سنتِ مبارکہ کے اتباع کے اصول
جمعرات 22 فروری 2018 3:00
ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم پر عمل کرنا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنا ہی اسلام ہے، سنت سے روگردانی فی الواقع حقیقت اسلام سے روگردانی ہوگی
* * * * * *
* * * * * علامہ محمد اسد * * * *
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کے اتباع کے کم از کم 3 اہم پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں:
فرد کی باضابطہ تربیت:
اس کا ایک پہلو فرد کی باضابطہ تربیت ہے تاکہ وہ ہمہ وقت شعور اور بیداری کی حالت میں رہے اور ضبطِ نفس (Discipline) کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرے۔
انسان کی روحانی ترقی کے نقطہ نظر سے الل ٹپ سرزد ہونے والے افعال اور ان افعال سے جنم لینے والی عادات اُن رکاوٹوں کی مانند ہیں، جو رکاوٹوں والی دوڑ میں شریک گھوڑوں کی راہ میں کھڑی کی جاتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ایسے افعال اور عادات کو کم سے کم اختیار کیا جائے جو طبیعت کے روحانی ارتکاز کو منتشر کرنے کا باعث بنتے ہوں۔ ہونا یہ چاہئے کہ ہم جو کچھ بھی کریں، وہ ہمارے اپنے ارادے اور ضابطہ اخلاق کے تابع ہوںلیکن اس مقام تک پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ ہمہ وقت اپنی ذات کا مشاہدہ و محاسبہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت محاسبۂ نفس کا ذریعہ ہے جس سے پوری طرح استفادہ کرنے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو۔‘‘(بخاری)۔
ضبطِ نفس کی ضرورت بیان کرتے ہوئے حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے فرمایا:
’’تم خود اپنا محاسبہ کرو، قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ عبادت کا اسلامی تصور صرف مذہبی فرائض تک محدود نہیں بلکہ فی الحقیقت وہ ساری انسانی زندگی پر محیط ہے اور اس کا ہدف ہمارے روحانی وجودکو ہمارے مادی وجود سے جوڑکر ایک وحدت میں سمونا ہے لہٰذاہماری کوششوں کا حتی الامکان ہدف یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنی زندگیوں میں سے خودفراموشی کی کیفیت اور ایسے عوامل کو جڑ سے اکھاڑ دیں جو انسان کے روحانی و مادی وجود میں یکجہتی پیدا نہیں ہونے دیتے۔ مشاہدۂ نفس اس راہ میں پہلا قدم ہے۔
یہ وہ انتہائی یقینی طریقہ ہے جس کی مدد سے فرد اپنے نفس کے مشاہدے اور احتساب کی تربیت کرسکتا ہے اور اپنی عادات اور روزمرہ زندگی کے بظاہر غیر اہم افعال کو اپنے شعور کے تابع کرسکتا ہے۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں اور بظاہر غیر اہم افعال اور عادات ذہنی تربیت کے سیاق و سباق میں فی الحقیقت ہماری زندگی کے بڑے کاموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ’’بڑی بڑی باتیں‘‘ اور ’’عظیم کام‘‘ اپنی بڑائی کی وجہ سے ہمیشہ واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں لہٰذا وہ کم و بیش ہمیشہ ہمارے شعور میں رہتے ہیں لیکن ’’چھوٹی چھوٹی‘‘ باتیں بآسانی نظرانداز ہوجاتی ہیں اور ہمارے کنٹرول سے بچ نکلتی ہیں حالانکہ فی الحقیقت یہ کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور انکی مدد سے ہم ضبط ِنفس کی صلاحیتوں کو کہیں زیادہ نتیجہ خیز اور اثرانگیز بناسکتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ یہ بات بجائے خود اہم نہ ہو کہ کس ہاتھ سے کھانا کھایا جانا چاہئے، یا یہ کہ داڑھی کی کیا اہمیت ہے؟ لیکن نفسیاتی اعتبار سے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ زندگی کے معاملات کو محض الل ٹپ عادت کے طور پر نہیں بلکہ باقاعدہ ارادے کے تحت انجام دیا جائے۔ اس لئے کہ اس طرح ہم اپنے آپ کو محاسبۂ نفس اور اخلاقی پابندیوں پر عمل کرنے کیلئے تیار رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ دیکھا جائے تو بظاہر یہ کوئی آسان کام دکھائی نہیں دیتا۔ ذہنی طور پر سست ہونا، جسمانی طور پر سست ہونے سے زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک ایسے شخص کو لمبی سیر کیلئے لے جائیں جو اکثر بیٹھے رہنے کا عادی ہو، تو وہ جلدی تھک جائے گا اور پیدل چلنے کے قابل نہیں رہے گا لیکن اس کے برعکس وہ شخص نہیں تھکے گا جو عمر بھر پیدل چلنے کا عادی رہا ہو۔ اس کیلئے یہ سیر تھکن کا باعث نہیں ہوگی اور وہ اسے ایک خوش گوار جسمانی ورزش کے طور پر لے گا۔
اس سے یہ حکمت اور (مومنانہ) طرزِ زندگی کا یہ رمز مزید واضح ہوجاتا ہے کہ سنت کے دائرے میں انسانی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو کس لئے شامل رکھا گیا ہے۔ اگر ہم سے مسلسل اپنے تمام اعمال اور خطاؤں کو جانچنے پرکھنے کا تقاضا کیا جاتا رہے تو ہماری محاسبۂ نفس کی استعداد بھی مسلسل بڑھتی رہے گی اور ایک خاص مدت کے بعد ہماری فطرت ِ ثانیہ بن جائے گی۔ جب تک یہ تربیت جاری رہے گی، ہمارا اخلاقی تساہل بھی کم سے کم تر ہوتا چلا جائے گا۔
لفظ ’’تربیت‘‘ کے استعمال سے قدرتی طور پر یہ مراد ہے کہ اس کا نتیجہ تربیتی عمل کے مقصد پر منحصر ہوگا۔ اگر سنت پر عمل زوال پذیر ہوکر محض حرکات و سکنات کا ایک معمول بن جائے تو اس کی تعلیمی و تربیتی قدر و قیمت بھی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ گزشتہ صدیوں میں مسلمانوں کا طرزِ عمل بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔
جب رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین اور ان کے بعد آنے والی نسلوں نے اپنی زندگی کے ہر معاملے کو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی تو انہوں نے مکمل فہم و شعور کے ساتھ ہدایت پر مبنی ہر اْس حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا جو روحِ قرآن کے مطابق ان کی زندگیوں کی تشکیل میں معاون ہوسکتا تھا۔ اسی شعور اور ارادے کی بدولت وہ اتباعِ سنت سے پوری طرح فیض یاب ہوسکے۔ اگر بعد کے زمانوں میں آنے والے مسلمان ان نفسیاتی امکانات سے بھرپور فائدہ نہ اٹھاسکے، جن کا دروازہ کھلتا ہی سنت کی پیروی سے ہے تو یہ نعوذ باللہ ’’سنت‘‘ کی خامی نہیں تھی۔
اس پورے گزشتہ عہد میں مسلمانوں کے انحطاط اور اضمحلال کا ایک سبب کسی نہ کسی حد تک تصوف بھی ثابت ہوا ہے جو انسان کی فعال توانائیوں کو غیر اہم قرار دیتا ہے اور اْن توانائیوں پر زیادہ زور دیتا ہے جو محض تاثرات و تصورات کے ادراک میں معاون ہوسکتی ہیں۔ چونکہ سنت ِنبوی پر عمل اسلام کے ابتدائی ایام ہی سے مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا، اس لئے دورِ اوّل سے متصل زمانے میں تشکیل پانے والا صوفی ازم دین کی اس بنیاد کو زائل کرنے میں کامیاب تو نہ ہوسکا، لیکن وہ اس کی فعال قوت کا اثر کسی حد تک کم کرنے کا سبب ضرور بنارہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ صوفیوں کے نقطہ نظر سے سنت ایک ایسی مجرد علامت بن کر رہ گئی جس کی اہمیت نظریاتی و تصوراتی تو تھی مگر عملی نہیں تھی۔ وہ اسے محض روحانی اور صوفیانہ تناظر میں دیکھتے تھے۔ دوسری جانب مذہبی علما اور فقہا کے نزدیک اسلام محض ایک فقہی یا قانونی نظام تھا۔
نتیجتاً عامۃ المسلمین کیلئے سنت اپنے حقیقی معانی کھوچکی تھی۔ اس کے باوجود کہ مسلمان قرآنی تعلیمات سے استفادہ کرنے اور سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی تعبیر اور ان کی تفہیم کے عمل سے محروم ہوچکے تھے، لیکن تعلیمات ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سیاق و سباق اور ان کی تعبیر کے پیچھے کارفرما تصور میں قطعاً کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ آج بھی پوری طرح قابلِ اطلاق ہیں چنانچہ کوئی وجہ نہیں کہ ایک بار پھر سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو عملی زندگی کا حصہ نہ بنایا جاسکے۔
دوسری جانب ناقدین کہتے ہیں کہ سنت کامقصد محض علامتوں پہ اصرار، ظواہر پرستی اور رسوم کے پابند زا ہدِ خشک تیار کرنا ہے۔ ان نقادوں ( اور سنت کے منکروں)کا یہ تبصرہ جھوٹ پر مبنی طعن سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ فی الحقیقت اتباعِ سنت کا مقصد باشعور، صاحبِ عزیمت اور حوصلہ مند مردانِ کار تیار کرنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ و صحابیاتؓ اسی طرح کے انسان تھے۔ وہ قلب ِبیدار کے مالک ہمہ دم متحرک اور احساسِ ذمہ داری سے ہر قدم اٹھانے والے لوگ تھے۔ کردار کی یہی وہ خوبیاں ہیں جن میں ان کی کرشماتی صلاحیت و استعدادکا راز پوشیدہ ہے اور انہی خوبیوں کی بدولت انہوں نے اپنی انسانیت ساز تاریخی کامیابیوں سے دنیا کو حیران کردیا تھا۔ بلاشبہ یہ اتباعِ سنت ہی کا اولین اور منفرد پہلو ہے۔
معاشرتی اہمیت و افاد یت:
اتباعِ سنت کا دوسرا پہلو اس کی معاشرتی اہمیت و افادیت ہے۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ بالعموم معاشرتی کشمکش ایک دوسرے کے افعال و عزائم کے بارے میں غلط فہمیوں سے جنم لیتی ہے۔ معاشرے کے افراد کا بے شمار مزاجوں اور ذہنی رجحانات میں تقسیم ہونا ایسی غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔ مختلف مزاجوں سے مختلف عادات اور روئیے پروان چڑھتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ پختہ تر ہوجاتے اور پھر وہ مختلف افراد کے درمیان دیوار بن کر حائل ہوجاتے ہیں لیکن اگر اس کے برعکس معاشرہ ایک ہی جیسی اقدار پر مبنی عادات کا حامل رہے تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ افراد ایک دوسرے کے ہمدرد و غم خوار ہوں گے اور ذہنی طور پر ایک دوسرے کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکیں گے لہٰذا اسلام، جو معاشرے اور فرد دونوں کی یکساں بھلائی اور بہبود کا خواہاں ہے، اس نکتے پر زور دیتا ہے کہ معاشرے میں شامل افراد کو منظم انداز میں یکساں عادات اور مجلسی آداب کی تربیت دی جائے، خواہ ان کا معاشرتی و معاشی مرتبہ ایک دوسرے سے کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کرتی ہے۔ یہ معاشرے کو باہم مربوط اور مستحکم بناتی ہے اور ایسی باہمی منافرتوں کا سدباب کرتی ہے جو مغربی معاشرے میں ’’معاشرتی سوالات و اعتراضات‘‘ کے نام پر پیدا کی گئیں اور جن کی وجہ سے مغربی معاشرہ فکر، نظر اور عمل کے بہت بڑے تضاد و فساد کا شکار ہوا۔ ایسے معاشرتی سوالات اْس وقت سر اٹھاتے ہیں جب یہ محسوس کیا جانے لگے کہ بعض ادارے، روایات اور رسم و رواج بے بنیاد، خام اور ناقص ہیں، لہٰذا ان پر تنقید کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ ’’مثبت‘‘ تبدیلیوں کیلئے راہ ہموار کی جاسکے۔ اہلِ مغرب کے اس المیے کے برعکس جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، وہ اپنے آپ کو احکام ِقرآن کا پابند اور اس پابندی کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا بھی پابند سمجھتے ہیں۔
مسلم معاشرے کی ظاہری شکل و صورت کے برقرار رہنے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مسلمان اپنے معاشرے کو تشکیل دینے والے عوامل کو الہامی اور ابدی سمجھتے ہیں۔ جب تک یہ عقیدہ قائم ہے معاشرتی تشکیل کے بنیادی عوامل کو تبدیل کرنے کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کی کوئی خواہش سر اٹھائے گی۔ انہی حقائق کی روشنی میں ہم قرآن کریم کے اس حکم کی حکمت اور منشا کو سمجھ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کو ’’بنیانِ مرصوص‘‘ یعنی سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہونا چاہئے۔
اگر ہم اس اصول کا اطلاق اپنی اجتماعی زندگی پر کریں تو معلوم ہوگا کہ معاشرے کو ذیلی مسائل اور جزوی ’’اصلاحات‘‘ کیلئے اپنی توانائیاں خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، کہ ان کی جو بھی قدر و قیمت ہے وہ محض وقتی و عارضی ہے۔ اسلامی معاشرے کو فکری و طبقاتی کشمکش کے الجھائو سے نکل کر قانونِ الٰہی اور اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے مادی و فکری مسائل کے حل کیلئے توانائیاں بروئے کار لانا چاہئیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے فرد کے روحانی ارتقا کیلئے کوششوں کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ یہی اسلامی معاشرتی تنظیم کا حقیقی نصب العین ہے۔
رہبر کامل صلی اللہ علیہ وسلم:
آیئے، اب اتباعِ سنت کے تیسرے پہلو کا جائزہ لیتے اور دیکھتے ہیں کہ اس پر پابندی سے عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔ اس نظامِ حیات میں ہماری روزمرہ زندگی کی متعدد جزئیات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر مبنی ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کریں ہمیں ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ اس معاملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کیا تھا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کیا فرمایا۔ یوں بنی نوع انسان کی عظیم ترین شخصیت ہماری روزمرہ زندگی کے معمول میں رچ بس جاتی ہے، اس کا روحانی فیض حقیقی زندگی میں جاری و ساری رہتا اور ہمارے وجود کا مستقل اور فعال حصہ بن جاتا ہے۔
اس راستے کو منتخب کرنے کے بعد ہم شعوری طور پر زندگی کے ہر معاملے میں یہ معلوم کرتے رہتے ہیں کہ کس کس معاملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل کیا تھا۔ یہی ہے وہ صراطِ مستقیم جس پر چلتے ہوئے ہم بتدریج یہ جان لیتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صرف وحی لانے والے ہی نہیں بلکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم ساری زندگی کیلئے ہمارے رہبر بھی ہیں۔
اس مرحلے پر ہمیں لازماً یہ ایک فیصلہ کرلینا چاہئے کہ آیا ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے دوسرے حکیم و دانا انسانوں کی طرح محض ایک حکیم و دانا انسان کے طور پر لینا چاہئے، یا نوعِ انسانی کیلئے اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماننا چاہیے جن کا ہر ہر فعل وحی الٰہی کے تابع تھا؟
اس بارے میں قرآن مجید کا نقطہ نظر بالکل صاف، واضح اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیا اور رحمت للعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) بناکر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی اور احکام کے کسی حصے سے منہ موڑنا خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے منہ موڑنے یا اسے کم تر سمجھنے کے مترادف ہوگا۔ مزید برآں سنت پر عمل سے انحراف یا ایسا خیال رکھنے والا شخص اس سوچ کا حامل قرار پائے گا کہ اسلام کا پیغام کوئی حتمی پیغام نہیںبلکہ انسانی مسائل کے جو متعدد مختلف حل پیش کیے گئے، ان میں سے وہ بھی ایک حل ہے اور یہ فیصلہ اب فرد کی صوابدید پر ہے کہ ہم پیغام اسلام کو اختیار کریں یا کسی دوسرے حل کو، جو غالباً یکساں طور پر سچا اور کارآمد حل ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ بظاہر ایک آسان راستہ ہے کیونکہ اس پر چلتے ہوئے اخلاقی اور عملی طور پر کسی حکم یا ہدایت کی پابندی لازم نہیں رہتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ راستہ ہمیں کہیں بھی لے جاسکتا ہے مگر روحِ اسلام کی طرف ہرگز نہیں لے جاسکتا۔ اس بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
’’آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین (نظام حیات) مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت (ہدایت) تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین چن لیا۔‘‘ (المائدہ 3)۔
ہم اسلام کو تمام دینی نظاموں کے مقابلے میں برتر سمجھتے ہیں کیونکہ یہ ساری کی ساری زندگی کو اپنے دامنِ رحمت میں سمیٹ لیتا ہے۔ اسلام بیک وقت دنیا اور آخرت، روح اور بدن اور فرد اور معاشرے کو یکساں اہمیت دیتا ہے۔
وہ نہ صرف انسانی فطرت کے ارفع امکانات کو نگاہ میں رکھتا ہے بلکہ اس میں مضمر مجبوریوں اور کمزوریوں کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔ اسلام ہم پر کسی ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا جسے ادا کرنا ہمارے لئے ممکن نہ ہو۔ وہ ہمیں اپنے ذاتی امکانات اور صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لانے کیلئے رہنمائی عطا کرتا ہے اور فہمِ حق اور مشاہدۂ حق کے اُس اعلیٰ مقام پر لے جاتا ہے جہاں نظریے اور عمل میں کوئی تضاد اور خلیج حائل نہیں رہتی۔
لاریب اسلام دوسرے راستوں کی طرح ایک راستہ نہیں بلکہ واحد راستہ (الصراط المستقیم) ہے، اور وہ برتر انسان صلی اللہ علیہ وسلم جس نے اس کی تعلیمات سے ہمیں روشناس کرایا، وہ انسانی تاریخ کے عظیم رہنمائوں میں سے محض ایک رہنما نہیں بلکہ ہادیٔ خاص صلی اللہ علیہ وسلم (The Guide) ہیں۔ اس ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم پر عمل کرنا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرنا ہی اسلام ہے اسی لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے روگردانی یا اسے ترک کرنا فی الواقع حقیقت ِاسلام سے روگردانی ہوگی۔
(ترجمہ: ذوالقرنین)