چیئرمین سینیٹ کیلئے بلوچستان کے آزاد امیدواروں کا اہم کردار؟
کراچی (صلاح الدین حیدر)سیاست بھی عجیب شے ہے ،کل کے جانی دشمن آج کے دوست بنتے نظر آتے ہیں۔کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ دیکھ لیں نواز شریف اور عمران خان جانی دشمن، ایک دوسرے پر الزمات اور ایک دوسرے کو گرانے کے دائو میں آگے آگے لیکن اب وہی ایک دوسرے کے تعاون کے طلبگار ہیں۔ ’’ن‘‘ لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف نے عمران خان سے حمایت کی درخواست کی ہے تاکہ ان کے 6ووٹوں سے سینیٹ کی 53نشستیں پوری کی جاسکیں۔ دوسری طرف ، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے و الے آصف زرداری نے بھی عمران کو پیغام بھجوایاکہ آئیے مل کر سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب کریں۔ پیپلز پارٹی کا چیئر مین، تحریک انصاف کا ڈپٹی چیئر مین۔یہی نہیں مولانا فضل الرحمن کو بھی آصف زرداری نے امن وشانتی کا پیغام بھجوایا ہے اگر کوئی ذاتی مفادبیچ میں نہیں آیا تو خیر ہے،ورنہ تھالی کے بینگن کی طرح لڑ ھکنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ان کے پاس غالباً 4ووٹ ہیں لیکن نواز شریف کی (ن) لیگ جو حالیہ سینیٹ کے انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے کے پاس 33ووٹ ہیں، اسے مزید 20ووٹوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا سینیٹ کا چیئرمین منتخب کرا سکیں، اس کے لئے بظاہر یہ کام آسان نظر آتاہے۔ زرداری کو چیئرمین سینیٹ لانے کے لئے 33ووٹ درکار ہیں۔نوازشریف کی طرف سے سینیٹر پرویز رشید جو سابق وزیر اطلاعات تھے، پارٹی کے نائب چیئر مین اور مرحوم جنرل ضیا الحق کے اوپننگ بلے باز را جہ ظفر الحق اس عہدے کے امید وار لگتے ہیں۔ حالیہ انٹرویو میں پرویز رشید نے تو صاف کہہ دیا کہ مجھ سے تو روسٹرم پر 5/6گھنٹے نہیں گزارے جائیں گے،ان کے خیال میں موجودہ چیئر مین ، پیپلزپارٹی کے رضاربانی سب سے بہتر انتخاب ہیں۔ایک ایسی پوزیشن کے جس پر انہوں نے سینیٹ کو ایک نئی زندگی دی ہے۔انتہائی قابل، پیشہ وروکیل ،سابق وزیر قانون، لیکن زرداری صاحب کے ساتھ شاید ان کی کچھ بنتی نہیں ۔ اس لئے قرعہ فال کس پر نکلتاہے، انتظار کرنا ہوگا۔(ن) لیگ نے ایم کیو ایم سے بھی رابطہ کیا ہے۔ اس کے پاس ایک ہی ووٹ سہی لیکن وہ بھی بہت کارآمد ہو سکتاہے۔ ایم کیو ایم کے ذمہ داران پیپلزپاٹی کے ساتھ جانے کے لئے تیار نہیں۔کہتے ہیں 20سال ان کے ساتھ رہے، سوائے کشکول کے اور کیا ملا۔سینیٹ کے چیئر مین کا انتخاب 12مارچ کو ہوگا۔ نئے منتخب شدہ سینٹ کے ممبران 11مارچ کو حلف وفا داری اٹھائیں گے۔ پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں سب سے زیادہ آزاد امید وار منتخب ہوئے ہیں اس لئے کھیل دراصل انہی کے ہاتھ میں ہے۔