Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امارہ ، لوامہ اور مطمئنہ، نفس کی قسمیں

 
انسانی نفس کی 3 حالتیں ہیں اور وہ یہ ہیں :نفس امارہ،نفس لوامہ اورنفس مطمئنہ۔
 
نفس امارہ
قرآن کی آیت کریمہ میں نفس کو” برے کاموں کا تقاضا کرنے والا بتایا گیا ہے۔ “حدیث میں بھی مذکور ہے کہ جناب نبی کریم نے صحابہ کرامؓ سے استفسار فرمایا کہ” ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیاخیال ہے کہ اگر تم اس کا اعزاز واکرام کرو اور اسے کھلاؤ پلاؤ تو وہ تمہیں آزمائش اور مصیبتوں میں ڈالے اور اگر تم اسے ذلیل رکھو اور اس کی اہانت کرو اور اسے بھوکا اور ننگا رکھو تو وہ تمہارے ساتھ خیر کامعاملہ کرے ۔“صحابہ ؓنے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس سے بُرا ساتھی تو دنیا میں کوئی نہ ہوگا تو آپ نے فرمایاکہ”اس ذات کی قسم جسکے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ،تمہارا وہ نفس جو تمہارے پہلو میں ہے وہ تمہارا ایسا ہی ساتھی ہے ۔“نیز فرمایا کہ
تمہارا سب سی بڑا دشمن تمہارا خود نفس ہے جو تمہیں برے کاموں میں مبتلا کرکے تمہیں ذلیل کرتاہے اور طرح طرح کے مصائب میں مبتلا رکھتاہے ،یہی نفس امارہ اور اس کا حال ہے ۔
 
 نفس لوامہ
 حق تعالیٰ شانہ نے نفس لوامہ کی قسم کھاتے ہوئے فرمایاہے کہ میںقیامت کے دن کی قسم کھاتاہوں اور قسم کھاتا ہوںنفسِ لوامہ کی ۔القیامہ2,1۔
حضرت انسان جب نفس پرستی کے بجائے خدا پرستی اختیار کرتاہے اور اپنے خالق کے احکام کی تعمیل میں او رآخرت کے خوف میں نفس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو اس کا یہی نفس لوامہ یعنی برے کاموں پر ملامت کرنے والا بن جاتاہے۔یہی حالت عام صالحین کے نفوس کی ہوتی ہے ۔
 
نفس مطمئنہ
 قرآن حکیم میں حق تعالیٰ شانہ نے نفس انسانی کو یوں مخاطب فرمایا کہ اے نفس مطمئنہ ! اپنے رب کی طرف رجو ع کرلے۔الفجر28,27
جو بندہ مومن نفس کےخلاف مجاہدہ کرتے کرتے اس حالت میں پہنچ جاتاہے کہ نفس اس سے برے کاموں کا تقاضا ہی نہیں کرتا تو وہ نفسِ مطمئنہ ہوجاتاہے ۔
نفس کی یہ کیفیت عام صالحینِ امت کو تو مجاہدہ اور ریاضت سے حاصل ہوجاتی ہے ۔حضرت یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے معصوم نبی ہیں، ان کا نفس نفوسِ مطمئنہ میں سے ہے ،اُن کی ذاتِ مقدسہ کی ہر الزام وتہمت سے تو برات عوام وخواص کے سامنے بیا ن ہوچکی ۔بادشاہ نے بھی تما م تحقیقات مکمل کرلیں ،اب ان کی عظمت اور نزہت کے اثبات پر ان کی عظمت وتوقیر کا موقف ہے ۔انہوں نے اپنی پیغمبرانہ اور داعیانہ شان کا اظہار فرمایا اور لوگوں کو ایسی پند ونصیحت فرمائی جو تاقیامت قرآن کا ہر قاری پڑھتارہے اور اس سے موعظت حاصل کرتارہے۔
 
 

شیئر: