Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فطری نکھار کی قائل ہوں، فرح احسن

عورت کیلئے گھر ہی اس کی کل کائنات ہوتی ہے، یہ سبق والدہ نے پڑھایا، ’’ہوا کے دوش‘‘ پرملاقات کا احوال

 

تسنیم امجد۔ریاض

وطن عزیز میں بسنے والے اکثر تبدیلیوں سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ خاص کر سیاسی سطح پر تو یہ جملہ سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ ’’تبدیلی آ کر رہے گی‘‘ اور کئی کہتا ہے کہ کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، عوام مزے میں ہیں۔بہر حال یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے پردۂ سماعت سے اس قسم کی صوتی لہریں متصادم ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی تاہم یہ امر کسی طور جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ وطن سے رختِ سفر باندھنے والے دیس کی سرحد سے نکلتے ہی تارکین وطن کی فہرست میں شمار ہونے لگتے ہیں۔ پردیس پہنچتے ہیں تو انہیںقدم قدم پر تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے پیروں تلے زمین نئی ہوتی ہے، سر پر آسمان نیا ہوتا ہے، سنی جانے والی زبان نئی ہوتی ہے ، نظر آنے والا انسان نیا ہوتا ہے،پردیس میں قانون نیا ہوتا ہے، حکمران نیا ہوتا ہے ،ان کے لئے قانون نیا ہوتا ہے،ان کی تلبیس نئی ہوتی ہے، ان کا پکوان نیا ہوتا ہے، ان کی طلب نئی ہوتی ہے، ارمان نیا ہوتا ہے۔اس کے احساسات کی اُڑان نئی ہوتی ہے ، اس کے بحرِجذبات میں اٹھنے والا طوفان نیا ہوتا ہے۔ تارک وطن کی زندگی میں در آنے والی اتنی تبدیلیاں اسے یکسر بدل کر رکھ دیتی ہیں،اس کی سوچ نئی ہوتی ہے اوراب خود بھی وہ، وہ نہیں رہتا بلکہ اک انسان نیا ہوتا ہے۔

اردو نیوز کا یہ طرۂ امتیاز ہے کہ وہ قارئین کو کبھی وطن اور کبھی بیرون وطن زندگی بسر کرنے والے اہالیانِ وطن کے طرز حیات اور اندازِ سخن سے آگاہ کرتا رہتا ہے ۔ صد آفرین اس انٹر نیٹ پر جس نے دنیا بھر کو غیر مرئی جال میں سمو کر ایک عالمی قریہ بنا دیا۔ آج کے دور میں دلوں کے درمیان فاصلے تو شاید بڑھ گئے مگر جغرافیائی فاصلے صرف ایک کلک کی دوری پر رہ گئے۔اسی ’’کلک‘‘ نے کرۂ ارض پر بسنے والے دلدادگانِ ریختہ کو شیر و شکر کردیا ہے۔ آج ’’ہوا کے دوش‘‘ پر اردو نیوز کو کسی ویزے کی ضرورت نہیں رہی۔’’ بیک جنبشِ انگشت‘‘ زمان و مکان ایک دوسرے سے بغلگیر ہوجاتے ہیں۔ ’’ہوا کے دوش پر‘‘ مہمانِ امروزفرح احسن ہیں۔ ان سے ملاقات کی تو اس امر کا یقین ہوگیا کہ تیسری دنیا میں شامل ہونے کے باوجود ایشیائی ممالک کی خواتین صلاحیت، اہلیت و قابلیت کے اعتبار سے بے نظیر و بے مثال ہیں۔وہ گرہستی میں تو درجۂ کمال پر متمکن ہیں ہی ، اگر وہ گھر سے باہر میدان عمل میں قدم رکھ دیں تو بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں رہتیں۔وہ صنفِ قوی کے حکم پر چلنا ہی نہیں بلکہ انہیں اپنے حکم پر چلانا بھی جانتی ہیں ۔فرح ایسی دختر پاکستان ہیں جن کی مسکراہٹ میں ایک عزم جھلکتا ہے، ان کی آنکھوں کی چمک یہ اعلان کرتی دکھائی دیتی ہے کہ وہ ترقی کا ہمالہ سر کرنے کے حوصلے سے معمور ہیں۔انہیں ہم نے پاکستان رائٹرز کلب کے ایک پروگرام میں تحریک پاکستان کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے دیکھاتو ان سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

ان کی شعلہ بیانی سن کر یوں محسوس ہوا جیسے جامعہ کا دور لوٹ آیا ہے ۔ تقریری مقابلوں کی گرمجوشی انتہائی شدت سے یاد آنے لگی۔ یہ سچ ہے کہ یادیں تمام عمر ذہن انسانی کے کسی گوشے میں دبکی رہتی ہیں اور موقع محل کے اعتبار سے یادوں کے دروازوں پر دستک دیتی اور ماضی کے دریچے وا کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ فرح نے کہا کہ خوب سے خوب تر کی جانب سفرہمیشہ سے ہی میرا مطمحِ نظر رہا ہے ۔ یقین جانئے، کلاس میں اول پوزیشن لینا میں نے اپنا حق سمجھ لیا تھا۔ہمارے استفسار پر فرح احسن نے بتایا کہ میں اسلام آباد میںپیدا ہوئی۔ ایف ایس سی تک کی تعلیم کراچی میں حاصل کی۔ ماسٹرز پنجاب یونیورسٹی سے کیا ا ور پھر اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد آگئی۔ یوں وطن عزیز کے تین شہروں کے عظیم تعلیمی اداروں سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔میری شخصیت کے اطوار انہی تعلیمی اداروں کی تربیت کا پرتو ہیں۔ میں نے ایم ایس سی اکنامکس اور فنانس اول گریڈ میں پاس کیا ۔ میں ماسٹرز کے درجے تک تنہا نہیں پہنچ پائی کیونکہ تھرڈ ایئر میں ہی میرے شریک حیات، ہم قدم ہو چکے تھے۔ احسن وقار عباسی میرے خالہ زاد ہیں۔ میری پرورش اور شخصیت کی تعمیر میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ میری والدہ نجمہ السحرکا انتہائی ا ہم اور بھرپور کردار ہے ۔وہ آج بھی اسلام آباد میں وزارتِ محنت و افرادی قوت میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ میرے والد محمد اجمل خان آج اس دنیا میں ن ہیں مگر مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ میرے ساتھ ہیں۔ انہوں نے مجھے اعتماد کی دولت سے نوازا۔میرے سسر غلام کبریا عباسی نے بھی مجھے بابا کا سا پیار دیا۔

وہ خالو تو تھے ہی ، پھر انہوںنے مجھے باپ کی شفقت سے بھی نوازا۔نند مہرین اختر عباسی، دیور احمد وقار عباسی، سمیر وقار عباسی اور اویس وقار عباسی نے سسرالی ہونے کے باوجود کبھی سسرالیوں کا سا سلوک نہیں کیا۔مہرین آج کل 18ویں گریڈ میں اسلام آباد میں لیکچرار ہیں۔ ان کے شوہر پی ٹی وی میں انجینیئر ہیںجبکہ مہرین جغرافیہ میں ایم ایس سی کر رہی ہیں۔ فرح کے شریک سفر احسن وقار عباسی نے کہا کہ ہم میاں بیوی، بابائے قوم قائد اعظم کے فرمان ’’کام ، کام اور صرف کام‘‘ پر عمل پیرا ہیں ۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی شے پر قناعت نہیں کرتا۔کسی پڑاؤ کو اپنا دائمی مستقر نہیں مانتا۔ میں اس امر پر یقین رکھتا ہوں کہ خوب سے خوب تر کی جستجو انسان کو سرگرم اور آمادۂ عمل رکھتی ہے۔احسن وقار نے بتایا کہ انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کرنے کے بعد میں نے سمندر پار پاکستانیوں کے بیشتر شعبوں میں کام کیااور اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ فرح نے میری زندگی میں آنے کے بعد بھرپور تعاون کیا۔

رب کریم نے ہمیں تین اولادوں سے بھی نوازا۔بیگم نے اپنی آئوٹ ڈور مصروفیات کا بچوں کی تربیت پر کوئی اثر نہیں ہونے دیا۔ہماری بڑی بیٹی حفصہ احسن اے لیول میں ہے۔ عمر احسن 7ویں گریڈ میں ہیں۔ زید احسن ابھی چھوٹے ہیں تاہم وہ گھریلو ماحول اور بڑے بہن بھائی کی دیکھا دیکھی اسکالر بننے کی کوشش میں مصروف ہیں۔فرح نے کہا کہ میں ملازمت کرتی ہوں مگر میں نے اس کی وجہ سے کبھی گھر داری کو نظر انداز نہیں ہونے دیاویسے بھی عورت کے لئے گھر ہی اس کی کل کائنات ہوتی ہے ۔ یہ سبق میں نے اپنی والدہ سے پڑھا ۔ انہوں نے کہا کہ میری بہن عنیزہ اجمل، بھائی عدیل اجمل بھی ایک کامیاب سفر پر رواں دواںہیں ۔ مجھے اپنی بھابھی مہوش سے بہنوں کی طرح محبت ہے اور بھتیجی عدیمہ عدیل تو پھوپھو کی جان ہے۔

شیئر: