جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ٹیکنالوجی اور سماجی رابطوں کی دوڑ میں ہم اکثر اپنوں کو کتنا تنہا کر دیتے ہیں. ہم سوشل میڈیا پر دنیا بھر کو پیغامات بھیجتے رہتے ہیں . کسی کو سالگرہ کی مبارکباد تو کسی کو نئی زندگی کی شروعات پر ڈھیروں دعائیں . مگر جب بات اپنوں کی آتی ہے تو ہماری مصروفیت ہمیں ان کے لیے وقت نکالنے نہیں دیتی . سوشل میڈیا پر گھنٹوں ضائع کرنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بزگوں کے پاس چند گھڑی بیٹھنے سے کتراتے ہیں . انکی خدمت کرنے اور ان کے لیے وقت نکالنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں اور انکی صحبت کو بورنگ قرار دے کر انہیں بڑھاپے میں تنہا کر دیتے ہیں . تین تین گھنٹے کی مووی دیکھ کر مزید گھنٹوں کے حساب سے موبائل اور سوشل میڈیا پر چیٹنگ کرنے والوں کو والدین کے لیے وقت نکالتے وقت پڑھائی اور امتحانات کی فکر ستانے لگتی ہے . اسی طرح نوکری پیشہ افراد یا خواتین خانہ اپنی روز مرہ کی مصروفیات میں سے موبائل اور انٹرنیٹ کے لیے تو وقت نکال لیتے ہیں لیکن اپنوں کے پاس بیٹھ کر ان کے دکھ بانٹنا ، انکے مسائل حل کرنا اور انہیں تسلی کے دو بول بولنے میں کوفت محسوس کرتے ہیں . اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی فرد ہم سے بات کرنے کا منتظر ہوتا ہے اور ہمیں موبائل سے فرصت نہیں ہوتی . ہم اپنوں کو خاص دنوں کی مبارکباد دینا بھول جاتے ہیں . دوستوں کی تعریف کرنا بھول جاتے ہیں . بزرگوں کو وقت دینا اور انکی دعائیں لینا بھول جاتے ہیں اور خاندان میں موجود یتیم بچوں یا کسی غریب رشتہ دار کی مدد کرنا اور اسے اپنائیت کا احساس دلانا بھول جاتے ہیں . یہ سب ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے . ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ اپنی اخلاقی اقدار کو کیوں فراموش کر بیٹھے ہیں ؟ کیوں اپنی روایات اور سماجی اقدار کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں ؟ اور کیوں ہماری سوچ تعمیری سے بدل کر تخریبی ہو گئی ہے ؟ یاد رکھیں ہمارا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل اسی سوچ اور رویے سے جڑا ہے . ہماری آنے والی نسلوں کا سنورنا یا بگڑنا اسی سوچ اور خیالات سے وابستہ ہے . آنے والا کل بنانے کے لیے اپنا آج بدلیں کیونکہ ہم جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے .