پارلیمنٹ کی2 اور اسمبلی کی ایک نشست پر لاکھوں ووٹوں سے بی جے پی کی شکست اتنی بڑی خبر تھی کہ اس سے کم ازکم راجستھان کی سیاست میں بھونچال آجانا چاہئے تھا۔ اگرچہ مغربی بنگال کی ایک پارلیمانی نشست پر بی جے پی امیدوار کی 4لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے شکست اس لئے اہمیت حاصل نہیں کرسکی کہ وہاں ترنمول کانگریس کا دبدبہ برقرار ہے لیکن راجستھان تو بی جے پی کیلئے بڑی ناک والی ریاست ہے ،جہاںمہارانی وسندھراراجے وزیراعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہیں ۔ راجستھان کی 2لوک سبھا نشستوں الور اور اجمیر کے ضمنی چناؤ میں بی جے پی کو جس شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، اسکے اثرات یقینا آنے والے اسمبلی انتخابات پر مرتب ہوں گے جو اسی سال کے آخر میں برپا ہونے والے ہیں۔ الور میں کانگریس امیدوار کرن سنگھ یادو نے تقریباً 2لاکھ ووٹوں سے بی جے پی امیدوار کو ہرایا ہے جبکہ اجمیرمیں بی جے پی کو 80ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی ہے۔اسمبلی کی ایک سیٹ بھی کانگریس نے بی جے پی سے چھین لی ہے۔ یہ وہی راجستھان ہے جہاں2014 کے عام انتخابات میں حکمراں بی جے پی نے لوک سبھا کی تمام 25نشستوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ 
مغربی بنگال کے ایلوبیرا پارلیمانی حلقے میں سابق مرکزی وزیر سلطان احمد مرحوم کی بیوہ ساجدہ احمد نے4لاکھ 74ہزار ووٹوں سے جیت درج کی ہے۔ یہ سیٹ مرحوم سلطان احمد کے انتقال سے خالی ہوئی تھی جو مغربی بنگال کے ایک مقبول مسلم لیڈر تھے۔ پچھلے دنوں اچانک ہارٹ اٹیک سے ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ سلطان احمد کے انتقال کے بعد مغربی بنگال کے مسلمان خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ ترنمول کانگریس میں ان کی جگہ لینے والا کوئی دوسرا مسلم لیڈر موجود نہیں ۔ سلطان احمد کی اہلیہ ساجدہ احمد نے اپنے شوہر کے حلقہ انتخاب میں 5لاکھ 88 ہزار ووٹ حاصل کئے ہیں جبکہ بی جے پی امیدوار انوپم ملک کو 2لاکھ 18ہزار ووٹوں کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل ہوئی ہے۔ 44فیصد مسلم آبادی والے اس حلقے میں ترنمول کانگریس کے علاوہ سی پی ایم اور کانگریس نے بھی مسلم امیدوار میدان میں اتارے تھے لیکن ترنمول کانگریس نے اس نشست پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ حکمراں ترنمول کانگریس نے نوپاڑہ اسمبلی حلقے کے ضمنی انتخاب میں بھی 63ہزار ووٹوں سے جیت حاصل کرلی ہے لیکن یہاں بھی بی جے پی امیدوار دوسری پوزیشن پر رہا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بی جے پی نے مغربی بنگال جیسی سیکولر ریاست کے ضمنی چناؤ میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے،ورنہ اب تک یہاں اصل مقابلہ ترنمول کانگریس اور سی پی ایم کے درمیان رہا ہے۔ سی پی ایم نے اس ریاست میں 34برس تک بلاشرکت غیرے حکمرانی کی ہے لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کمیونسٹوں کی اس ریاست میں زوال آمادہ ہے جس کا اصل فائدہ اُس بی جے پی کو پہنچ رہا ہے جسے سی پی ایم نے ہمیشہ مغربی بنگال کی سیاست سے دور رکھا۔ مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد بی جے پی نے ملک کی دوردراز ریاستوں میں ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی جو ’خاموش‘ مہم چلا رکھی ہے اس کا اگلا نشانہ مغربی بنگال ہے جہاں آزادی کے بعد فرقہ پرست جماعتوں کو کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ترنمول کانگریس سی پی ایم کو ختم کرنے کیلئے بی جے پی کو راستہ فراہم کررہی ہے۔ اگر واقعی مغربی بنگال جیسی فرقہ پرستی سے پاک ریاست میں بی جے پی کو قدم جمانے کا موقع ملا تو یہ سیکولر سیاست کا سب سے بڑا نقصان ہوگا حالانکہ بی جے پی آسام اور منی پور جیسی ریاستوں میں اقتدار حاصل کرچکی ہے لیکن مغربی بنگال اب تک اس کیلئے ایک ٹیڑھی کھیر ثابت ہوتا رہا ہے۔ 
جن ریاستوں میںبی جے پی کو روایتی طورپر کامیابی حاصل ہوتی رہی ہے اور جہاں وہ برسوں سے اقتدار میںہے وہاں اب اس کے پیروں سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ جہاں پچھلے دنوں گجرات میں اسے چناؤ جیتنے کیلئے لوہے کے چنے چبانے پڑے اور وہ تمام گھوڑے کھولنے کے باوجود2ہندسوں سے اوپر نہیں پہنچ پائی ،وہیں اب وہ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں میں سخت آزمائش سے گزررہی ہے۔ دراصل مرکز میں بی جے پی کی ناکارہ پالیسیوں کی وجہ سے عوام میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے فیصلوں نے اسے عوام میں نامقبول بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن صوبوں میں لگاتار پچھلے کئی چناؤ میں کامیابی حاصل کرتی چلی آرہی ہے، وہاںکی زمین اب اس کیلئے سخت ہوتی چلی جارہی ہے۔ راجستھان کے ضمنی چناؤ کے نتائج اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کہاجارہا ہے کہ اگر راجستھان میں ابھی اسمبلی انتخابات منعقد ہوجائیں تو وہاں کانگریس اکثریت حاصل کرلے گی۔ راجستھان کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے نے ضمنی چناؤ کے نتائج کو اپنے لئے خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے لیکن مرکزی حکومت پر اس کا فی الحال کوئی اثر نظر نہیں آتا اور وہ جارحانہ انداز میں جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک کا اسمبلی چناؤ جیتنے کی بساط بچھارہی ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی نے وہاں اپنی ایک حالیہ تقریر میں یہ کہاہے کہ کانگریس کرناٹک میں رخصتی کے قریب ہے۔ اس کیلئے انہوں نے ریاست کی سدا رمیا حکومت کی بدعنوانی کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کرناٹک میں بی جے پی اُن سابق وزیراعلیٰ یدی روپا کی قیادت میں چناؤ لڑرہی ہے جو اس سے قبل بدعنوانی کے الزامات میں اپنی کرسی گنواچکے ہیں۔ کسی بدعنوان سیاست داں کو ساتھ لے کر بدعنوانی کے خلاف محاذ آرائی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں