ماہ ِرجب میں کسی خاص نماز پڑھنے کا یا کسی معین دن کے روزے رکھنے کی فضیلت کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ سے نہیں ملتا
*******
محمد نجیب قاسمی سنبھلی ۔ ریاض
اسلامی سال کا ساتواں مہینہ رجب المرجب ہے۔ رجب اُن 4 مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے، ارشاد ہے :
’’ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد12مہینے ہے جو اللہ کی کتاب (یعنی لوح محفوظ ) کے مطابق اُس دن سے نافذ ہیں جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان (12مہینوں) میں سے4 حرمت والے ہیں۔‘‘( التوبہ36)۔
ان 4 مہینوں کی تحدید قرآن کریم میں نہیں بلکہ نبی اکرم نے ان کو بیان فرمایا ہے اوروہ یہ ہیں :
ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب۔
معلوم ہوا کہ حدیث نبوی ؐکے بغیر قرآن کریم نہیں سمجھا جاسکتا ۔ ان 4 مہینوں کو اشہر الحرام کہا جاتا ہے۔ ان مہینوں کو حرمت والے مہینے اس لئے کہتے ہیں کہ ان میں ایسے کام سے جو فتنہ وفساد ، قتل وغارتگری اور امن وسکون کی خرابی کا باعث ہوں منع فرمایا گیا ہے۔ اگرچہ لڑائی جھگڑا سال کے دیگر مہینوں میں بھی حرام ہے مگر اِن 4 مہینوں میں لڑائی جھگڑا کرنے سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ ان 4مہینوں کی حرمت وعظمت پہلی شریعتوں میں بھی مسلّم رہی ہے حتیٰ کہ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان4 مہینوں کا احترام کیا جاتا تھا۔
رجب کا مہینہ شروع ہونے پر حضور اکرم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگا کرتے تھے:
اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَان۔
’’ اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمیں برکت عطا فرما اور ماہ رمضان تک ہمیں پہنچا۔‘‘ (مسند احمد وبیہقی)۔
لہذا ماہِ رجب شروع ہونے پر ہم یہ دعا یا اس مفہوم پر مشتمل دعا مانگ سکتے ہیں۔ اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک رمضان کی کتنی اہمیت تھی کہ ماہ ِ رمضان کی عبادت کو حاصل کرنے کیلئے آپ رمضان سے 2ماہ قبل دعاؤں کا سلسلہ شروع فرمادیتے تھے۔ ماہِ رجب کو بھی آپ کی دعاسے برکت حاصل ہوئی جس سے ماہ ِ رجب کا کسی حد تک مبارک ہونا ثابت ہوتا ہے۔
ماہ ِرجب میں کسی خاص نماز پڑھنے کا یا کسی معین دن کے روزے رکھنے کی خاص فضیلت کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ سے نہیں ملتا ۔ نماز وروزہ کے اعتبار سے یہ مہینہ دیگر مہینوں کی طرح ہی ہے البتہ رمضان کے پورے ماہ کے روزے رکھنا ہر بالغ مسلمان مرد وعورت پر فرض ہیں اور ماہ شعبان میںکثرت سے روزے رکھنے کی ترغیب احادیث میں موجود ہے۔
ماہ رجب میں نبی اکرم نے کوئی عمرہ ادا کیا یا نہیں؟ اس بارے میں علماء ومؤرخین کی آراء مختلف ہیں البتہ دیگر مہینوں کی طرح ماہ رجب میں بھی عمرہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ اسلاف سے بھی اس ماہ میں عمرہ ادا کرنے کے ثبوت ملتے ہیں البتہ رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ میں عمرہ ادا کرنے کی کوئی خاص فضیلت احادیث میں موجود نہیں ۔
واقعۂ معراج کی تاریخ اور سال کے متعلق مؤرخین اور اہل سیر کی آراء مختلف ہیں۔ ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ نبوت کے 12ویں سال 27 رجب کو51سال 5 مہینہ کی عمر میں نبی اکرم کو معراج ہوئی جیساکہ علامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری رحمۃا للہ علیہ نے اپنی کتاب "مہر نبوت"میں تحریر فرمایا ہے۔
’’اسراء ‘‘کے معنیٰ رات کو لے جانے کے ہیں۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کا سفر جس کا تذکرہ سورۂ بنی اسرائیل کی درج ذیل آیت میں کیا گیا ہے:
’’ پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔‘‘(بنی اسرائیل1)۔
مسجد اقصیٰ سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے۔معراج عروج سے نکلا ہے جس کے معنیٰ چڑھنے کے ہیں ۔ حدیث میں "عرج بی" یعنی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا کا لفظ استعمال ہوا ہے اس لئے اس سفر کا نام معراج ہوگیا۔ اس مقدس واقعہ کو اسراء اور معراج دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر اِن آیات میں بھی ہے:
’’پھر وہ قریب آیا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک، اس طرح اللہ کو اپنے بندے پر جو وحی نازل فرمانی تھی، وہ نازل فرمائی۔‘‘(النجم10-8)۔
سورۃ النجم کی آیات13سے 18میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں، ارشاد ربانی ہے:
’’ اسے(یعنی فرشتے کو) تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا سِدرۃِ المنتہیٰ(یعنی بیر کے درخت) کے پاس،اسی کے پاس جنت المأویٰ ہے جبکہ سِدرہ(بیر کے درخت)کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو چھا رہی تھی، نہ تو نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی،یقینا اُس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں ۔ ‘‘
یہ واقعہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے یعنی صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کی ایک بڑی تعداد سے معراج کے واقعہ سے متعلق احادیث مروی ہیں۔
انسانی تاریخ کا سب سے لمبا سفر :
قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھا یعنی نبی اکرم کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزرکر اتنا بڑا سفر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کردیا۔ اللہ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والاہے، اس کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیںکیونکہ وہ تو قادر مطلق ہے،جو چاہتا ہے کرتا ہے۔اُس کے تو ارادہ کرنے پر چیز کا وجود ہوجاتا ہے۔ معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم، مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب کو دعوت دے کر اپنا مہمان بنانے کا وہ شرف عظیم عطا فرمایا جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے اور نہ کسی مقرب ترین فرشتے کو۔
واقعہ معراج کے مقاصد میں جو سب سے مختصر اور عظیم بات سورہ بنی اسرائیل میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔ اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد کو وہ عظیم الشان مقام ومرتبہ دینا ہے جو کسی بھی بشر حتیٰ کہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو نہیں ملا اور نہ ملے گا،نیز اس کے مقاصد میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات میں ہوا، نیز اس کا حکم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم تک نہیں پہنچا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیت ِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب کو عطا فرمایا۔ نماز اللہ جل شانہ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو مانگنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نماز میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے مناجات ہوتی ہے۔
واقعۂ معراج کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضور اکرم کے پاس سونے کا طشت لایا گیا جو حکمت اور ایمان سے پُر تھا۔ آپ کا سینہ چاک کیا گیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا اور پھر بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والی ایک سواری یعنی براق لایا گیاجو لمبا سفید رنگ کا چوپایا تھا، اس کاقد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا، وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاںتک اس کی نظر پڑتی تھی۔ اس پر سوار کرکے حضور اکرم کو بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں تمام انبیائے کرام نے حضور اکرم کی اقتداء میں نماز پڑھی، پھر آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔
پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام ، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد البیت المعمور حضور اکرم کے سامنے کردیا گیا جہاں روزانہ 70ہزار فرشتے اللہ کی عبادت کے لئے داخل ہوتے ہیں جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔ پھر آپ کو سدرۃ ِالمنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ اس کے پتے اتنے بڑے ہیں جیسے ہاتھی کے کان ہوں اور اس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیںجیسے مٹکے ہوں۔ جب سدرۃ ِالمنتہیٰ کو اللہ کے حکم سے ڈھانکنے والی چیزوں نے ڈھانک لیا تو اس کا حال بدل گیا۔ اللہ تعالیٰ کی کسی بھی مخلوق میںاتنی طاقت نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کرسکے۔ آپ کوسدرۃ ِالمنتہیٰ کی جڑ میں 4نہریں نظر آئیں،2 باطنی نہریں اور2 ظاہری نہریں۔ حضور اکرم کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ باطنی2 نہریں جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری 2 نہریں فرات اور نیل ہیں (فرات عراق اور نیل مصر میں ہے)۔
اس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرما ئی تھی اور 50 نمازیں فرض کیں۔ واپسی پررسول اللہ کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضور اکرم چند مرتبہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے اور نماز کی تخفیف کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ 5نمازیں معاف کردی گئیں یہاں تک کہ صرف 5 نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی لیکن اس کے بعد حضور اکرم نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں اللہ کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی :
’’ میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ۔‘‘
یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں سے تخفیف کردی اور میں ایک نیکی کا بدلہ10 بناکر دیتا ہوں۔ غرضیکہ نماز ادا کرنے میں 5 ہیں اورثواب میں 50 ہی ہیں۔
اس موقع پر حضور اکرم کو اللہ تعالیٰ سے انسان کا رشتہ جوڑنے کا سب سے اہم ذریعہ یعنی نماز کی فرضیت کا تحفہ ملا اور حضور اکرم کا اپنی امت کی فکر اور اللہ کے فضل وکرم کی وجہ سے 5نماز کی ادائیگی پر 50نمازوں کا ثواب دیا جائے گا، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے 2انعام مزید عطا فرمایا:
1) سورۃ البقرہ کی آخری آیت (آمَنَ الرَّسُولُ سے لے کر آخر تک) عنایت فرمائی گئی۔
2) اس قانون کا اعلان کیا گیا کہ حضور اکرم کے امتیوں کے شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے یعنی کبیرہ گناہو ں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے بلکہ توبہ سے معاف ہوجائیں گے یا عذاب بھگت کر چھٹکارا مل جائے گا البتہ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
زمانہ ٔ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے کہ حضور اکرم شب معراج میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوئے یا نہیںاور اگر رؤیت ہوئی تو وہ رؤیتِ بصری تھی یا رؤیتِ قلبی ، البتہ ہمارے لئے اتنا مان لینا انشاء اللہ کافی ہے کہ یہ واقعہ برحق ہے، یہ واقعہ رات کے صرف ایک حصہ میں ہوا، نیز بیداری کی حالت میں ہوا اور حضور اکرم کا یہ ایک بڑا معجزہ ہے۔
قریش کی تکذیب اور ان پر حجت قائم ہونا:
رات کے صرف ایک حصہ میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیائے کرام کا آپ کی امامت میں وہاں نماز پڑھنا،پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیائے کرام سے ملاقات اور پھر اللہ جل شانہ کے دربار میں حاضری، جنت ودوزخ کو دیکھنا، مکہ مکرمہ تک واپس آنا اور واپسی پر قریش کے ایک تجارتی قافلہ سے ملاقات ہونا جو ملک شام سے واپس آرہا تھا۔
جب حضور اکرم نے صبح کو معراج کا واقعہ بیان کیا تو قریش تعجب کرنے لگے اور جھٹلانے لگے۔ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اس واقعہ کا ذکر کیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ نے یہ بات کہی ہے تو سچ فرمایا ہے۔ اس پر قریش کے لوگ کہنے لگے کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آسمانوں سے آپکے پاس خبرآتی ہے،اِسی وجہ سے سیدنا ابوبکرؓ کا لقب صدیق پڑ گیا۔ اس کے بعد جب قریشِ مکہ کی جانب سے حضور اکرم سے بیت المقدس کے احوال دریافت کئے گئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیت المقدس کو حضور اکرم کے لئے روشن فرمادیا۔ اُس وقت آپ حطیم میں تشریف فرما تھے۔ قریشِ مکہ سوال کرتے جارہے تھے اور آپ جواب دیتے جارہے تھے۔
(جاری ہے)