ایم کیو ایم پاکستان اور ڈاکٹر فاروق ستار کا مستقبل کیا ہے؟
کراچی (صلاح الدین حیدر) سندھ میںحکمران پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ سابق ایم این اے اور ڈپٹی اسپیکر ، نبیل گبول نے کہا کہ ڈاکٹر فاروق ستار اچھے اور نیک انسان ہیں۔ ان کا ایک اعلیٰ مقام بھی ہے۔ وفاقی اور صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی تھے۔ تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ کافی عرصہ پہلے بے نظیر بھٹو نے بھی ڈاکٹر فاروق ستار کی بہت تعریف کی تھی اور انہیں پارٹی میں لانے کی خواہشمند تھیںلیکن پارٹی کے قائد کے طرف سے ابھی مکمل خاموشی ہے۔سوال بہت ٹیڑھا ہے لیکن سوا ل اہم بھی ہے۔الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم کے بارے میں فیصلہ کیا کیا۔کئی ایک سوالات کو بیک وقت جنم دیتا ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیو ایم کی سربراہی سے ہٹائے جانے کے بعد خود ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ سیاست کو خیرباد کہیں گے یا کسی اور نئے رول میں نظر آئیں گے خو دایم کیو ایم پاکستان کتنی مشکلات کا شکار رہے گی۔ کیا دونوں دھڑوں ، بہادرآباد اور پی آئی بی کالونی میں دوبارہ اتحاد ممکن ہے یا تعلق مستقل ختم ہوگئے ۔ یہ وہ موضوع ہے جو کراچی اور سندھ کے تمام شہری علاقوں میں جہاں ایم کیو ایم کے حمایتی ، ووٹرز ہمدرد موجود ہیں جاننے کے لئے بے چین ہیں۔تصورات اور وضا حتیں تو بہت ملیں، ایم کیو ایم میں فیصل سبزواری ، اور پی آئی بی کالونی کے قومی اسمبلی کے نوجوان ممبر علی رضا عابدی پارٹی کی تیزی سے گرتی ہوئی حالت زار پر روشنی تو ضرور ڈالی لیکن تشنگی پھر بھی باقی ہے اور شاید ابھی کچھ ہفتوں تک اس میں مزید اضافہ ہوجائے۔ایم کیو ایم یا متحدہ قومی موومنٹ ، جو دراصل مہاجروں کی نمائندہ جماعت کی حیثیت سے سیاست کے نقشے پر ابھری پہلے تو مہاجر قومی موومنٹ کہلائی، لیکن بعد میں قومی دھارے میں شمولیت کی ضرور ت کو محسوس کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے جانی پہچانی جانے لگی۔قدرت کے قانون کے مطابق ہر عروج کو زوال ہے تو ایم کیو ایم کیسے قدرت کے قانون سے بچ سکتی تھی۔پہلے تو الطاف حسین جدا کئے گئے۔ 22اگست 2016 کے بعد ان کے نائب ڈاکٹر فاروق ستار نے کمان سنبھالی لیکن اب وہ بھی ان کے اپنے الفاظ میں ’’مائنس ٹو ‘‘-2،ہوگئے ۔ایک صحافی کی حیثیت میں سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے فیصل سبزواری جو اس وقت ایم کیو ایم بہادرآباد کے صف اوّل کے نمائندوں میں شمار کئے جاتے ہیںسے رابطہ کیا۔ انہوںنے بڑے پر سکون لہجے میں وہی بات دہرائی جو وہ اور ان کے ساتھی، خالد مقبول صدیقی ، کنورنوید جمیل کئی مرتبہ دہرا چکے تھے کہ فاروق بھائی ہماری پارٹی کا حصہ ہیں، قائدتو نہیں لیکن ان کی پارٹی کی بنیاد ی رکنیت تو ختم نہیں کی گئی۔ ان کی راہ بے چینی سے تک رہے ہیں ۔دوسری طرف قومی اسمبلی کے ممبر علی رضا عابدی جو کہ ایم کیو ایم پاکستان سے نکل کر ڈاکٹر فاروق ستار کی صفوں میں جا کھڑے ہوئے نے ایک اور فارمولا پیش کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں بلکہ ضروری جانتا ہوں کہ ایم کیو ایم کی آپس میں چپقلش ختم ہونی چاہیے، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر اعتماد کا مظاہرہ کیا جائے۔دونوں دھڑوں کی رابطہ کمیٹی یا پالیسی ساز ادارے کو تحلیل کر کے انٹرا پارٹی انتخابات جس میں ہر ایم کیو ایم کا ورکر بھی نہ صرف شرکت کرسکے، بلکہ عہدے کا امید وار بھی ہو، کرادئیے جائیںجو لیڈر ابھر کر آئے گا سب کو اسے تسلیم کر لینا چاہیے۔ رضا علی عابدی کی تجویز پر فیصل سبز واری کا ردّعمل کچھ ملا جلا سا ہے انہوں نے گول مول الفاظ میںجواب دیا کہ سب کچھ ممکن ہے لیکن پہلے بیٹھ کر بات تو کرلی جائے۔ فیصل سبز واری کا جواب ابھی بھی تحفظات کا حامل تھا۔اُدھر ڈاکٹر فاروق ستار جو کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے آگ بگولا ہورہے تھے، نے ورکز کا اجلاس بلالیا یہ پوچھنے کے لئے کہ کیا فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا جائے یا پھر کسی اور متبادل طریقے کو اپنایا جائے۔اب تک فاروق ستارنے پی آئی بی میں اپنے پرانے ساتھیوں سے اتحاد کی بات کو اہمیت نہیں دی تھی۔دوسری طرف سابق وزیر رئوف صدیقی نے کہہ دیا کہ ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی اسلام آباد سے واپس آکر اس بات پر مزید اپنے لوگوں سے مشورہ کریںگے۔ ساتھ میں یہ بھی فرماد یا کہ ’’ہمارے دروازے سب کے لئے کھلے ہوئے ہیں‘‘۔ علی رضا عابدی کا سوال صرف ایک تھا کہ آخر ڈاکٹر فاروق ستار کس حیثیت میں دوبارہ بہاد ر آباد جائیں گے یا اتحاد کی شکل کیا ہوگی۔گویا کہ دونوں دھڑے دو پاٹ کی طرح ملتے نظر نہیں آتے۔ ایسی صورتحال میں ایک عام اردوبولنے والا یا ہندوستان سے ہجرت کرنے والا جو کہ ایم کیو ایم کو اپنا سب کچھ دے بیٹھا تھا، پریشان ہے کہ اس کا کیا بنے گا۔پھر اس سال انتخابات میں اگر پی آئی بی اور بہادرآباد کے دھڑے ایک نہیں ہوتے تو کراچی، حیدر آباد، میر پور خاص ، نواب شاہ ، ٹنڈو آدم، سکھر وغیرہ میں جہاں مہاجروں کی اکثریت ہے، میں کیا بنے گا۔ اگر دونوں دھڑے مل کر الیکشن لڑتے ہیں تو ایم کیو ایم آج بھی بھاری اکثریت سے جیت سکتی ہے۔اس کا ووٹ بینک بالکل محفوظ ہے۔ ورکرز میں دل آزاری اور بے چینی ضرور ہے لیکن وہ پیپلزپارٹی یا جماعت اسلامی کو ووٹ دینے کے لئے تیار نہیں لگتے۔ فاروق ستار نے شکوہ کیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کہیں اور لکھا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم نے حقارت سے جھٹک دیا ، کوئی’’ من گھڑت ‘‘فیصلہ نہیں تھا۔ اگر فاروق ستار ایسی باتیں کرتے ہیں تو وہ توہین الیکشن کمیشن کی گرفت میں آسکتے ہیں۔فروغ نسیم جو مانے ہوئے وکیل ہیں۔ ایم کیو ایم کا مقدمہ الیکشن کمیشن کے سامنے لڑا تھا۔صاف طور پر کہہ دیا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی را بطہ کمیٹی نے دو تہائی اکثریت اور پارٹی کے آئین اور قانون کے مطابق انہیں قیادت سے علیحدہ کیا تھا۔ اس میں جھگڑے ،فساد کی کیا بات ہے؟ایسی صورتحال میں سوال جو کہ سب سے اہم ہیکہ انتخابات میں اگر ایم کیو ایم متحد نہیں ہوئی تونتائج برے ہوسکتے ہیں ۔