Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خفیہ ہاتھ پنجاب میں مختلف انتخابی نتائج چاہتے ہیں؟

 
کراچی (صلاح الدین حیدر) وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں 31مئی کو تحلیل ہو جائیں گی۔ اس کامطلب ہے کہ آئین کے تحت 60دن یا زیادہ سے زیادہ 90دن میں نئے انتخابات کرانا پڑیں گے۔ اسمبلیاں تحلیل کرنے کی درخواست وزیراعظم کی طرف سے کی جاتی ہے۔ صدر مملکت کے احکامات کے تحت اس پر فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اس سے پہلے کچھ اس قسم کے بیانات سامنے آرہے تھے کہ اپوزیشن اور حکومت کی باہمی مشاورت سے نگراں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ وفاق اور صوبوں میں تعینات کردیئے جائیں گے لیکن خبریں کچھ ایسی ہیں کہ شاید نگراں وزیراعظم کسی اور کے کہنے پر مقرر کیا جائے۔ ابھی یہ صرف اخباری خبریں ہیں وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا لیکن الیکشن کے انعقاد پر شکوک و شبہات باقی ہیں۔ ریلوے وزیر خواجہ سعد رفیق نے تو اس خدشے کا برملا اظہار کردیا ہے کہ گھنٹی کہیں اور سے ہلائی جارہی ہے۔ آج ایک موقر اخبار نے سوال بھی اٹھادیا کہ آئندہ انتخابات ماضی سے کیسے مختلف ہونگے۔ الیکشن کرانا آئینی اور خود مختار ادارے الیکشن کمیشن کا کام ہے جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے سابق جج ہیں اور 4 ممبران سپریم اور ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج ہوتے ہیں۔کیا وہ بیرونی دباو قبول کرلیں گے ویسے پاکستان میں کچھ بھی ممکن ہے اسلئے حیرت کسی بات پر نہیں ہونی چاہئے۔ اخبار کا کہناہے کہ 2013ءکے انتخابات کے پس منظر میں جو سنگین سوالات اٹھے اور آئندہ انتخابات میں ممکنہ مداخلت کے خدشات ہیں۔ الیکشن کمیشن کا کہناہے کہ نئے الیکشن ایکٹ 2017ءکے تحت کئی بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ جس سے 2018ءمیں ہونے والے الیکشن میں بہت مدد ملے گی کہ وہ ہر طرح سے صاف اور شفاف ہوں۔ 2013ءکے انتخابات پر آج تک انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں لیکن وہ کونسی تکنیکی تبدیلیاں ہونگی جس سے الیکشن کمیشن کے بیان پر یقین کیا جاسکتا ہے اسکی وضاحت نہیں کی گئی۔ جدید ٹیکنالوجی کے حامل موبائل فون وغیرہ سے نتائج پولنگ بوتھ سے ریٹرننگ افسر تک سیکنڈوںمیںمنتقل کئے جاسکیں گے۔ اگر نتائج بدلنے کی کوشش کی گئی تو اسے کیسے روکا جاسکے گا۔ کچھ سہولتیں تو اب بھی موجود ہیں مثلاً ہر ووٹر اپنے موبائل فون کے ذریعے ایک خاص نمبر پر ڈائل کرکے یہ پتہ لگا سکتا ہے کہ اسکا ووٹ ہے کہ نہیں اور کس پولنگ اسٹیشن پر ہے لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ کیا کچھ خفیہ ہاتھ پنجاب میں نتائج مختلف چاہتے ہیں۔ نواز شریف کا نعرہ مجھے کیوں نکالا بہت زیادہ مقبول ہوچکا ہے۔ پنجاب میں (ن) لیگ کی پوزیشن بہت مضبوط نظر آتی ہے پھر بھی عمران خان کا کہناہے کہ نواز شریف اور مریم نواز جلد اڈیالہ جیل کی ہوا کھائیں گے ایسی صور ت میں کیا (ن) لیگ اپنے آپ کو مجتمع رکھ پائیگی یا اس میں افراتفری کا امکان ہے پھر حلقہ بندیوں پر اعتراض ہے جسے حل کرنے میں کافی وقت درکار ہے۔ تو ا گر نتائج پر نہ ختم ہونے والی بحث جاری رہی اور حلقہ بندیوں کے مسائل پر وقت پر مسائل حل نہ ہوئے تو پھر بھی الیکشن مقررہ وقت پر ہوجائیں گے۔یہی سب سے اہم سوال ہے۔
 

شیئر: